پاکستان کوپھرشکست، 3 ملکی سیریز کا تاج نیوزی لینڈ کے سر سج گیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
کراچی: سہ فریقی ون ڈے سیریز کے فائنل میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 5 وکٹوں سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کرلیا، کیوی ٹیم نے 243 رنز کا ہدف 5 وکٹوں کے نقصان پر 46 ویں اوور میں حاصل کر لیا۔
3 ملکی سیریز کے فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان مشکلات کا شکار رہی اور 242 رنز بنا کر پوری ٹیم پویلین لوٹ گئی اور کیویز کو جیت کے لیے 243 رنز کا آسان ہدف دے دیا۔
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے جارہے تین ملکی ون ڈے سیریز کے فائنل مقابلے میں پاکستان ٹیم کے کپتان محمد رضوان نے ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا جو درست ثابت نہ ہوا۔
پاکستان کو ابتدا سے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور فخر زمان صرف 10 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے، دوسری وکٹ شکیل مسعود کی گری جو محض 8 رنز بناسکے۔
اسی طرح اسٹار بیٹر بابر اعظم آج بھی بڑی اننگ کھیلنے میں ناکام رہے اور 29 رنز بنا کر ہمت ہار گئے، تاہم انہوں نے ایک اور اعزاز اپنے نام کر لیا اور ون ڈے کرکٹ میں سب سے کم میچ میں 6 ہزار رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔
گزشتہ میچ میں سنچریاں بنانے والے کپتان محمد رضوان اور سلمان علی آغا نے آج بھی اچھی شراکت داری قائم کی اور پاکستان کے مجموعے کو 142 رنز تک پہنچایا تاہم وہ آج بڑا اسکور نہ بنا سکے پہلے رضوان 46 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
اس کے بعد سلمان علی آغا بھی 45 رنز کے انفرادی اسکور پر بریس ویل کی گیند پر جیکب ڈفی کو کیچ دے بیٹھے۔
طیب طاہر نے بھی کچھ مزاحمت کی اور 33 گیندوں پر 38 رنز کر پویلین لوٹ گئے، اس کے علاوہ خوشدل شاہ 7، شاہین آفریدی ایک رنز بنا سکے۔
اس طرح پاکستان کی ٹیم پورے 50 اوورز بھی نہ کھیل سکی اور محض 49.
کیویز کی جانب سے کپتان مچل سینٹنر، مائیکل بریس ویل اور ول اورورکے نے 2، 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جبکہ جیکب ڈفی اور نیتھن اسمتھ نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت
سوشل میڈیا بھی ایک سمندر ہے، جس کی تہوں میں پوری کائنات کی معلومات چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی سطح پر تیرتی خبروں، علمی و ادبی پوسٹوں اور مزاحیہ خاکوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ جب کوئی ایک بار اس کے پانیوں میں قدم رکھتا ہے تو پھر اس میں اترتے ہی جاتا ہے۔ دلچسپ مواد کی کشش اسے جکڑ لیتی ہے اور وہ معلوماتی لہروں کے بیچ بھنور میں پھنس جاتا ہے۔
گزشتہ روز مری سے پنڈی سفر کے دوران فیس بک پر چلتی ایک خبر پر نظر پڑی۔ عنوان کی دلفریبی نے نظریں روک لیں: ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس پر پاکستان بھارت سے اوپر‘‘۔ تفصیل پڑھ کر دل کو عجیب اطمینان ملا کہ وطن عزیز کے بارے میں کوئی مثبت اور حوصلہ افزا خبر ملی۔ ورنہ منفی خبروں اور افواہوں کی زد میں تو یہ مسکین ملک ہر وقت رہتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس کے نتیجے میں ملکی تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر سیاحت جیسی اہم انڈسٹری پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اور بیرونی ممالک کے سیاح پاکستان کے سفر سے گریز کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی بیرونی تجارت اور سیاحت اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو، سفر محفوظ ہو، جرائم کی شرح کم ہو اور معیار زندگی اچھا ہو تو بیرونی سیاح اور سرمایہ کار خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو معیشت تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو سیاحوں، مسافروں اور سرمایہ کاروں کو اپنے منصوبے مرتب کرنے میں مفید معلومات اور راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’نمبیو‘‘ ہے، جسے 2009 ء میں سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک گوگل ملازم نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ایک آن لائن ڈیٹا بیس ہے جہاں دنیا بھر کے صارفین مسلسل اپنے ملک اور شہر کے سماجی، سیکورٹی اور اقتصادی حالات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر معیار زندگی، تعلیمی سہولتوں، صحت کے شعبے، ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، آلودگی اور جرائم کی شرح جیسے عوامل کو ایک خاص اسکیل پر پرکھا جاتا ہے، جس کے بعد متعلقہ ممالک اور شہروں کی رینکنگ ترتیب دی جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم فیچر ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس‘‘ ہے، جو دنیا کے محفوظ ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سال 2025 ء کے اعداد و شمار کے مطابق سیاحت، سفر اور قیام کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ موزوں اور محفوظ ملک ’’ایڈورا‘‘ ہے، جو کہ فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے اور اس کی آبادی تقریبا اسی ہزار ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق وینزویلا کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے، جو اس رینکنگ میں آخری نمبر پر ہے۔
اگر ہم پاکستان کی پوزیشن دیکھیں تو گلوبل سیفٹی انڈیکس 2025 ء کے مطابق پاکستان 3.56 پوائنٹس کے ساتھ 65 ویں نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 7.55 پوائنٹس کے ساتھ 66 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان بہت کم فرق ہے، مگر سیفٹی کے معاملے پر پاکستان کو بدنام کرنے والوں کے لیے یہ ایک منہ توڑ جواب ہے۔ پاکستان کے حالات اتنے خراب نہیں جتنا کہ ہمارے مخالفین بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ البتہ، اندرونی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور تفریق کی وجہ سے ایک خاص طبقہ ملکی مفاد کی پرواہ کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ بعض افراد اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں، جو کسی بھی محب وطن شہری کے شایان شان نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ سیاسی اختلافات ضرور رکھیں، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں، لیکن جب بات ملکی مفاد اور سلامتی کی ہو تو سب کچھ ایک طرف رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور کمزور گوشوں کی نشاندہی کر کے اصلاحی تجاویز دینی ہوں گی۔ وقت کی نزاکت کا یہی تقاضا ہے اور ہمیں اس کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آج کسی اور کل کسی اور سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو گا ۔ محض ایک عارضی اور مخصوص مدتی مفاد کی خاطر یا سیاسی بغض میں ملکی سالمیت اور بقا کو داو پہ نہیں لگانا چاہیے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے اشاروں پر فسردہ نہیں بلکہ خوشی اور فخر محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ہمیں اپنی نفسیات اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ قومی ترقی کے سفر میں ملنے والی کامیابیوں کو اجتماعی خوشی اور فخر کے جذبے کے ساتھ منانا ہو گا ۔ یہی مہذب ، متحد اور غیرت مند قوموں کا خاصا ہوتا ہے ۔