ڈی چوک دھرنے میں زخمی ہوا کارکن دم توڑ گیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
مردان:
پی ٹی آئی کے ڈی چوک دھرنے میں زخمی ہونے والا کارکن شاہ نواز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پلوڈھیری سے تعلق رکھنے والا پی ٹی آئی کارکن شاہ نواز 26 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے دوران شدید زخمی ہوگیا تھا آج وہ انتقال کرگیا۔
کارکن کی نماز جنازہ جمعہ کو آبائی علاقہ پلوڈھیری میں ادا کرکے اسے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ نماز جنازہ میں پی ٹی آئی خیبر پختو نخوا کے صدر جنید اکبر، پارٹی رہنماؤں، کارکنوں اور علاقہ عمائدین نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی آمین گنڈاپور کی جانب سے گزشتہ روز ایم پی اے طفیل انجم نے 10 لاکھ روپے کا امدادی چیک شاہنواز کو دیا تھا۔
یاد رہے کہ ڈی چوک دھرنے میں مردان سے تعلق رکھنے والا یہ دوسرا کارکن ہے جو جان کی بازی ہار گیا اس سے قبل بابینی کے ملک صدر علی احتجاج کے دوران جاں بحق ہوئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
ملک میں مہنگی بجلی اور بجلی مسائل کے باعث پاکستان نے سولر پینلز درآمد کرنے میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔برطانوی توانائی تھنک ٹینک "ایمبر" کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔ پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔ زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔