پاک، ترکیہ اقتصادی تعاون کے ثمرات
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تجارت دفاع، توانائی، سائنس، اطلاعات، فنانس سے متعلق 24 معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط ہوگئے جب کہ تجارتی حجم بڑھا کر 5 ارب ڈالرکی سطح پر لانے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم ہاؤس میں تقریب منعقد ہوئی جس میں وزیراعظم شہباز شریف، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، دونوں ممالک کے تجارت، دفاع، سائنس، اور دیگر شعبہ جات کے وفاقی وزراء و اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
صدر رجب طیب اردوان اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان قریبی تعلقات نے دوطرفہ ملکی تعاون کو فروغ دیا ہے۔ ترک صدرکا حالیہ دورہ دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی مشترکہ پالیسی سازی کے لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل رہا۔ ترک صدر اپنے تین ایشیائی ممالک کے دورے کے دوران پاکستان بھی تشریف لائے۔
بلاشبہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی طور پر باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات رہے ہیں، نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ترک حکام کا پاکستان کا دورہ ہمیشہ خوش آیند ہوتا ہے۔
یہ دورہ نہ صرف دو طرفہ تجارت اور دفاعی معاہدوں کے لحاظ سے اہم ہے بلکہ بین الاقوامی سیاست پر تبادلہ خیال اور دونوں دوست ممالک کے درمیان ایک مشترکہ بین الاقوامی پالیسی کی تشکیل کے لیے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان موثر رابطے ڈی ایٹ ترجیحی تجارتی معاہدے کی بحالی کا باعث بنیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون میں اضافہ اور مشترکہ پیداوار اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کے معاہدوں کی کامیابی ہے اور مستقبل میں اس کے انتہائی مفید نتائج برآمد ہوں گے۔
مختلف شعبوں میں چوبیس مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے ہیں، جن میں دونوں ممالک نے دو طرفہ تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک نے دفاعی شعبے میں نمایاں تعاون بڑھایا ہے، جس میں پاکستان ترکی کے قومی بحری جہازوں کے منصوبے کے تحت جنگی بحری جہاز حاصل کرنے والا پہلا ملک بنا اور جدید بغیر پائلٹ کے فضائی جہاز بھی حاصل کیے۔
دفاعی تعاون پاکستان اور ترکی کے تعلقات کا ایک اہم ستون ہے۔ اسٹاک ہوم بین الاقوامی امن تحقیقاتی ادارے کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ترکی پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جو پاکستان کی مجموعی اسلحہ درآمدات کا گیارہ فیصد فراہم کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین دفاعی شراکت داری میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، جہاں مشترکہ منصوبے جیسے کہ ملیجم جنگی بحری جہاز، ہوائی جہازوں کو جدید بنانا اور ڈرونز کے حصول نے دونوں ممالک کے عسکری تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔
پاکستان ترکیہ سے نہ صرف جنگی بحری جہاز اور ڈرون خرید رہا ہے بلکہ دونوں ملک دیگر شعبوں میں بھی تعاون کو نئی منزلوں کی جانب لے جا رہے ہیں، پاکستان اور ترکیہ کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ جوائنٹ منصوبہ بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اسلحے کی تیاری کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔
ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز نے پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تحقیق و ترقی کے لیے ایک شعبہ قائم کیا ہے جو سائبر سیکیورٹی، ڈرونزکی نگرانی اور راڈار ٹیکنالوجی پرکام کرے گا۔ 2022 تک کے اعداد و شمار کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان 1.
پاکستان ترکیہ کو 45 کروڑ ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جب کہ وہاں سے 80 کروڑ ڈالرکی مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں، پاکستانی برآمدات میں زیادہ کپڑے کی مصنوعات شامل ہیں۔آنے والے وقت میں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے بلکہ پاک ترکیہ ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) پر موثر عملدرآمد کی راہ بھی ہموار ہوگی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان اور اسلامی ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور امریکا، برطانیہ، یورپ اور افریقی ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے تجارتی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت مضبوط ہورہی ہے اور یہ دیکھنا حوصلہ افزا ہے کہ ترک کمپنیاں اب پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ جیسا کہ چین کے کنٹری گروپ کے تعاون سے پاکستان میں 3 ہزار الیکٹرک وہیکل چارجنگ اسٹیشنز کی تعمیر کے لیے 350 ملین ڈالرکی غیر ملکی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ یہ ترک سرمایہ کاروں کے لیے بھی ایک اہم موقع ہے کہ وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری پر غور کریں۔
عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ امریکا میں ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پرکئی ایسے معاملات سامنے آئیں گے، اس کے ممکنہ اثرات کو کم کرنے کے لیے پیشگی حکمت عملی تیار کرنا ضروری ہے۔ پاکستان اور ترکیہ 2 برادر اِسلامی ملک ہیں اور کئی عالمی مسائل پر ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کے خلاف دونوں ملکوں کے سربراہان سفارتی محاذ پر یہ جنگ ختم کرانے اور فلسطینیوں کو انسانی امداد کی رسائی ممکن بنانے میں پیش پیش رہے۔
اس سلسلے میں ترکی نے دو بار ہنگامی اجلاس بلائے جن میں نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ نے شرکت کی۔ موجودہ حالات میں ان کے دورے کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ غزہ کا معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا، جنگ بندی تو ہوئی ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے جاری خلاف ورزیوں کی وجہ سے دوبارہ جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کو اُن کی سر زمین سے بے دخل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے ارادوں کے پیش ِ نظر مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی اور اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بشمول سعودی عرب، پاکستان، ایران اور اُردن کے علاوہ متعدد وزرائے خارجہ سے رابطے کیے گئے جن میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پیش رفت پر تبادلہ خیال ہوا اور اتفاق کیا گیا تھا کہ27 فروری کو قاہرہ میں ہونے والے ہنگامی عرب سربراہی اجلاس کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی وزارتی اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا تاکہ فلسطین کے مسئلے پر فلسطینی، عرب اور مسلمان ممالک کے موقف کا اظہارکیا جا سکے اور فلسطینیوں کے ان کے حقِ خود ارادیت اور اُن کی سرزمین میں رہنے کے ناقابل ِ تنسیخ حقوق کی پاسداری کی جائے۔
اِس وقت مسلم اُمہ کو مل کر آواز اُٹھانے اور مل کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔اسرائیل مسلم ممالک کو آنکھیں دکھا رہا ہے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے متحد ہونا ہی پڑے گا۔
پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کی وزیراعظم شہباز شریف کی جدوجہد کا ایک حصہ پڑوسی ممالک اور علاقائی شراکت داروں پر توجہ دینا رہا ہے اور حال ہی میں ترکی نے اس منصوبے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
تجارت، معاشی شراکت داری، ترقیاتی منصوبوں اور سیاحت کا احاطہ کرتے ہوئے معاشی تعاون کو ترجیح دینے کے لیے ضروری نہیں کہ پاکستان اپنے سلامتی اہداف کو ترک کردے یا ترکی کے ہمراہ اپنے دفاعی تعلقات کو کمزور کر ڈالے۔ اس کے برعکس اس ادراک کی ضرورت ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی ایجنڈے پر از سر نو غور کے لیے معاشی ضروریات بھی اسی قدر اہم ہیں جس قدر کہ دفاعی ضروریات لازم ہیں، خاص کر ترکی جیسے علاقائی اتحادیوں کے ہمراہ روابط کے قیام کے وقت۔
پاکستان کے معاشی اہداف کو دفاعی اہداف تک بڑھاناناگزیر ہے۔ پاکستان کی کمزور پڑتی معیشت کو ترجیح بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور ترکی دونوں مقامی اور بین الاقوامی دونوں طرح کی دہشتگردی سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ دونوں ملک علیحدگی پسند تحریکوں سے مسلسل نبرد آزما ہیں۔ پاکستان اور ترکی نے افغانستان کے ہمراہ مشترکہ فوجی مشقوں اوردہشت گردوں کی سرگرمیوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے پر کام کرنے کے لیے پاکستان افغانستان ترکی سہہ فریقی اجلاسوں میں بھی شرکت کی ہے۔
پاکستان اور ترکی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کا بھی مسلسل دعویٰ کیا ہے اور اسی طرح حتیٰ کہ ایک دوسرے کے علاقائی تنازعوں میں بھی حمایت کی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو آرمینیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے۔ پاکستان، ترک اتحادی آذربائیجان کی جانب سے ناگورنو کربخ کے علاقے پر دعوے کی بھی حمایت کرتا ہے۔ درحقیقت جنوری 2021 میں پاکستان، ترکی اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ نے مذاکرات کیے اور بالترتیب کشمیر، قبرص اور ناگورنو، کربخ پر اپنے دعوؤں کی حمایت میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
ترکی کھلم کھلا کشمیر کی اتنی حمایت کرتا ہے کہ وہ بھارت کو برہم کرتی ہے کیونکہ وہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اور اردگان کی حمایت کو ’’ کھلے عام مداخلت‘‘ قرار دیتا ہے۔ دونوں ممالک نے فلسطین کے تنازعے کی بھی بھرپور حمایت کی ہے اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ کسی ایسے سیاسی تصفیے کی حمایت نہیں کرتے جو فلسطینی عوام کی حمایت نہ کرتا ہو۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور ترکیہ پاکستان اور ترکی ممالک کے درمیان دونوں ممالک کے اور فلسطینیوں بین الاقوامی سرمایہ کاری میں پاکستان شہباز شریف پاکستان کی بحری جہاز دونوں ملک کی حمایت کرتا ہے میں بھی رہے ہیں ترکی نے رہا ہے کے لیے ہے اور اور اس کیا ہے
پڑھیں:
چین اور انڈونیشیا کے تعلقات میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے ، چینی صدر
چین اور انڈونیشیا کے تعلقات میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے ، چینی صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 13 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین کے صدر شی جن پھنگ نے چین اور انڈونیشیا کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منانے کے لئے انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو کے ساتھ مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ کیا۔اتوار کے روزشی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ 75 سال قبل سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے تعلقات میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور چین اور انڈونیشیا کے درمیان دوستی کی جڑیں عوام کے دلوں میں گہری ہوئی ہیں۔
گزشتہ سال میں نے جناب صدر سے دو بار ملاقات کی اور ایک دوسرے کے قومی ترقیاتی وژن کی بھرپور حمایت کرنے، جدیدکاری کے اپنے راستوں پر چلنے کے لئے مل کر کام کرنے، علاقائی اور عالمی اثر و رسوخ کے ساتھ چین انڈونیشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر اور دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جانے پر اتفاق کیا۔
شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ میں چین انڈونیشیا تعلقات کی ترقی کو بہت اہمیت دیتا ہوں اور میں جناب صدر کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کو ایک موقع کے طور پر لیتے ہوئے ، دونوں ممالک کے درمیان جامع اسٹریٹجک تعاون کو مزید گہرا کرنے، کثیر الجہتی تزویراتی تعاون کو مضبوط بنانے،چین انڈونیشیا ہم نصیب معاشرے کو مسلسل فروغ دینے اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان مخلصانہ یکجہتی کا ماڈل بنانے کے لئے کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔
اپنے تہنیتی پیغام میں صدر پرابووو نے کہا کہ انڈونیشیا اور چین کے درمیان دوستی قدیم زمانے سے قائم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری مضبوط اور متحرک ہے۔ فریقین کے درمیان سیاست، معیشت، ثقافت، بحری امور اور سلامتی پر مشتمل “پانچ ستونوں” پر تعاون تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو گہرا کرتے رہیں گے، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دوستی کے تعلقات کو مضبوط کریں گے اور عالمی امن و استحکام میں مثبت کردار ادا کریں گے۔