پی ٹی آئی والوں کو اڈیالہ سے حکم آیا ایوان میں عوام کی بات نہیں کرنی ، بلال اظہر کیانی
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد : کنوینر پارلیمانی ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز بلال اظہر کیانی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والوں کو اڈیالہ سے حکم آیا ہے کہ ایوان میں عوام کی بات نہیں کرنی۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈٰیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلال اظہرکیانی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت نےجھوٹ پرمبنی نیوزکانفرنس کی، پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ہمیں ایوان میں بات نہیں کرنے دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کواسمبلی میں بات کرنےکا بھرپورموقع دیا جاتا ہے، یہ ہمیشہ وقفہ سوالات کےدوران ایوان کوڈسٹرب کرتےہیں،اپوزیشن کے ارکان ایجنڈے کے دوران بات کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں ، یہ اسمبلی میں آتے ہیں تو ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیتے ہیں۔
کنوینر پارلیمانی ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز کا کہنا تھا کہ اڈیالہ سے حکم آیا ہے کہ ایوان میں عوام کی نہیں صرف ان کی بات سنی جائے ، یہ عوامی ایشو پر بات کرنے کے بجائے صرف بانی پی ٹی آئی کی بات کرتے ہیں۔
بلال اظہر کیانی کا مزید کہا کہ پی ٹی آئی کو عوامی مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ، شیر افضل مروت کو ایوان میں بولنے کا موقع ملا تو اپنے ہی ساتھیوں پر تنقید کی۔ بلال اظہرکیانی نے کہا کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے مذاکرات کے وقت بھی غیرسنجیدگی کامظاہرہ کیا،پی ٹی آئی نےہمیشہ سیاسی ڈائیلاگ سے راہ فراراختیارکی،اس نے اپنے سیاسی مفادکے لیے اداروں پرحملے کیے،پی ٹی آئی نے ہمیشہ ملکی مفادات کے خلاف سازشیں کیں،بلال اظہرکیانی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کرملک کودیوالیہ کرنے کی کوشش کی۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کہ پی ٹی آئی ایوان میں کی بات نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
تھو تھو جلسہ ناکام، اڈیالہ میںصف ماتم، تیسرا خط
صوابی میں تھوتھو جلسہ پرانی بات لیکن پی ٹی آئی کی کمر توڑ گیا، پارٹی کے زوال کا باعث بن گیا۔ خیبر پختونخوا کے عوام مایوس، خان صدمہ سے دوچار اسد قیصر کا حلقہ گنڈا پور کی حکومت جنید اکبر کی نئی نئی بڑھکیں کچھ بھی کام نہ آیا۔ پی ٹی آئی ہر احتجاج کے بعد فارغ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ قومی اسمبلی میں او او، جلسوں میں تھو تھو، گنڈا پور نے ریاست پر نہیں پارٹی اور اپنے منہ پر تھوکا، آرٹیکل 6 نہیں لگنا چاہیے؟ اللہ پارٹی پر رحم کرے کیسے لیڈر ہیں جو اپنے بانی کو تاحیات جیل میں رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا اپر چیمبر محاورتاً نہیں حقیقت میں فارغ ہے۔ ایسے میں کسی ڈیل ڈھیل یا سہولت کاری سے کپتان کی رہائی ممکن نہیں، خان وکلاء سے سیاست کرا رہے ہیں، جس کا کام اسی کو ساجھے وکلاء جیل یاترا کے دوران مقدمات پر لائن لینے دینے کے بجائے پیغام رسانی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں جیل سے باہر سینہ پھلا کر میڈیا سے خان کا پیغام شیئر کرتے ہیں اور شام سے رات 12 بجے تک ٹی وی سکرینوں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ خان کے خطوط موضوع بحث، جواب آ گیا، پہلے اور دوسرے خط کے بعد تیسرا خط چوتھا بھی تیار، خطوط غالب کے بعد خطوط خان تاریخ کا حصہ، دو میں 6 نکاتی مطالبات تیسرے میں پانچ کسی نے شیخ مجیب کے درد ناک انجام سے خبردار کر دیا ہو گا۔ جن کے نام لکھے گئے انہوں نے خاموشی توڑ دی، صحافیوں نے آرمی چیف سے سوال پوچھ لیا جواب میں مکمل بے اعتنائی سرد لہجہ لیکن واضح پیغام، کہا ’’مجھے کوئی خط نہیں ملا، ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا۔ وزیر اعظم کو بھیج دوں گا یہ خطوط چالیں ہیں ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ اسے آگے بڑھنا ہے۔‘‘ جواب سے اڈیالہ جیل میں صف ماتم بچھ گئی۔ خان کے لیے چار تباہ کن خبریں شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن اور درپردہ مشیر جسٹس عظمت سعید انتقال کر گئے۔ ’’اب کسے رہنما کرے کوئی‘‘ 9 مئی جلائو گھیرائو کا اعتراف خطوط پر چٹا جواب ترک صدر آئے چلے گئے پوچھا تک نہیں، ٹرمپ نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ (خان کو خط بھیجنے کے لیے قاصد میسر نہیں آیا بڑھکوں والے جس قاصد کے ہاتھ بھیجنا تھا وہ بھی ’’ان‘‘ ہی کا چاہنے والا نکلا۔ اس سے واضح پیغام اور دو ٹوک جواب اور کیا ہو گا (ہن آرام اے) جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے رابطوں کی ساری خبریں بے بنیاد ہو گئیں، اپنے لوگوں نے مشورہ دیا کہ اندھی دیواروں سے ٹکریں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں، احتجاجی سیاست چھوڑ کر ذمہ داروں سے رابطہ کریں، مثبت رویہ کے بعد ہی کوئی کھڑکی کھل سکتی ہے۔ مقبولیت کی خوش فہمی دماغ سے نکال دیں ایک لاکھ افراد یعنی 54 فیصد عوام نے 190 ملین پائونڈ کیس میں خان کی سزا کو درست قرار دیا۔ مقبولیت میں کمی کی وجہ خان کے بدلتے بیانیے، لیڈروں کے بے بنیاد بیانات، رہائی کی اوٹ پٹانگ تاریخیں اور پارٹی میں واضح تقسیم اور انتشار، لیڈر کے لیے کانوں کا کچا ہونا اچھی بات نہیں، وکلاء کی باتوں میں آ کر شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا سیاستدان لیڈروں کی جانب سے فیصلہ پر نظر ثانی کا مطالبہ، ملک کی دیگر جماعتوں کے لیڈروں کو بھی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا لیکن انہوں نے 9 مئی جیسی غلطی نہیں کی (خان کے وکیل نے ملٹری کورٹ کیس میں 9 مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا) فالس فلیگ آپریشن کا بیانیہ کہا گیا۔ پوری دیگ ہی الٹ دی، ماضی میں عبدالغفار خان نے 37 سال آصف زرداری 14 سال، بے نظیر پونے 7 سال، غلام احمد بلور 6 سال، جی ایم سید 16 سال، حضرت مولانا مودودیؒ 3 سال، جام ساقی 9 سال، اسفند یار ولی 8 سال اور میاں نواز شریف ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز نے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن کارکنوں کو جلائو گھیرائو کا حکم دیا نہ ہی اکسایا بلکہ مختلف طریقوں اور ذرائع سے اپنے لیے سپیس (جگہ) تلاش کر لی۔ خان کے ارد گرد روز بروز گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ 26 ویں ترمیم کے بعد قیامت تک کے مقدمات میں ضمانتوں کی سہولت ختم ہو گئی۔ سہولت کار آئینی طریقہ کار کے مطابق پیچھے دھکیل دئیے گئے۔ وکلاء نے احتجاج کیا لیکن وہی تعداد کی کمی آڑے آ گئی علی احمد کرد کی دھاڑیں کام نہ آئیں۔ عدلیہ کے بحران کو طوفان کی شکل دینے کی کوششیں ناکام، خان کی مایوسی اور ڈپریشن بدلے حالات کا نتیجہ، بزرگ کہا کرتے تھے دعا کرنا چاہیے کہ ایسا دشمن ملے جو اصلی اور نسلی ہو دشمنی ڈھنگ سے نبھائے۔ اللہ معاف کرے موجودہ حکومت کو ایسے دشمن ملے ہیں جو حکومت کے بجائے ملک سے دشمنی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ مودی ملاقات کے موقع پر خان کی حمایت میں دو بول کے منتظر آئی ایم ایف کے وفد کو ڈوزیئر کے ذریعہ بدظن کرنے کی کوششیں بھلا قرضوں کا عدلیہ میں تبدیلیوں سے کیا تعلق، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش لیکن اپنا دور بھول گئے خطوط کے ذریعے اندرون و بیرون ملک آگے بھڑکانے کی کوشش سول نافرمانی کی کال، یہ سب کیا ہے، خطوط کا مقصد ریلیف لینا ہیں اسٹیبلشمنٹ کو زچ کرنا ہے۔ دکھتی رگ کو چھیڑنا ہے تاکہ وہ خان کو پھر سے گود لے لیں لیکن آرمی چیف کے جواب نے خیال محلات مسمار کر دئیے ہیں۔ خطوط کا مقصد اقوام متحدہ کو متوجہ کرنا ہے تاکہ پاکستان کا مسئلہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی تک پہنچ جائے شنید ہے خان سخت غصے میں ہیں زمان پارک میں ہوتے تو برتن توڑتے جیل میں ہیں تو غصہ شیر افضل مروت پر اترا، تھو تھو والے کی شامت بھی آیا چاہتی ہے اینڈ گیم کیا ہے۔ مریم نواز نے کہا ندامت ہو گی تو مفاہمت ہو گی۔ خان کے لیے صائب مشورہ سارے تجربے ناکام ہو گئے۔ طاقتوروں کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوئی۔ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ خان اپنے خطوط کے ذریعے انٹرنیشنل سازش کو ہَوا دے رہے ہیں تاکہ دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان کو بھی نشانہ بنایا جائے اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کو خام بدہن تباہ کر دیا جائے۔ کنجی فوج کے پاس ہے خطوط کا مقصد عوام اور فوج میں دوریاں اور فاصلے پیدا کرنا ہے حکومت مضبوط اور پی ٹی آئی کمزور ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنا کر حکمرانوں کو گھر بھیجنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور سرپرستی ضروری ہے۔
خیبر پختونخوا میں خان کی ہَوا اکھڑ گئی۔ پارٹی میں جو تم پیزار، عوام پی ٹی آئی سے لا تعلق، سرکاری ملازمین نہ ملنے سے تھو تھو جلسہ ناکام ہو گیا، بڑھکوں اور تھو تھو سے انقلاب نہیں آ سکتا۔ خان کو جھک کر اپنے لیے راستہ نکالنا ہو گا اسی طرح انرجک رہتے ہوئے شیر افضل مروت جیسے کام کے بندوں کو دھتکارتے رہے تو کوئی جگہ نہیں ملے گی، معیشت کی سمت درست ہو گئی خان بھی اپنا قبلہ اور سمت درست کر لیں، معروف صحافی اور تجزیہ کا سہیل وڑائچ نے نوابزادہ نصر اللہ مرحوم کا ایک قول دہرایا کہ جمہوریت ناکام ہو جائے تو اس کا علاج بھی جمہوریت ہے مذاکرات ناکام ہو جائیں تو ان کا علاج مذاکرات ہی ہیں خان کو بالآخر ایک دو قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔