معروف موسیقار اے آر رحمان نے فلم چھاوا کے میوزک لانچ ایونٹ میں رنویر الہ آبادیا تنازعے پر دلچسپ تبصرہ کیا، جس نے سب کو حیران کر دیا۔ 

یہ ایونٹ ممبئی کے نیتا مکیش امبانی کلچرل سینٹر میں منعقد ہوا، جہاں وکی کوشل، راشمیکا مندانا، ڈائریکٹر لکشمن اوٹیکر اور پروڈیوسر دنیش وجن نے شرکت کی۔

ایونٹ میں وکی کوشل نے اے آر رحمان سے دلچسپ سوالات کیے، جن میں سے ایک تھا: "آپ اپنی موسیقی کو تین ایموجیز میں بیان کریں گے؟”

اے آر رحمان نے ہنستے ہوئے کہا، "ایک تو وہ ہوگا جس کا منہ بند ہو، کیونکہ پچھلے ہفتے ہم نے دیکھا کہ جب منہ کھلا تو کیا ہوا!” یہ جملہ سنتے ہی ایونٹ میں قہقہے گونج اٹھے۔ جب وکی نے مزید دو ایموجیز کے بارے میں پوچھا، تو رحمان نے مسکراتے ہوئے کہا، "باقی دونوں بھی وہی ہوں گے!”

وکی کوشل نے ایک اور سوال کیا، "اگر آپ اپنی زندگی پر ساؤنڈ ٹریک بنائیں، تو اس کا ٹائٹل کیا ہوگا؟” رحمان نے توقف کے بعد جواب دیا، "سمارپن!” (یعنی مکمل خود سپردگی)

اس کے علاوہ، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس قسم کی موسیقی سنتے ہیں، تو انہوں نے بتایا، "جب میں کام کر رہا ہوتا ہوں تو کچھ نہیں سنتا، بس گھر جا کر سو جاتا ہوں۔ لیکن جب سفر میں ہوتا ہوں، تو کلاسیکی موسیقی، نصرت فتح علی خان یا کمار گندھرو کے گانے سنتا ہوں!”

وکی کوشل نے مزاحیہ انداز میں کہا، "مجھے وہ پلے لسٹ چاہیے، تاکہ میں جان سکوں کہ اے آر رحمان کی طرح ریلیکس کیسے کیا جاتا ہے!” جس پر رحمان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "یا پھر بس ریڈیو سن لو!”

فلم چھاوا 14 فروری کو سینما گھروں میں ریلیز ہو رہی ہے۔

 

TagsShowbiz News Urdu.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: اے آر رحمان وکی کوشل

پڑھیں:

وی نیوز ڈیبیٹ: نہروں کے معاملے پر پنجاب اور سندھ کے وزرائے آبپاشی کے درمیان دلچسپ بحث

 وزیر آبپاشی پنجاب کاظم پیرزادہ کا کہنا ہے کہ پنجاب اچھی پیداوار کرے گا تو فائدہ پورے پاکستان کا ہوگا۔

وی نیوز نے پنجاب اور سندھ میں نہروں کے مسئلے سے متعلق ’پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ ‘ کا انعقاد کیا۔ اس ڈائیلاگ میں وزیر اریگیشن سندھ جام خان شورو، وزیر اریگیشن پنجاب کاظم پیرزادہ، ماہر آبی امور ڈاکٹر حسن عباس، رہنما پی پی پی فرحت اللہ بابر اور چوہدری منظور نے اس حوالے سے اظہار خیال کیا۔

جام شورو خان نے کہا کہ  1991میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 114 ایم اے ایف پانی صوبوں کو دیا جائے گا،  48 ایم اے ایف سندھ کو اور 56 ایم اے ایف پنجاب کو دینا تھا، جبکہ آج ملک میں صرف 96 ایم اے ایف پانی دستیاب ہے۔

 انہوں نے کہا کہ سندھ 14 کینالز اور 3 بیراجوں کے اوپر 48 ایم اے ایف پانی تقسیم کرتا ہے۔ جب پانی کی قلت ہے تو کنال کا نیا سسٹم کیسے بنائیں گے، ہمارے پاس سندھ میں صرف چند ہزار ٹیوب ویلز ہیں۔ ہم پینے سمیت سارے پانی کے لیے انڈس بیسن پر انحصار کرتے ہیں۔

جام شورو خان نے کہا کہ جب سندھ میں بارشیں ہوتی ہیں تب تک ہم سیزن گزار چکے ہوتے ہیں، کیا پاکستان میں 25 سالوں سے پانی کی قلت ہے یا نہیں، کیا پنجاب ہر سال اپنے پانی کی قلت ظاہر نہیں کرتا۔

پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں وزیر اریگیشن پنجاب کاظم پیرزادہ نے اظہار اخیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پانی کے لیے جو بھی کریں گے وہ اپنے شیئر سے کریں گے، 114 ایم اے ایف کا ٹارگٹ کبھی حاصل ہی نہیں ہوا۔ ہم پانی کے سب سے زیادہ 102 ایم اے ایف تک پہنچے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی میٹری سسٹم لگ رہا ہے وہ ریئل ٹائم ڈیٹا فراہم کرے گا۔ آج بھی سندھ کا سکھر بیراج سب سے بڑا ہے جہاں سے 8 نہریں نکلتی ہیں۔ پانی کی تقسیم کا سارا ڈیٹا تو آج کل طلباء کے پاس بھی ہوتا ہے۔ کاظم پیرزادہ نے کہا کہ ایک بد اعتمادی کی فضا ہے جس پر بیٹھ کر بات ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب نے اپنا 2 فیصد پانی خود چھوڑ دیا تھا۔ پنجاب اچھی پیداوار کرے گا تو اس کا فائدہ پورے ملک کو ہوگا۔

ماہر آبی امور ڈاکٹر حسن عباس نے پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج سندھ اور پنجاب نہروں کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں۔ دونوں صوبوں کے وزرا اپنا اپنا موقف پیش کر رہے ہیں، جبکہ مسئلہ وہاں سے شروع ہوا کہ جب گرین پاکستان کے تحت چولستان کینال بنانے کا سوچا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جس نے چولستان کینال بنانے کا مشورہ دیا وہ کنسلٹنٹ کہاں ہے؟ جب تک اس مشورہ دینے والے کو سامنے نہیں بٹھایا جاتا تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ وزرا تو ایڈمنسٹریٹر ہیں، وہ پانی کے ماہر نہیں ہیں۔ کینال کے پانی سے تو آپ ایریگیشن سسٹم نہیں چلا سکتے، نہروں کے پانی میں اضافی کثافتیں ہوتی ہیں، جسے آبپاشی کے ایفیشنٹ نظام کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایفیشنٹ ایری گیشن کے لیے پہلے اس پانی کو صاف کیا جانا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کو بتایا تھا نہریں نہ بنائی جائیں، اس پر 28 پوائنٹس دیے تھے، رپورٹ کے پہلے پوائنٹ میں بتایا گیا تھا کہ نہروں سے صوبوں میں لڑائی ہوگی۔

ڈاکٹر حسن عباس نے مزید کہا کہ انڈیا نے 3.8 ملین ایکڑ پر راجستان میں نہریں نکالی تھیں، انڈیا کا صحرا کو آباد کرنے کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آپ ایک ناکام منصوبے کو دہرا رہے ہیں۔

پی پی پی کے رہنما چوہدری منظور نے پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد چیزوں کو ان کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، سندھ اس سے پہلے پرسکون  اور خاموش تھا،  پانی کے معاملے پر سندھ کے نیشنلسٹ کو ایک دلیل مل گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج 48 جماعتیں سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں،  ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں کراچی میں  پینے کے پانی کے حوالے سے میٹنگ ہوئی۔ اعتزاز احسن نے اپنی بات رکھی تو بھٹو صاحب ناراض ہوئے۔ بھٹو نے کہا اگر پانی کی بات کریں گے تو کراچی اور سندھ سے آوازیں اٹھیں گی۔

سندھ میں پینے کے پانی کا انحصار دریا کے پانی پر ہے، کسان ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے پانی کی تقسیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ کی فصلوں میں ایک ماہ کا گیپ ہے۔

چوہدری منظور نے کہا نے کہ پانی 114 ایم اے ایف پر اکارڈ ہوا تھا، آج آپ کے پاس پانی اوسطاً95 رہ گیا ہے، پاکستان کو سندھ طاس معاہدے میں 70 اور 30 کی نسبت رکھنی چاہیے تھی۔ اگر سندھ طاس معاہدے میں دریا بھارت کو نہ دیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

انہون نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوال کیا کہ آپ کے پاس پنجاب میں بھی پانی کم ہوا ہے، چولستان کی نہر کو پانی دینے کے لیے کوئی نہر بند کرنا پڑے گی۔ میں نے وزیر اعلیٰ سے پوچھا تھا کہ کون سی نہر بند کر کے چولستان کو پانی دیا جائے گا؟ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کی بات کی جارہی ہے، نہروں کے پانی سے کارپوریٹ فارمنگ تو ممکن ہی نہیں۔ اگر چولستان کے علاقے میں 3 دن پانی کھڑا ہو تو کائی آ جاتی ہے۔ ایسے میں نہر کے گندے پانی سے فارمنگ کیسے ممکن ہے۔

چوہدھری منظور نے مزید کہا کہ اس وقت کسان کو قرض پر سود کی شرح 31 فیصد ہے،  پنجاب میں 10 ہزار کسانوں کو ٹریکٹر دینے کی بات کی گئی۔ کسانوں سے کہا گیا کہ سارے پیسے آپ جمع کرائیں، 10 لاکھ روپے ہم دیں گے، کس کسان کے پاس اتنے پیسے ہیں جو ٹریکٹر حاصل کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں گزشتہ سال جعلی بیج دیے گئے۔ فصل نہ ہونے سے کسان تباہ ہو گئے۔ ہمارے مقابلے میں انڈیا میں 70 من فی ایکڑ گندم کی پیداوار ہے۔ آپ لوگوں کو بیج ٹھیک دیں تو آپ کی فصل کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔ یہ جو تجربہ ہو رہا ہے یہ پہلے سے ہی ناکام تجربہ ہے۔

فرحت اللہ بابر نے پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے پاس بہت دریا ہیں، ہمارے پاس صرف سندھ ہے۔ سندھ کے پانی کا دارومدار گلیشئیر پر ہے۔ جبکہ یو این کے مطابق گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چولستان کو آباد کرنے کے حوالے سے نہریں بنائی جا رہی ہیں۔ پوچھا جاتا ہے کہ ان نہروں میں پانی کہاں سے آئے گا، کہا جاتا ہے کہ ارسا کہہ رہا ہے کہ پانی موجود ہے۔ ارسا میں آپ نے سندھ سے ایک ممبر کو 2010 سے تعینات نہیں کیا، جبکہ ارسا کے ہیڈ کا سندھ سے ہونا ضروری ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ چولستان کو پانی دینے کے لیے سندھ کے لوگوں کا حق مارا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر پاکستان نے اس پراجیکٹ پر دستخط کیے، آئین کے مطابق ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے لیے صدر کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہوش سے کام لینا چاہیے۔ آگ سے کھیلنے کی ضد نہ کی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے سوچیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • بھارت؛ دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے قبیلے سے ملنے کی کوشش پر امریکی یوٹیوبر گرفتار
  • گوری خان کے ریسٹورینٹ پر جعلی پنیر پیش کرنے کا الزام، سوشل میڈیا پر تنازع کھڑا ہو گیا
  • گوری خان کے مہنگے ترین ریسٹورینٹ میں جعلی پنیر کھلانے کا الزام
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے فٹبال ٹرافی توڑ دی، دلچسپ ویڈیو وائرل
  • کیرالہ، متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ
  • وی نیوز ڈیبیٹ: نہروں کے معاملے پر پنجاب اور سندھ کے وزرائے آبپاشی کے درمیان دلچسپ بحث
  • نسیم شاہ کا شادی کے حوالے سے دلچسپ اظہارِ خیال
  • پی ایس ایل میں پہلی بار بھائی کا بھائی سے مقابلہ، کمنٹیٹر کا دلچسپ تبصرہ
  • اے آر رحمان کا ابھیجیت کے ’حد سے زیادہ‘ ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے کے الزام پر ردعمل
  • فلسطین کےساتھ کشمیر میں بھی نسل کشی ہو رہی ہے، شیری رحمان