Express News:
2025-04-13@15:27:13 GMT

افسران کے اثاثے اور معاشی ترقی

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ سرکاری افسران کے اثاثے ظاہرکریں، اس سلسلے میں مزید مہلت دینے سے انکارکردیا ہے۔ آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالرکے قرض کا پاکستان نے معاہدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک جائزہ مشن کی آمد مارچ میں متوقع ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت جو مشن یہاں موجود ہے وہ معمول کا ہے۔

اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کو جانچتا، تاکہ سرمایہ کاروں کو فیصلہ لینے میں آسانی ہو سکے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی معاشی اصلاح کے لیے قرض فراہم کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی مختلف شرائط بھی منسلک ہوتی ہیں۔ یہ شرائط کس حد تک پوری کی جا رہی ہیں۔ اس بارے میں وہ جائزہ لیتا رہتا ہے۔ اب یہ بات زیادہ واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ اب آئی ایم ایف افسران کے اثاثے ظاہرکرنے سے متعلق مزید مہلت دینے پر رضامند نہیں ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے اس مطالبے کو جائز، درست، اصلاح کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہوئے اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا، لیکن یہاں پر مزید مہلت کی درخواست کرنا چہ معنی دارد؟ پاکستان میں بڑے بڑے افسران کے ٹھاٹھ باٹھ ان کا طرز تکلم، ان کے بنگلوں،کوٹھیوں میں نوکروں کی فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے اور ان سب کو سرکار کی جانب سے تنخواہ موصول ہوتی ہے، لیکن ان کی ڈیوٹی صاحب کے گھر پر لگا دی جاتی ہے۔

پھرکئی کئی گاڑیاں جوکہ دفتر یا ادارے کی ہوتی ہیں ان کو افسران کے اہل خانہ کی خدمت میں ڈرائیور سمیت حاضر کردیا جاتا ہے، پٹرول بھی سرکاری کھاتے سے، بنگلے کے رنگ و روغن کے اخراجات، اپنے ذاتی بنگلے کا بھی بطورکرایہ کی مد میں لاکھوں روپے کا چیک ہر 6 ماہ بعد سرکاری خزانے سے لیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے کئی بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی اب ماہانہ ہزاروں روپے کی جگہ لاکھوں تک جا پہنچے ہیں۔ تنخواہ کم اور اخراجات بہت زیادہ، آخر یہ سب کیسے اورکہاں سے پورا کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف اب جا کر ان سب کا تسلی بخش جواب مانگتا ہے۔

بصورت دیگر اگر ایسا نہیں ہے تو سمجھ لیں کہ کرپشن کا پیسہ آ رہا ہے۔ دولت کی ریل پیل کے ذرایع ناجائز ہیں، ان کو غیر قانونی ہی کہا جائے گا۔ متعلقہ حکام کو اس سلسلے میں بالکل تساہل سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ جس دن افسران اور اشرافیہ اور دیگر ایسے افراد جن کا محاسبہ کرنا ضروری ہے اگر ان سب کو لگام دے دی گئی تو ایسی صورت میں پاکستان سے جو دولت لے جا کر باہر لگائی جاتی ہے یا ملک میں ’’ اوپر کی کمائی‘‘ کے ذریعے جائیدادیں بنائی گئیں جب یہ سلسلہ رک جائے گا۔ پاکستان کی معاشی ترقی کا عمل شروع ہو جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’’ مشکل فیصلے کیے مگر آگے بھی سفر آسان نہیں۔‘‘

یہ سفر آسان ہو سکتا ہے بشرطیکہ وزیر اعظم ذاتی توجہ کے ساتھ اس بات کا حل نکالیں اور معلوم کریں کہ آخر کسی افسر کی آمدن تو ہزاروں میں ہے اور اخراجات لاکھوں میں ہے۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ جس دن وزیر اعظم نے افسران اور بڑے بڑے زمینداروں اور بہت سے لوگوں جن کا تعلق اشرافیہ سے ہے یہ سبق ازبرکرا دیا کہ جتنی چادر اتنا ہی پیر پھیلایا جائے، بس سمجھ لیں کہ اب آگے کا سفر آسان ہو جائے گا۔

یہ کرپشن، یہ امارت، یہ دکھاؤا، یہ جھوٹی شان و شوکت، یہ لمبی لمبی قطاریں گاڑیوں کی، لگژری کاروں کی، بنگلوں،کوٹھیوں میں نوکروں کی بڑھتی تعداد،کئی بچوں کے اسکولوں کی لاکھوں میں فیسیں، سرکاری نمبر پلیٹس کی گاڑیاں، دفتری اوقات میں شاپنگ مال، شاپنگ پلازوں کے باہرکیا کر رہی ہیں؟ اور بے شمار باتیں ہیں، جن کے بارے میں غریب عوام اچھی طرح واقف بھی ہیں۔

ایک جانب غریب کے پاس سرد راتیں گزارنے کے لیے بوسیدہ پھٹا ہوا کمبل اور دوسری طرف گیس ہیٹر ایک طرف گرم تپتی ہوئی دھوپ میں جھلستے ہوئے غریبوں کے بچے دوسری طرف ایئرکنڈیشن۔ پاکستان میں ایک جانب غربت میں شدید اضافہ کچھ اس طرح سے ہو رہا ہے کہ پہلے غریب وہ تھا جو کسی نہ کسی طور پر گزارا کر رہا تھا، اس کے ماں باپ کی ادویات بھی آ رہی تھیں، بچے بھی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے،گھر میں دال روٹی پک جایا کرتی تھی۔

عزیز و اقارب سے ملنے جانا ہو تو بسوں، ویگنوں میں لد لدا کر پہنچ جایا کرتے تھے، لیکن اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ درمیانے طبقے کو بھی زندگی بسرکرنے کے لالے پڑچکے ہیں۔

ان کے بچے دودھ سے بنی امپورٹڈ بند ڈبوں والی خوراک سے محروم ہوگئے، والدین نے ادویات کا استعمال انتہائی کم سے کم کردیا، بسوں میں اب دھکے کھانے کے بجائے فاصلے پیدل طے کر رہے ہیں کیونکہ بڑھتے ہوئے کرائے ادا کرنے سے قاصر ہیں، جب غربت اس حد تک بڑھ جائے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ آمدنی کی تقسیم میں شدید عدم مساوات پائی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ آمدن کی تقسیم میں اسی عدم مساوات کو کم سے کم کرنا ہے۔ یہ کام حکومت کو خود انجام دینا چاہیے تھا۔ بصورت دیگر معاشی ترقی کا حصول ممکن نہیں۔

 ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے عوام میں پائی جانے والی آمدن کی تقسیم عدم مساوات کو گھٹا گھٹا کر ملک کے تمام طبقوں کو نزدیک لانے کی کوشش کی۔ ہر معاشرے، ہر ملک میں امیر اور غریب افراد ہوتے ہیں لیکن حکومتیں کرپشن کا خاتمہ کر کے اپنے وسائل کا رخ غریب عوام کی جانب موڑ دیتی ہیں جس سے غریبوں کو مفت صحت کی سہولیات ملتی ہیں۔ اگر ہمارے ہاں بھی یہی پالیسی اپنائی جائے تو عوام کی زندگی میں تبدیلی آ سکتی ہے اور ا ن کا معیار زندگی بہتر ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آئی ایم ایف افسران کے جائے گا

پڑھیں:

ملک میں پہلا اوورسیز پاکستانیز کنونشن آج سے شروع 

ویب ڈیسک: حکومت اور اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کی جانب سے پہلا اوورسیز پاکستانیز کنونشن آج 13 تا 15 اپریل تک دارلحکومت میں منعقد کیا جائے گا۔

 اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان کے باسی جہاں کہیں بھی بستے ہوں، وہ دل سے پاکستانی ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی نہ صرف پاکستان کے حقیقی سفیر ہیں بلکہ انکی ترسیلات زر ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

 حکومتِ پاکستان اوورسیز پاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی، قربانیوں اور ملک سے غیر متزلزل وابستگی کو سلام پیش کرتی ہے،  اوورسیز پاکستانی ہمارے دلوں کے قریب ہیں۔

لاہور پریس کلب ہاؤسنگ سکیم ایف بلاک میں بجلی کی تنصیب کا افتتاح

 ان کی فلاح و بہبود، سہولت کاری، اور انہیں پاکستان سے جوڑنا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ یہ کنونشن محض ایک تقریب نہیں، بلکہ ایک قومی عزم کا اظہار ہے کہ پاکستان اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو، جو برسوں سے دورِ وطن خدمات سرانجام دے رہے ہیں، کھلے دل سے خوش آمدید کہتا ہے۔

 کنونشن کا مقصد اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہنا انہیں گلے لگانا اور ن کے تحفظات سننا، اور ان کی قیمتی تجاویز کی روشنی میں پالیسی سازی کو بہتر بنانا ہے۔

سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے: وزیر اطلاعات پنجاب

 اس موقع پر اوورسیز کمیونٹی کو پاکستان کے ترقیاتی عمل میں موثر کردار ادا کرنے کی دعوت دی جائے گی، اور ان کیلئے موجود سہولیات و پالیسیوں میں بہتری کیلئے تجاویز پر غور کیا جائے گا۔

 حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ کنونشن میں شرکت کیلئے آنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو ریاستی مہمان کا درجہ دیا جائے گا۔ ہوائی اڈوں پر ان کے استقبال کیلئے خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں جبکہ والہانہ استقبال، مکمل پروٹوکول، خیرمقدمی بینرز، عوامی سطح پر تقریبات اور انہیں عزت و تکریم کے ساتھ خوش آمدید کہنا اس کا حصہ ہوں گے۔

لاہور میں 278 ٹریفک حادثات، 341 افراد زخمی

 وزیرِاعظم پاکستان کی خصوصی ہدایت پر یہ تمام انتظامات اس عزم کے ساتھ کیے جا رہے ہیں کہ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ پاکستان ان کا اپنا گھر ہے۔

 اوورسیز پاکستانیز کنونشن ایک ایسا فورم فراہم کرے گا جہاں بیرون ملک پاکستانی، حکومتی نمائندگان اور قومی ادارے ایک ہی چھت تلے اکٹھے ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے مختلف سرکاری اداروں کے سہولتی کاؤنٹرز قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ایک ہی مقام پر معلومات، رہنمائی اور خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔

 وزیرِ اعظم کی چوہدری شجاعت حسین کو مسلم لیگ ق کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد

 یہ اقدام اس بات کا مظہر ہے کہ حکومتِ پاکستان اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو سننے، سمجھنے اور فوری حل فراہم کرنے کے لیے نہایت سنجیدہ ہے۔

 اوورسیز پاکستانیوں کی وطن واپسی صرف جسمانی نہیں، بلکہ ایک روحانی بندھن کی تجدید ہے۔ آئیں، پاکستان آپ کا منتظر ہے اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن آپ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری منزل تیزی سے ترقی کرتا پاکستان ہے، شہباز شریف
  • مریم نوازکی نائب صدر ترکیہ سے ملاقات، معاشی شراکت داری کے فروغ پر اتفاق
  • ملک میں پہلا اوورسیز پاکستانیز کنونشن آج سے شروع 
  • تجارتی جنگ اور ہم
  • امریکہ کی جانب سے محصولات کی نام نہاد “باہمی مساوات” دراصل معاشی جبر کی کارروائی ہے، چینی میڈیا
  • پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے آبادی میں اضافے کو مربوط کرناناگزیر ہے. ویلتھ پاک
  • پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات
  • عالمی معاشی ترقی میں ایشیا الکاہل ممالک کا حصہ 60 فیصد، رپورٹ
  • کچھ عناصر ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے، کامران خان ٹیسوری
  • سینئر ٹریفک وارڈنز کیلئے خوشخبری