امریکی جج کا ٹرمپ انتظامیہ کو غیر ملکی امدادی پروگرامز کے لیے فنڈز بحال کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
امریکا کی ایک وفاقی عدالت نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کوسینکڑوں غیر ملکی امدادی پروگرامز کے ٹھیکیداروں کی فنڈنگ فوری بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان تمام غیر ملکی ٹھیکیداروں کا کہنا تھا کہ یو ایس ایڈ کے ذریعے ملنے امداد کی 90 دن کی مکمل معطلی سے ان پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
جمعہ کو امریکی عدالت کی جانب جاری حکم نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کو عارضی طور پر ان تمام غیر ملکی امدادی معاہدوں اور ایوارڈز کو منسوخ کرنے سے روک دیا ہے، جو 20 جنوری کو ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے نافذ تھے۔
واضح رہے کہ غیر ملکی امداد پرٹرمپ کی فنڈنگ منجمد کرنے کا یہ پہلا فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ صحت کے شعبے سے متعلق 2 تنظیموں کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں سامنے آیا جو بیرون ملک اپنے پروگرامز کے لیے امریکی فنڈنگ حاصل کرتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی سمیت سرکاری اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک بار پھر امریکا کو عظیم تر بنائیں گےاس کے لیے انہوں نے اپنے ارب پتی اتحادی ایلون مسک کو اخراجات میں کٹوتی کا کام سونپا ہے۔
جمعہ کو امریکی ڈسٹرکٹ جج عامرعلی نے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی عدالت میں دائر ایک درخواست پر اپنے حکم نامے میں لکھا کہ تمام غیر ملکی امداد کو معطل کرنے کا مقصد ان امدادی پروگرامز کی کارکردگی اور ترجیحات کے ساتھ مطابقت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کم از کم آج تک، مدعا علیہان نے اس بات کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے کہ کانگریس کی طرف سے استعمال کی جانے والی تمام غیر ملکی امداد کی مکمل معطلی، جس نے ملک بھر میں کاروباری اداروں، غیرمنافع بخش تنظیموں اوران کے ساتھ ہزاروں معاہدوں کو ہلا کررکھ دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امدادی ایجنسیوں کو بھی وسیع پیمانے پرملازمتوں میں کٹوتی کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے، جس پر بہت سے اداروں نے پہلے ہی ملازمین کو فارغ کرنا شروع کردیا ہے جن کے پاس ملازمت کے مکمل تحفظ کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔
ریپبلیکن پارٹی نے بیوروکریسی کو کم کرنے اور اپنے مزید وفاداروں کو تعینات کرنے کی جانب اپنے پہلے قدم کے طور پر سینکڑوں سرکاری ملازمین اور ایجنسیز کے اعلیٰ عہدیداروں کو برطرف یا پھر نظر انداز کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی جج امریکی صدر ٹھیکیدار جج ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلیکن پارٹی کانگریس مدعا علیہان معاہدے ملازمتیں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی جج امریکی صدر ٹھیکیدار ڈونلڈ ٹرمپ کانگریس معاہدے ملازمتیں غیر ملکی امداد تمام غیر ملکی ڈونلڈ ٹرمپ کرنے کا کے لیے دیا ہے
پڑھیں:
ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے اربوں ڈالر کی امداد روک دی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ چونکہ ہارورڈ یونیورسٹی نے اپنے کیمپس میں متعدد سرگرمیوں کو روکنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے، اس لیے یونیورسٹی کو دی جانے والی تقریباﹰ سوا دو بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد اور 60 ملین ڈالر کے دیگر معاہدوں کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ اعلان پیر کے روز کیا گیا اور پیر ہی کے دن ہارورڈ نے ٹرمپ انتظامیہ کے متعدد مطالبات کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے فنڈنگ روکنے کا اعلان کیا۔
سفید فام انسانوں میں نسلی تعصب زیادہ، نئی ہارورڈ اسٹڈی
ہارورڈ یونیورسٹی نے اپنے رد عمل میں کیا کہا؟یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے ہارورڈ کمیونٹی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا: ’’یونیورسٹی اپنی آزادی سے دستبردار نہیں ہو گی اور نہ ہی اپنے آئینی حقوق کو ترک کرے گی۔
(جاری ہے)
‘‘ایلن گاربر نے ہارورڈ کمیونٹی کے نام اپنے مکتوب میں مزید کہا، ’’قطع نظر پارٹی کے، کوئی بھی حکومت اقتدار میں ہو، اسے یہ حکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے کہ نجی یونیورسٹیاں کیا پڑھا سکتی ہیں، کس کو داخلہ دے سکتی ہیں اور کسے نہیں، کسے ملازمت دے سکتی ہیں اور مطالعے اور تحقیق کے کون سے شعبوں میں وہ پیش رفت کر سکتی ہیں۔‘‘
یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے کہا کہ وائٹ ہاؤس نے جمعے کے روز ’’مطالبات کی تازہ ترین اور توسیع شدہ ایک اور فہرست‘‘ بھیجی تھی، جس میں تنبیہ کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی کو حکومت کے ساتھ اپنے ’’مالی تعلقات‘‘ کو برقرار رکھنے کے لیے ’’لازمی تعمیل کرنا ہو گی۔
‘‘انہوں نے بتایا، ’’ہم نے اپنے قانونی مشیر کے ذریعے ٹرمپ انتظامیہ کو آگاہ کر دیا ہے کہ ہم اس کے مجوزہ مطالبات کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘
ہارورڈ یونیورسٹی لگاتار آٹھویں برس بھی پہلی پوزیشن پر
ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی سے کیا مطالبات کیے تھے؟اس سے قبل جمعے کے روز امریکہ کے وفاقی محکمہ تعلیم نے اپنے ایک خط میں کہا تھا کہ ہارورڈ یونیورسٹی ’’وفاقی سرمایہ کاری کا جواز پیش کرنے والی دانشورانہ اور شہری حقوق دونوں طرح شرائط پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔
‘‘محکمہ تعلیم نے ہارورڈ سے فیکلٹی، عملے اور ایسے طلبا کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جو بقول اس کے تعلیم سے زیادہ دیگر سرگرمیوں کے لیے پرعزم رہتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے ہارورڈ کو مطالبات کی ایک فہرست بھیجی تھی اور کہا تھا کہ اسے کیمپس میں سامیت دشمنی سے لڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں انتظامی تبدیلیاں کرنے، بھرتی اور طلبہ کے داخلے کے طریقہ کار کو بدلنے جیسے مطالبات شامل تھے۔
ہارورڈ امریکہ کی پہلی بڑی یونیورسٹی ہے، جس نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے دباؤ کو مسترد کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس سلسلے میں جو مطالبات کیے تھے، ان کے تسلیم کرنے سے اس ادارے کے کام کاج کا طریقہ تبدیل ہو جاتا اور اس پر حکومت کا بہت زیادہ کنٹرول بھی ہو جاتا۔
صدر ٹرمپ امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں پر یہودی طلبا کے تحفظ میں ناکام ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں، کیونکہ غزہ پٹی کی جنگ اور اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کے خلاف امریکہ بھر کے بہت سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔
دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی نئی فہرست
سابق طلبہ کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے خلاف احتجاجٹرمپ انتظامیہ کے دباؤ کے سبب ہارورڈ یونیورسٹی کے سابق طلبہ کے ایک گروپ نے اس ادارے کے رہنماؤں کے نام ایک خط لکھا اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کا ’’قانونی طور پر مقابلہ کریں اور ایسے غیر قانونی مطالبات پر عمل کرنے سے انکار کر دیں، جو تعلیمی آزادی اور یونیورسٹی کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہوں۔
‘‘خط لکھنے والوں میں سے ایک انوریما بھارگوا نے کہا، ’’ہارورڈ یونیورسٹی آج اپنی سالمیت، اقدار اور آزادیوں کے لیے کھڑی ہے، جو اعلیٰ تعلیم کی بنیادیں ہیں۔ ہارورڈ نے دنیا کو یاد دلایا ہے کہ سیکھنے، اختراع اور تبدیلی کی ترقی غنڈہ گردی اور آمرانہ خواہشات کے سامنے نہیں جھکے گی۔‘‘
ہفتے کے اواخر میں ہارورڈ کمیونٹی کے بہت سے ارکان اور کیمبرج کے رہائشیوں کی طرف سے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔
جمعے کے روز امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز کی طرف سے اس کے خلاف ایک مقدمہ بھی دائر کر دیا گیا تھا۔اس کیس میں استدلال کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے بہت جلد بازی سے کام لیا اور گرانٹس میں کمی کرنے سے متعلق اصول و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس یونیورسٹیوں کو کیسے نشانہ بنا رہا ہے؟حالیہ ہفتوں میں امریکہ کے وفاقی ایجنٹوں نے ملک بھر کے کالجوں میں متعدد طلبا اور فیکلٹی ممبران کو نشانہ بنایا اور انہیں حراست میں لے لیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں ایک فلسطینی طالب علم محمود خلیل کی سرگرمی ’’قانونی‘‘ ہونے کے باوجود امریکی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ایک امریکی امیگریشن جج نے جمعے کے روز اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ محمود خلیل کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے خیالات قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
خلیل ایک مستقل امریکی رہائشی اور فلسطینی کے حامی کارکن ہیں، جنہیں آٹھ مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔کولمبیا یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر ڈیوڈ پوزن کے مطابق، ’’یونیورسٹیوں، ان کے محققین اور ان کے طلبا کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کی امریکی تاریخ میں کوئی حالیہ مثال نہیں ملتی۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اب تک تقریبا ’’300 سے زیادہ‘‘ ایسے افراد کے ویزے منسوخ کیے ہیں، جو مبینہ طور پر یونیورسٹیوں کے کیمپسوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں سے منسلک تھے۔