بھارت کو امریکا سے ایف 35 طیارے کب تک مل سکتے ہیں، دہلی کو کیا قربانی دینا ہوگی ؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک)دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد دفاعی معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بہت عرصے سے بھارت کو اپنے دفاعی سامان فروخت کرنے کی کوشش کر ریا تھا، جس میں جنگی طیارے، ٹرانسپورٹ طیارے اور سرویلنس جہاز شامل ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انڈین فضائیہ نے سنہ 2019 سے 114 جنگی طیاروں کا ٹینڈر جاری کر رکھا ہے، اس کنٹریکٹ کے مطابق 16 طیارے مکمل تیار حالت میں آنے ہیں اور باقی 98 طیارے بھارت میں لائسنس کے تحت بننے اور اسمبل کیے جانے ہیں۔
’ابھی یہ واضح نہیں کہ جس دفاعی معاہدے کی بات ہوئی یہ وہی پرانا کنٹریکٹ ہے یا وزیر اعطم مودی نے کسی نئے معاہدے کی بات کی۔‘
راہل بیدی نے مزید بتایا کہ ’ایف 35 انتہائی جدید نوعیت کا جنگی طیارہ ہے اور ابھی تک اس کے بارے میں بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
بھارت کا 114 جنگی طیارے لینے کا جو منصوبہ تھا اس کی مالیت 25 سے 30 ارب ڈالر کی تھی۔ ایف 35 بہت مہنگا جنگی طیارہ ہے۔ اگر یہ بھی معاہدے میں شامل کیا گیا تو اس کی مالیت اس سے تجاوز کر جائے گی۔’
انھوں نے بتایا کہ ’جنگی طیاروں کے علاوہ ملٹری ٹرانسپورٹ طیارہ سی 130 جے اور بحریہ کے لیے سرویلینس طیارہ پی 8 آئی خریدنے کی بات چیت بھی چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ انفینٹری کمبیٹ ویکل ’اسٹرائیکر‘ کی خریداری کی بھی بات چیت چل رہی ہے۔‘
راہل کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاس سات طرح کے جنگی طیارے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے الگ الگ سروس سینٹر اور مرمت کے کارخانے وغیرہ کا انتطام کرنا پڑتا ہے۔
’کچھ عرصے پہلے تک فضائیہ کے اعلی افسران امریکی جنگی طیارے خریدنے کے حق میں نہیں تھے۔
بھارت کے خارجہ سکریٹری وکرم مسری نے ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد ایک نیوز بریفنگ میں ایف 35 کی خریداری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنگی طیارے خریدنے کا ایک طویل عمل ہوتا ہے۔’
راہل بیدی کے خیال میں انڈیا کے ذریعے اس جدید طیارے کی خریداری کا عمل ابھی شروع نہیں ہوا اور اس لیے اس مرحلے میں ہم اسے صرف ایک پیشکش اور تجویز کہہ سکتے ہیں
بھارت میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر اسے ایک بہت کار آمد اور مفید دورہ قرار دیا گیا تاہم بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار نیانیما باسو کہتی ہیں کہ یہ دورہ بھارت سے زیادہ امریکا کے حق میں رہا ہے۔
’امریکا نے دفاعی ساز وسامان کی فروخت کے معاملے پر بہت زیادہ توجہ دی۔ بھارت میں جنگی جہازوں کی خریداری کا عمل بہت لمبا ہوتا ہے۔ بھارتی فضائیہ کی ایسی بہت سی تجاویز پہلے سے برسوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔
ان حالات میں امریکا کا یہ کہنا کہ وہ ایف 35 دینے والے ہیں۔ میرے خیال میں بھارتی دباؤ میں آ گیا۔ ہم نے وزیر اعظم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ دفاع کو سینٹر پوائنٹ پر رکھنا چاہتے ہیں۔
دونوں ممالک ڈیفینس کوآپریشن فریم ورک کو دس سال کے لیے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے تحت بہت ساری دفاعی فروخت ہونے والی ہے۔’
نیانیما کہتی ہیں کہ جہاں تک امریکہ سے تیل اور گیس خریدنے کی بات ہے تو امریکہ چاہتا ہے کہ انڈیا روس سے تیل خریدنا بند کر دے۔
انھوں نے کہا کہ ’روس اس وقت بھارت کو تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے روس سے خریداری فوراً بند کرنا ممکن نہیں ہو گا لیکن مشترکہ اعلامیے میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ امریکہ انڈیا کو تیل سپلائی کرنے والا بڑا سپلائر بننا چاہتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا کا تیل روس اور کئی دوسرے ملکوں سے مہنگا ہے۔’
نیانیما کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ سکیورٹی کے سوال پر چین کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بین اقوامی امور میں چین کا اہم کردار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’چین کے صدر شی جن پنگ ایک سمبھدار رہنما ہیں۔ چین کے ساتھ انڈیا کا سرحدی تنازعہ ابھی حل نہیں ہوا۔ انڈیا کو چین کو بھی پارٹنر بنا کر چلنا ہے اور اس سے کاروبار بھی دوبارہ شروع ہو چکا۔‘
تجزیہ کار نیانیما کہتی ہیں کہ امریکا اور انڈیا اسٹریٹیجک پارٹنرز ہیں اس لیے یہ توقع تو تھی ہی کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے شعبوں میں معاہدے اور معاہدے ہوں گے تاہم ان کے خیال میں انڈین حکومت مودی کے اس دورے کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرے گی لیکن آئندہ چار برس بھارت اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے بہت دلچسپ ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’بھارت کے لیے آئندہ چار پانچ برس تک خارجہ پالیسی میں یہ چیلنج رہے گا کہ ایک طرف وہ چین اور روس کے ساتھ کس طرح نبھاتا ہے اور دوسری جانب وہ امریکا کے ساتھ کیسے ڈیل کرتا ہے۔ یہ آئندہ برسوں میں بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہے گا۔‘
نیانیما کہتی ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں کواڈ سربراہی اجلاس ہونے والا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ انڈیا آئیں گے اور وہ اجلاس چین سے تعلقات میں تلخی کا ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک طرف چین اور روس ہیں اور دوسری جانب امریکا اور اب اس میں اسرائیل کا پہلو شامل ہو گیا ہے۔ بھارت ان کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بھارت کس طرح ان سے تعلقات میں توازن پیدا کر پاتا ہے۔‘
’یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعطم نریندر مودی نے غیر قانونی تارکین وطن کے سوال پر صدر ٹرمپ کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیج دے۔‘
یاد رہے کہ امریکا سے 104 غیرقانونی بھارتی تارکین وطن کو لے کر ایک امریکی فوجی طیارہ فروری کے پہلے ہفتے میں انڈیا پہنچا تھا۔
مزیدپڑھیں:قومی کرکٹر نسیم شاہ کے ہمشکل بھارتی شہری کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جنگی طیارے کی خریداری کہ امریکا انھوں نے بھارت کے نہیں ہو کہا کہ کی بات کے لیے
پڑھیں:
کاروباری برادری رشوت دینا بند کردے، ایف بی آر میں اچھے افسران لگائیں گے، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ صنعتکاروں اور تاجروں کا ملکی ترقی میں کلیدی کردار ہے، ہمارا اصل مقصد عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے، پاکستان میں سیلف سسٹین ایبلٹی آئے گی تو یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا آخری قرض پروگرام ہوگا، آنے والے مہینوں میں وزیراعظم کی جانب سے مزید خوشخبریاں سنائی جائیں گی۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے دورے میں صنعتکاروں سے ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف ٹیکسیشن کے معاملات کو براہ راست لیڈ کرر ہے ہیں، اگر ہم اپنے محصولات اور توانائی کے مسائل حل کرلیں تو معیشت بہتری کی جانب چلی جائے گی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ چوری اور رشوت خوری کی شکایات کو ایک زاویے سے نہ دیکھا جائے، تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، سرکاری افسران رشوت لے رہے ہیں تو کوئی رشوت دے بھی تو رہا ہے، کاروباری برادری سے کہتا ہوں آپ کی مدد کی ضرورت ہے، آپ لوگ رشوت دینا بند کریں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں ایسے افسران لائیں گے جن کی ساکھ اور شہرت اچھی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ 80 فیصد انکم ٹیکس دینے والے سیلری کلاس کی انکم اکاؤنٹ میں گرتے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے، پھر بھی انہیں دفاتر میں جانا پڑتا ہے، انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ نان ایپلی کیبل لکھ دیں، اگر کوئی ایسا لکھ دے اور کل کو کوئی مسئلہ ہوجائے تو کون اسے حل کرے گا؟ ہم سادہ سا فارم متعارف کروائیں گے، موبائل فون سے آن لائن اسے بھر دیں تو سیلری کلاس کا ٹیکس کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری کاروباری ادارے (ایس او ایز) 800 ارب سے ایک کھرب روپے کا مجموعی نقصان کرتے ہیں، 24 ایس او ایز کی نجکاری کا کہہ دیا گیا ہے، ہر وقت کہا جاتا ہے کہ صحت اور تعلیم پر کیا خرچ کیا جارہا ہے، بجٹ کہیں اور جارہا ہے، یہی اس کا جواب ہے، جب یہاں سے پیسہ بچنا شروع ہوگا تو صحت اور تعلیم پر مزید خرچ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ فیس لیس کسٹم کی جو پہلے بات ہوئی ہے، اب ہم اس میں ٹیکنالوجی متعارف کروائیں گے، اگر ہم اس عمل سے انسانی مداخلت کا خاتمہ نہیں کرتے اور کسی افلاطون کو بھی لگادیں گے تو مسئلہ نہیں حل ہوگا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ آپ لوگ بھی تھوڑا سا حوصلہ کرلیں، ایک صاحب میرے پاس کچھ ماہ قبل آئے اور کہا کہ ری فنڈ مل گیا ہے لیکن ایک پرسنٹیج مانگی گئی تھی، افسر نے کہا کہ ان جیسے وزیر تو کئی آئے اور کئی چلے گئے، ان صاحب کا کہنا تھا کہ ہمیں انہی افسران سے ڈیل کرنا ہے، اسی لیے وہ پرسنٹیج دے دی، میں آپ سے گزارش کروں گا خدارا ایسا نہ کیجئے، آپ بھی حوصلہ کریں، اللہ خیر کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان شا اللہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری جلد دوبارہ شروع کی جائے گی، پی آئی اے خسارے سے نکل کر منافع میں آچکی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آبادی اور ماحولیات کے مسائل ہیں، ہماری آبادی تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہے، دیہات میں پیدائش کی شرح زیادہ ہے، شہروں میں تناسب کم ہے، اگر اسی رفتار سے آبادی بڑھتی گئی تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا، اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہمیں ڈھانچہ جاتی مسائل پر فوکس کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے لاہور میں رہنا مشکل ہوگیا ہے تو یہ سب ہم پر اور آپ پر منحصر ہے، کلائمیٹ چینج کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کے پروگرام کے حوالے سے آپ لوگ تعاون کیجئے، تاکہ مسائل کم سے کم سطح پر لائے جاسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، شرح سود 22 فیصد سے 12 فیصد ہو چکی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروبار میں استحکام آرہا ہے، ہمارا اصل مقصد عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے، ہم درست سمت کی جانب گامزن ہیں لیکن ہر سیکٹر کو برآمدات کرنا ہوں گی، ہمیں اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے کام کرنا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے مہنگائی کا کم ہونا لازمی تھا، ہر ہفتے اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، ہم روز کی بنیاد پر دالوں، چینی اور دیگر اشیا کی قیمتوں کو دیکھ رہے ہیں، افراط زر نیچے آنے کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ریکوڈک ایک اہم منصوبہ ہے، 2028 کے بعد ہماری برآمدات میں اضافہ ہو گا، بلوچستان میں ریکوڈک پروجیکٹ ہمارا خواب ہے، انڈونیشیا میں پچھلے سال نِکل کی ایکسپورٹ 22 ارب ڈالر رہی۔
Post Views: 3