امریکا کی جانب سے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں کی فراہمی کے اعلان پر پاکستان کو تشویش ہے:ترجمان دفتر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
پاکستان نے امریکا کی جانب سے بھارت کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں واضح کیا کہ امریکا کی جانب سے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں کی فراہمی کے اعلان پر پاکستان کو تشویش ہے۔ترجمان نے بتایا کہ وزیر خارجہ اسحٰق ڈار سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت کریں گے.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: امریکا کی جانب سے نے بتایا کہ انہوں نے
پڑھیں:
پاکستان کی بحرانی مثلث
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی ان سے ملاقات کے لیے جانے والے چوتھے عالمی راہنما ہیں۔ نریندر مودی نے اس دورے میں امریکا کے ساتھ کئی معاہدے اور دفاعی سودے کیے بلکہ دونوں کے درمیان ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا اور یہ اعلامیہ پاکستان کے لیے مستقبل کے خطرات کی گھنٹی ہے۔ اعلامیے میں ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی جیل میں مقید ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ایک پاکستانی نژاد باشندے کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے روایتی انداز میں اس اعلامیہ کو گمراہ کن، یک طرفہ اور سفارتی آداب کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس استرداد سے پاکستان کو درپیش چیلنج کم ہو سکتے ہیں نہ امریکا اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے۔ نریندر مودی کے ایک اور اہم ملاقات امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر تلسی گبارڈ کے ساتھ ہوئی۔ تلسی گبارڈ امریکا کی اٹھارہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کریں گی اور یہ عہدہ نائن الیون کے بعد تخلیق کیا گیا ہے۔ 43 سالہ تلسی گبارڈ اور بھارت کا تعلق نظریاتی رنگ سے بھرپور ہے۔ تلسی گبارڈ کا بھارت سے کوئی خاص تعلق نہیں مگر ان کے والد نے امریکا میں ہندو مذہب قبول کیا تھا۔
تلسی گبارڈ ہندو توا نظریات سے متاثر ہیں اور انہیں ’’کرما یوگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ تلسی گبارڈ نے اپنے عہدے کا حلف بھگوت گیتا پر اُٹھا کر اپنے نظریات کا واضح طور پر اظہار کیا تھا۔ وہ 2014 میں مودی کی دعوت پر پہلی بار بھارت کا پندرہ دن کا دورہ کرچکی ہیں۔ 2019 میں بھی وہ بھارت کی ایونٹ مہمان خصوصی بنیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات یہ رہے ہیں کہ انہوں نے اُسامہ بن لادن کو پاکستان میں پناہ دینے کا الزام عائد کیا اور حافظ سعید کی رہائی پر تنقید کی۔ اس لیے اب کی بار نریندر مودی کے لیے امریکی انتظامیہ میں چہار سو ہرا ہی ہرا ہے۔ کچھ بھارت نژاد اور کچھ بھارت دوست افراد اہم عہدوں پر براجمان ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں ان کے خیالات تلخ اور تُند رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے بارے میں امریکا کا تعلق دو مختلف انداز لیے ہوئے ہے۔ پاکستان امریکا کے لیے ایڈہاک ازم پر مبنی ایک عارضی جنگی پروجیکٹ ہے اور بھارت ایک طویل المیعاد مستقل دوستانہ اور دفاعی پروجیکٹ۔ جب بھی امریکا کو خطے میں دہشت گردی کا ڈھول پیٹنے کی ضرورت ہوگی وہ پاکستانی مقتدرہ کی کلائی مروڑ کر اسے جنگ میں دھکیلتا ہے اور بھارت کو وہ ہر قسم کی جنگ سے بچا کر ترقی اور امن کے راستوں پر اپنا شراکت دار بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا کے اسلام آباد میں سابق سفیر رچرڈ اولسن نے ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اسرائیل کے ایک اخبار میں لکھے گئے مضمون میں اس تعلق کی بہت دلچسپ منظر کشی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ امریکا پاکستان کو بھی بھارت کی طرح جنگوں کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے مستقل نوعیت کے تعلقات قائم کرے مگر امریکا ایسا کیوں کرے؟ پاکستان کے پاس امریکا کو دینے کے لیے ہے ہی کیا؟ یہی کافی ہے کہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی مجبوری امریکا ہے۔ ان کا تعلیم تفریح اور کاروبار کا مرکز ہی امریکا ہے۔ وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔
رچرڈ اولسن کا یہ تجزیہ ہوائی نہیں تھا بلکہ اسلام آبا د میں سفارتی ذمے داریوں کے دوران انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا تھا کہ پاکستان کی فیصلہ ساز اشرافیہ امریکا کے بغیر سانس لینے کا تصور نہیں کر سکتی اور خود امریکا بھی پاکستانی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی جانے والی دولت کو اپنے ہاں بصد خوشی قبول کرتا ہے اور پھر اس دولت کو تحفظ دیتا ہے۔ یہ پاکستان کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امریکا بھارت کو ہر صورت میں چین کے مدمقابل تہذیب کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ایشیا سے اگر اسے کنفیوشس تہذیب کے مقابلے سے متعلق اپنے تزویراتی پروجیکٹ چھوڑ کر رخصت ہونا بھی پڑے تو وہ اس خلا کو ہندو تہذیب اور شناخت کے حامل بھارت کے ذریعے پر کرے۔ اسی لیے اب امریکا کو بھارت کی سیکولر شناخت کی ہندو راشٹریہ بننے پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہا۔ یہاں تک کہ امریکا نے اسرائیل کے بعد اگر کسی ملک کو اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر کا حقدار جانا تو ملک صرف بھارت ہے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ایلیٹ کلاس جسے رچرڈ اولسن نے دوسرے لفظوں میں امریکا کی ’’پیراسائٹ‘‘ قرار دیا ہے امریکا کے دبائو کا سامنا نہیں کرسکتی۔ چند برس قبل امریکا سے ایک سائفر آنے پر جس بحران کا آغاز ہوا تھا وہ اب امریکی حکام کے ٹویٹس کے ذریعے مزید سنگین اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ایک مراسلہ بھیج کر پاکستان کو حالات کی دلدل میں دھکیلا گیا اور اب ٹویٹس کے ذریعے اس دلدلی سفر کو مزید طویل، پیچیدہ اور گہرا بنایا جا رہا ہے۔ ماضی میں امریکا اور پاکستان کے درمیان ایسے مشکل مقامات آتے تھے تو پاکستانی رائے عامہ اینٹی امریکن ازم کا چولا پہن کر اپنی مقتدرہ کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی۔ اسی کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک بار اسلام آباد میں کہا تھا کہ پاکستان اپنی رائے عامہ میں اینٹی امریکن ازم پیدا کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرے مگر سائفر بحران نے پاکستانی مقتدرہ اور رائے عامہ میں ایسی خلیج پیدا کردی ہے کہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ماضی میں جب بھی پاکستان کی مقتدرہ اور امریکا میں ٹھن جاتی تھی تو امریکا سول حکمرانوں کے ساتھ راہ ورسم پیدا کرتا تھا۔ میموگیٹ اور ڈان لیکس اسی حکمت عملی کا مظہر تھے۔ اس بار سارے اسٹرٹیجک اثاثے اقتدار کی ٹوکری میں ہیں اور رائے عامہ اور ان کی پسندیدہ قیادت دوسری انتہا پر کھڑے ہیں۔ ایسے میں امریکا کو پاکستان کی کلائی مروڑنے میں زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔ پاکستانی مقتدرہ کے لیے ٹرمپ آؤٹ آف سلیبس کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
موجودہ سسٹم اس مغالطہ کا شکار رہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ کے کردار اب تاحیات امریکا پر براجمان رہیں گے۔ اسی لیے انہوںنے ٹرمپ کی سیاست اور انداز کو مختلف اوقات میں ہدف تنقید بنایا۔ بائیڈن انتظامیہ اور امریکی ڈیپ اسٹیٹ کے ارادے شاید یہی ہوئے مگر جمہوریتوں میں عوامی رائے کو راہ دیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس قدر گہرا ہوتا چلا جائے گا امریکا کے لیے پاکستان کی کلائی مروڑنا اور اپنے فیصلے منوانا آسان ہوتا چلا جائے گا۔ اس بحرانی کیفیت میں پاکستان ایک دن چین کے دروازے پر تو دوسرے دن امریکا کی دہلیز پر پنڈولم کی طرح جھولتا نظر آئے گا۔ جیسا کہ محسن نقوی نے دورہ امریکا میں کیا تھا۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلو سے اُٹھے تو چین مخالف تقریب میں جا پہنچے۔ پاکستان کا موجودہ سسٹم ایک طرف چین کو سی پیک سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر چکا ہے تو دوسری طرف امریکا کے عزائم اور تیور خطرناک اور زہرناک ہوتے جارہے ہیں جبکہ اس بحرانی مثلث کا تیسرا زاویہ اپنی رائے عامہ ہے جو واشنگٹن سے اسلام آباد اور سڈنی سے لندن تک اس بار اپنی مقتدرہ سے ایک مستقل فاصلہ بنائے بیٹھی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو پاکستان کے لیے امریکا کے اہداف کی تکمیل کو آسان بنا رہا ہے۔