فلسطین میں دہشت گردی کے جد امجد (قسط سوم)
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
موجودہ سلسلے کے گزشتہ دو مضامین سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ صیہونیت نے کس طرح ایک اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور نئے زمینی حقائق ایجاد کرنے کے لیے دہشت گردی کو بطور موثر ہتھیار استعمال کیا۔
1920 میں بن گوریان کی رہنمائی میں تشکیل پانے والی سب سے بڑی مسلح ملیشیا ہگانہ کو آپ اعتدال پسند دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔انیس سو اکتیس میں ہگانہ سے جنم لینے والی ارگون ملیشیا کو آپ شدت پسند دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔البتہ ارگون کے پیٹ سے انیس سو چالیس میں جنم لینے والی ملیشیا ’’ لیخی ‘‘ کو آپ صیہونی داعش کہہ سکتے ہیں۔بلکہ آپ کیا کہیں گے خود لیخی کی قیادت سینہ ٹھونک کے کہتی تھی کہ ہاں ہم دہشت گرد ہیں ( دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی غالباً واحد اعترافی مثال ہے )۔
لیخی کا باضابطہ نام ’’ تنظیم برائے آزادیِ اسرائیل ‘‘ تھا۔ نظریاتی اعتبار سے ارگون اور لیخی کا ایک ہی گرو تھا یعنی زیو جیبوٹنسکی۔دونوں تنظیموں کا اس پر اتفاق تھا کہ فلسطین دراصل یہودیوں کا آبائی وطن ہے۔یہاں بسنے والے عرب اور برطانیہ دونوں غاصب ہیں ۔
ہگانہ کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ سیاسی انگلیوں سے گھی نہ نکلے تو دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا جائز ہے۔ ارگون کا خیال تھا کہ سیاست اور دہشت گردی کو ہم قدم ہونا چاہیے۔جب کہ لیخی کا نظریہ یہ تھا کہ مسلح جدوجہد ہی واحد راستہ ہے ۔ایک نظریہ ایک جماعت ایک مملکت۔ فرد کی وفاداری خاندان سے بھی پہلے مملکت اور اس کے نظریے کے ساتھ ہونا لازم ہے۔ یعنی لیخی کا نظریہ ہرزل کی صیہونیت ، مسولینی کی فسطائیت اور نازیوں کی نسل پرستی کا آمیزہ تھا۔
لیخی یا سٹیرن گینگ کی بنیاد اگست انیس سو چالیس میں ارگون کی فوجی ہائی کمان سے الگ ہونے والے ابراہام سٹیرن نے رکھی۔سٹیرن کو یہ اختلاف تھا کہ جس برطانیہ نے انیس سو سترہ میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے یہودیوں کے قومی وطن کا وعدہ کیا اسی برطانیہ نے گزشتہ برس ( انیس سو انتالیس ) یہودیوں کی فلسطین آمد کو انتہائی محدود کرنے اور نئی زمینوں کی خریداری پر غیر معینہ پابندی لگائی ہے۔
یوں برطانیہ ہمارا عربوں سے بھی بڑا دشمن بن گیا ہے۔اس منافق کو نیچا دکھانے کے لیے نازیوں جیسے کھلے دشمن سے مدد مانگنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ فلسطین کی برطانوی انتظامیہ سے کسی بھی طرح کا تعاون صیہونیت کے حتمی مقصد سے غداری ہے۔ جہاں ہگانہ اور ارگون نے عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کا نازی جرمنی کے خلاف عارضی ساتھ دینے کا فیصلہ کیا وہیں لیخی نے اپنی مسلح کاروائیاں جاری رکھیں۔
اسرائیلی مورخ عربوں کو یہود دشمن ثابت کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جنگِ عظیم سے قبل فلسطینی رہنما حاجی امین الحسینی نے برلن میں ہٹلر سے ملاقات کی اور ہٹلر کو اکسایا کہ اگر تم نے یہودیوں کو نکال دیا تو وہ سب فلسطین آ جائیں گے۔چنانچہ انھیں یورپ میں ہی ختم کر دو۔عرب تمہارے ہم قدم برطانیہ اور فرانس کو مشرقِ وسطی سے اکھاڑ پھینکنے میں تمہارا ساتھ دیں گے۔
مگر یہودی مورخوں کی اکثریت یہ اعتراف کرتے ہوئے شرماتی ہے کہ لیخی کے سربراہ ابراہام سٹیرن نے بیروت میں متعین نازی سفیر کو خط لکھا کہ اگر جرمنی اپنی یہودی آبادی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم انھیں فلسطین منتقل کرنے کے کام میں نازیوں سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ہم اس عددی طاقت کے بل پر فلسطین میں ایک یہودی مملکت قائم کر پائیں گے۔ اس تعاون کے بدلے ہم نازیوں سے برطانیہ کو شکست دینے میں تعاون کریں گے۔
لیخی کی قیادت نے دوسرا خط استنبول میں جرمن سفارتخانے کو بھیجا۔مگر دونوں خطوط کا برلن کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
لیخی کے نسلی نظریاتی لٹریچر میں جگہ جگہ یہودیوں کو عظیم اور عربوں کو غلام قوم سے تعبیر کیا گیا۔یعنی ایک خالص یہودی مملکت میں اگر عرب رہنا چاہئیں تو انھیں محدود حقوق کے ساتھ رہنا ہو گا تاکہ وہ خودسری سے باز رہیں۔( گویا لیخی کا نظریہ اپنے جوہر میں نسل پرست نازی نظریے کا صیہونی چربہ تھا )۔
عالمی صیہونی کانگریس اور جیوش لیگ نے لیخی کو بظاہر دہشت گرد اور مہم جو قرار دیتے ہوئے عاق کر دیا۔ہگانہ اور ارگون کے برعکس لیخی اگرچہ چند سو انتہاپسندوں پر مشتمل تھی۔مگر اس کی خونخوار حکمتِ عملی بے لچک تھی۔اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے بینک لوٹنا اور دولت مند یہودیوں سے رقم نکلوانا بھی ایک انقلابی فعل تھا۔انیس سو چالیس سے بیالیس کے درمیان دو بینکوں کا لوٹا جانا ریکارڈ کا حصہ ہے۔
جنوری انیس سو بیالیس میں لیخی کے دہشت گردوں نے برطانوی خفیہ پولیس کے سربراہ کو تل ابیب کے نزدیک ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں دو یہودی اہل کاروں سمیت تین پولیس والے ہلاک ہو گئے۔برطانوی حکام نے ہگانہ کی مخبری پر لیخی کے اشتہاری رہنما ابراہام سٹیرن کو فروری انیس سو بیالیس میں پولیس مقابلے میں مار دیا۔سٹیرن کی موت کے بعد لیخی کی قیادت تین رکنی کمیٹی نے سنبھالی۔ان میں سے ایک رکن کا نام ایتزاک شمیر تھا (انیس سو اٹھتر میں مینہم بیگن کی حکومت نے ابراہام سٹیرن کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔جس گھر میں سٹیرن کو گولی ماری گئی وہ میوزیم بنا دیا گیا )۔
لیخی نے انیس سو بیالیس تا اڑتالیس بیالیس حکام کو قتل کیا۔ان میں نومبر انیس سو چوالیس میں قاہرہ میں متعین برطانوی سفارت کار لارڈ میون سے لے کر اسرائیل کے قیام کے بعد مقرر ہونے والے اقوامِ متحدہ کے صلاح کار کاؤنٹ برناڈٹ کا ستمبر انیس سو اڑتالیس میں یروشلم میں دن دہاڑے قتل بھی شامل ہے۔
برطانیہ نے لارڈ میون کے قتل کے الزام میں لیخی کے دو دہشت گردوں ایلیاہو بیت زوری اور ایلیاہو حاکم کو قاہرہ میں پھانسی دے دی۔
( اسرائیل کے قیام کے بعد دونوں قاتلوں کے باقیات کو اسرائیل لا کر فوجی اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کیا گیا۔انیس سو بیاسی میں ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے اور ان کا نام ان شہدا میں شامل کیا گیا جنھوں نے اسرائیل کی آزادی کے لیے جان دی )۔
لیخی کے دہشت گردوں نے انیس سو چھیالیس میں لندن کے کولونیل کلب پر بم حملہ کیا۔چرچل ، ایٹلی اور اینتھنی ایڈن سمیت برطانیہ کے اکیس سیاستدانوں کو لیٹر بم بھیجے۔خوش قسمتی سے کوئی لیٹر بم نہ پھٹا۔جنوری انیس سو سینتالیس میں یروشلم میں برطانوی پولیس اسٹیشن سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرا دیا گیا ( یہ دنیا کا پہلا ٹرک بم تھا )۔اس واقعہ میں چار پولیس والے ہلاک اور لگ بھگ ایک سو چالیس زخمی ہوئے۔فروری انیس سو اڑتالیس میں قاہرہ حیفہ ریلوے لائن پر بارودی سرنگ پھٹنے سے اٹھائیس برطانوی فوجی ہلاک اور پینتیس زخمی ہوئے۔یکم مارچ انیس سو اڑتالیس کو بن یمینہ قصبے کے قریب ایک اور ٹرین کو نشانہ بنایا گیا۔اس میں چالیس سویلین ہلاک اور ساٹھ زخمی ہوئے۔
اپریل انیس سو اڑتالیس میں دیر یاسین گاؤں میں ڈھائی سو فلسطینیوں کے قتل میں بن گوریان کی ملیشیا ہگانہ بلاواسطہ اور مینہم بیگن کی ارگون ملیشیا اور ایتزاک شمیر کی لیخی ملیشیا براہ راست ملوث تھی۔
ستمبر انیس سو اڑتالیس میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کاؤنٹ برناڈٹ کے قتل کے بعد بن گوریان حکومت نے بظاہر لیخی ملیشیا کو دہشت گرد قرار دے کر کالعدم کر دیا۔مگر برناڈوت کے تمام قاتل کچھ ہی عرصے میں عدالتوں سے بری ہو گئے۔ان میں سے ایک گیولا کوہن انیس سو انچاس میں پہلی اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کا رکن منتخب ہوا۔ (ختم شد)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سو چالیس لیخی کے لیخی کا تھا کہ کے بعد
پڑھیں:
امریکا اسرائیلی دہشت گردی کی سپورٹ بند کرے، غزہ میں جنگ بندی کرائے، حافظ نعیم الرحمن
امیر جماعت نے کہا کہ 22اپریل کو آب پارہ سے امریکی ایمبیسی کی طرف مارچ ہوگا، حکومت جماعت اسلامی کے پرامن احتجاج کو روکنے کی کوشش نہ کرے، فیملیز اور بچوں کے ساتھ احتجاج کیا جائے گا۔ وائٹ ہاس کے سامنے احتجاج ہوسکتا ہے تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیوں نہیں ہوسکتا؟ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ 20اپریل کو اہل فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسلام آباد میں ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ہوگا، 22 اپریل کو پورے پاکستان میں ہڑتال کی جائے گی، دنیا بھر کی اسلامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے میں ہیں، یقین ہے کہ اسی روز عالمی سطح پر بھی متفقہ احتجاج کیا جائے گا، 18 اپریل کو ملتان میں غزہ مارچ کر رہے ہیں۔ امریکا اسرائیلی دہشت گردی کی سپورٹ بند کرے، غزہ میں جنگ بندی کرائے۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کہتا ہوں امریکا سے نہ ڈریں۔ ملک کی حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے لائن لگا کر نہ کھڑے ہوں۔ قوم سے ان تمام مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں جس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے، جانتے ہیں ملک میں مشکل حالات ہیں، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اس کے باوجود بھی ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ غزہ میں اپنے بہن بھائیوں کے لیے آواز اٹھائیں، پورا کے پی اور شمالی پنجاب اسلام آباد مارچ میں شرکت کرے، جنوبی پنجاب کے عوام جمعہ کو ملتان پہنچیں، تمام تاجر تنظیمیں ہڑتال کے لیے متفق اور متحد ہو جائیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
امیر جماعت نے کہا کہ 22اپریل کو آب پارہ سے امریکی ایمبیسی کی طرف مارچ ہو گا، حکومت جماعت اسلامی کے پرامن احتجاج کو روکنے کی کوشش نہ کرے، فیملیز اور بچوں کے ساتھ احتجاج کیا جائے گا۔ وائٹ ہاس کے سامنے احتجاج ہوسکتا ہے تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیوں نہیں ہوسکتا؟ فلسطینیوں کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کر ے گا،اگر ہم احتجاج چھوڑ دیں تواس سے اسرائیل نواز قوتوں کی مدد ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ پوری قوم غزہ کے عوام کے لیے نکل رہی ہے،لاہور اور کراچی میں تاریخی احتجاج ہوئے، لوگ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور اس نفرت کی زد میں پاکستان میں موجود امریکا کے غلام بھی آچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے اسرائیل غزہ میں بچوں کا نشانہ لے کر ان کو قتل کررہاہے یہ سفاک دشمن ہے ان کو خون پسند ہے نہتے لوگوں پر بم گرانا پسند ہے،اس سب میں امریکہ اسرائیل کی سرپرستی کررہاہے،امریکہ کی تعمیر میں ریڈ انڈین کا خون شامل ہے،امریکہ نے جاپان پر بم پھینکے ہیں، امریکہ دنیا بھر میں حکومتوں کے تختے الٹتا ہے، امریکہ نے الجزائر میں جمہوری حکومت کو بننے نہیں دیا، حماس کی حکومت غزہ میں بننے نہیں دی گئی،اسرائیل کے خلاف حماس قانونی حق استعمال کررہاہے قابض فوج سے اسلحہ سے لڑا جاسکتا ہے، حماس کو کہا جارہاہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے یہ کبھی نہیں ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ مسلم حکمرانوں کو سامنے آنا ہوگا، اسرائیل کو امریکہ اور مسلم حکومت نے طاقت دی ہے، جنگ میں ہارنے کے بعد وہ بچوں کو مار رہا ہے۔ پاکستان لیڈنگ رول ادا کرے، فوجی سطح پر بھی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ورنہ سب کا نمبر آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں امریکہ کی مذمت کیوں نہیں کررہی ہیں جو پاکستانی اسرائیل گئے، ان کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ہے، ہمیں بتایا جائے،حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خون کا سودا نہیں ہونے دیں گے۔ فلسطینیوں کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کرے گا، اگر ہم احتجاج چھوڑ دیں تو اسرائیل نواز قوتوں کی مدد ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان، ترکی اور سعودی عرب پر مزید دبا ڈالا جا سکتا ہے، اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہ کیا جائے، بلکہ وہ ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں انھیں بھی اپیل کی جائے کہ صہیونی ریاست سے تعلقات منقطع کریں۔