آئی ایم ایف وفد کا دورہ مکمل، مالیاتی گورننس، انسدادِ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ پر بریفنگ دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کا تجزیاتی مشن پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس روانہ ہو گیا ہے، اس دورے کے دوران مشن نے گورننس اور کرپشن سے متعلق تشخیصی جائزہ مکمل کر لیا ہے، اس کی ایک تفصیلی رپورٹ جولائی میں جاری کی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں قیام کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کےوفد نے چیف جسٹس سمیت 19 مختلف وزارتوں اور محکموں کے حکام سے ملاقاتیں کیں، وفد نے مالیاتی گورننس، بینکنگ سیکٹر، انسدادِ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کا بھی جائزہ لیا، اس کے علاوہ قانون کی حکمرانی اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے سے متعلق نظام پر بھی بات چیت کی گئی۔
وفد نے کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری کی سربراہی میں مختلف وزارتوں کے سیکریٹریز سے ملاقات کی، جس میں وزارت خزانہ، اقتصادی امور، تجارت، نجکاری اور دیگر محکموں کے نمائندے شریک تھے،اس دوران کابینہ ڈویژن نے گورننس اور احتساب کے عمل کو مزید مؤثر بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔
آئی ایم ایف وفد نے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے حکام سے بھی ملاقات کی، جہاں پاکستانی حکام نے انسدادِ منی لانڈرنگ کے لیے اپنائے جانے والے میکانزم پر تفصیلی گفتگو کی۔ وفد کو مشکوک مالی ترسیلات کی نگرانی، رپورٹنگ اور تحقیقات سے متعلق بریفنگ دی گئی جبکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس سے قبل آئی ایم ایف وفد نے آڈیٹر جنرل پاکستان سے بھی ملاقات کی، جہاں انہوں نے آڈیٹر جنرل آفس کے طریقہ کار اورخاص طورپر آڈٹ اعتراضات کو حل کرنے کے عمل پر سوالات کیے۔
یہ دورہ پاکستان میں مالیاتی اور انتظامی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے آئی ایم ایف کے جاری تجزیاتی عمل کا حصہ تھا جس کے نتائج آئندہ چند ماہ میں رپورٹ کی صورت میں سامنے آئیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف وفد نے
پڑھیں:
رجب طیب اردگان کا دورہ پاکستان
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا پاکستان کا حالیہ دورہ دونوں ممالک کے غیر معمولی تعلقات کے حوالے سے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، ان کا دو روزہ دورہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ صدر اردگان کے اس دورے کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اُن کی آمد کے موقعے پر دارالخلافہ اسلام آباد دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ جوں ہی صدر اردگان کے طیارے نے پاکستان کی سرزمین کو چھوا تو دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ پورا ماحول اردگان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ دونوں معززین نے آگے بڑھ کر صدر اردگان کا پرتپاک اور پُر زور استقبال کیا۔ صدر اردگان کا چہرہ انتہائی مسرت سے چمک دمک رہا تھا۔ کیمرے کی آنکھ نے اس منظر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا، اگرچہ صدر اردگان کا یہ دورہ انتہائی مختصر تھا لیکن اس کے دوران پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات میں ایک زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے درمیان انتہائی اہم معاملات پر تبادلہ خیالات ہوا۔ پاکستان اور ترکی اسلامی ممالک کی کہکشاں کے دو تابندہ اور رخشندہ تاروں کی مانند ہے۔دونوں ممالک کے تعلقات کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ یہ تعلقات اس وقت سے قائم ہیں جب پاکستان معرضِ وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آڑے وقت پر اپنے ترک بھائی بہنوں کی تَن مَن دھن سے مدد کی تھی۔ ترکیہ کی تحریکِ خلافت کے نازک موڑ پر برصغیر کے مسلمان اپنے ترک ہم مذہبوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے۔ عالم یہ تھا کہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے قیمتی زیورات کو ترکیہ کی مدد کے لیے فروخت کردیا۔
بے مثل مسلم قائدین مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے اپنا سب کچھ ترک برادران کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان دونوں کی والدہ محترمہ جو بی اماں کے نام سے مشہور تھیں تحریکِ خلافت کی روح تھیں۔ اُن کے حوالے سے یہ فقرہ بہت مشہور ہوا جسے سلوگن کی حیثیت حاصل ہوگئی ’’ بولیں اماں، محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔‘‘
ترکیہ کے عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کو شدت سے چاہتے ہیں اور جب اُن کی ملاقات کسی پاکستانی سے ہوتی ہے تو ان کی کیفیت قابلِ دید ہوتی ہے۔ آر سی ڈی کے نام سے ترکی، ایران اور پاکستان کی مشترکہ تنظیم معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اُسے ایک مثلث کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔
ترکیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ تعلیم اور ثقافت کے علاوہ دفاع اور معاشی شعبوں میں باہمی اشتراک کو بڑھاوا دینے سے دونوں ملکوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ پاک ترک دوستی کا سب سے نمایاں اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ترکیہ نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی کھُلم کھلا اور بھرپور حمایت کی ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا نہایت کامیاب دورہِ پاکستان اُن کے لیے اپنے گھر آنے جیسا تھا۔ وہ اپنی مختلف سرکاری حیثیتوں سے پاکستان کے پانچ دورے کر چکے ہیں۔ صدر اردگان نے پاکستان کا پہلا دورہ 2003 میں ترکیہ کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے کیا تھا جس کا مقصد دفاعی شعبے میں باہمی تعاون بڑھانا تھا۔
اس کے بعد وہ دوسری مرتبہ 2009 میں دوبارہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے پاکستان تشریف لائے تھے، اِس کے بعد انھوں نے پاکستان کے مزید کئی دورے کیے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ عوام کو ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ قریب لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ طیب اردگان کے پاکستان کے دوروں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دونوں ممالک کے رشتوں کو مضبوط سے مضبوط اور وسیع سے وسیع ترکرنا۔ بین الاقوامی حلقوں میں ان دوروں کو انتہائی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔