آسٹریلیا نے بحیرہ جنوبی چین میں چین کے خلاف اشتعال انگیزی کی، چینی وزارت دفاع
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
بیجنگ : چینی وزارت دفاع کے ترجمان چانگ شیاؤ گانگ نے بحیرہ جنوبی چین میں چین کے خلاف آسٹریلیا کی اشتعال انگیزی پر کہا کہ آسٹریلوی فریق نے جان بوجھ کر بحیرہ جنوبی چین میں چین کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کی اور اشتعال انگیزی کی، بھر اس حوالے سے غلط بیانی پھیلائی ۔ چین نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور آسٹریلوی فریق کے سامنے احتجاج کیا۔ واضح رہے کہ بحیرہ جنوبی چین میں آسٹریلوی فوجی طیارے کی بے دخلی کے پیش نظر ،چین کا اقدام مکمل طور پر معقول، قانونی اور ملامت سے بالاتر ہے اور یہ قومی خودمختاری اور سلامتی کا جائز دفاع ہے۔ترجمان نے کہا کہ ہم آسٹریلیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بحری اور فضائی افواج کی کارروائیوں پر سختی سے کنٹرول کرے ، کسی کے پیچھے پیروکار بننے کو روکے اور بحیرہ جنوبی چین میں مسائل نہ پیدا کرے ، دوسروں کو اور خود کو نقصان پہنچانے سے گریز کرے ۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بحیرہ جنوبی چین میں
پڑھیں:
بحیرہ مردار کے ماحولیاتی نظام کی تباہی، حل پر متفق کوئی نہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) یہ جھیل دنیا کے سب سے نچلے مقام پر واقع ہے، تقریباً 430 میٹر (1,411 فٹ) سطح سمندر سے نیچے۔ اس کا پانی انتہائی نمکین ہے، جس میں نمک کی مقدار دوسرے سمندری پانی کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے اس جھیل میں کوئی مچھلی یا دیگر آبی حیات نہیں پائی جاتی، اور یہی وجہ ہے کہ اسے ''بحیرہ مردار‘‘ کہا جاتا ہے۔
بحیرہ مردار کے قریب واقع عین جدی، ایک چھوٹا سا ساحل جو کبھی سیاحوں سے بھرا ہوا تھا، اب ویران دکھائی دیتا ہے۔ ویرانے کا منظر ایسا ہے کہ اب اس ساحل پر صرف ایک زنگ آلود گھاٹ، ایک ٹوٹی ہوئی چھتری، اور ایک لاوارث لائف گارڈ کیبن جیسی چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔
بحیرہ مردار سے یک جہتی، دو سو افراد نے کپڑے اتار دیے
ساحل کے ساتھ ساتھ بننے والے خطرناک سنک ہولز (sinkholes) کی وجہ سے یہ ساحل گزشتہ پانچ سالوں سے عوام کے لیے بند ہے۔
(جاری ہے)
سنک ہولز قدرتی طور پر زمین کی سطح میں گہرے گڑھے یا کھوکھلے حصے بنتے ہیں، جب زیرِ زمین کی ساخت میں تبدیلی آتی ہے اور اوپر کی سطح ڈوب جاتی ہے۔
اسرائیل، فلسطین اور اردن کے درمیان پھیلے ہوئے سمندر کا نیلا پانی 1960 کی دہائی سے ہر سال تقریباً ایک میٹر کم ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے بحیرہ مردارمسلسل سکڑ رہا ہے۔
ناداو تال، جو اسرائیل میں ایک ہائیڈرولوجسٹ ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا ''بحیرہ مردار کو بچانے کے لیے علاقائی تعاون کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
چونکہ ہم تنازعات کے علاقے میں رہ رہے ہیں، تو یہی بحیرہ مردار کو بچانے میں ایک اور رکاوٹ ہے۔‘‘ماحولیاتی تباہی
دریائے اردن، لبنان اور شام میں نکلنے والے چھوٹے دریاؤں سے کئی دہائیوں سے پانی کے اخراج نے بحیرہ مردار کے کھارے پانی کے بخارات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی کارخانے بحیرہ مردار سے قدرتی معدنیات جیسے پوٹاش، برومین، سوڈیم کلورائیڈ، میگنیشیا، میگنیشیم کلورائیڈ، اور میٹالک میگنیشیم نکالنے کے لیے پانی پمپ کر رہے ہیں، جو ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔
جنگلات میں آگ پھیلانے والے پرندے "فائر ہاکس"
بحیرہ مردار کے ارد گرد مختلف معدنیات اور کیمیکلز پائے جاتے ہیں، جو جلد کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ناداو تال نے بحیرہ مردار کے زوال کے اسرائیلی سیاحت پر پڑنے والے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ''بحیرہ مردار کا زوال اسرائیلی سیاحت کے لیے ایک تباہی ہے۔
‘‘بائیس سالہ یائل کو وہ دن یاد ہیں جب ان کے والدین اس ساحل سمندر پر وقت گزارنے آتے تھے۔ لیکن اب وہ اس ناہموار ساحل پر پرسکون پانیوں میں اپنے پاؤں کی انگلیوں کو ڈبونے کے لیے جگہ تلاش کر رہی ہے۔
''آج جب ہم عین جدی کے پاس سے گزرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک جہاز کا ملبہ ہے،‘‘ یائل نے افسوس کے ساتھ اے ایف پی کو بتایا۔
مشترکہ کوششوں کا مطالبہ
اگرچہ ماضی میں بحیرہ مردار کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں اسرائیل اور اردن کے درمیان معاہدوں پر دستخط بھی شامل ہیں، لیکن غزہ اور اس سے باہر کی جنگوں نے علاقائی کشیدگی کو اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ نتیجتاً حکومتیں اس تیزی سے خشک ہوتی جیل کو بچانے پر کم توجہ دے رہی ہیں۔
اوحاد کارنی، جو اسرائیلی وزارت ماحولیات میں کام کرتے ہیں، برسوں سے بحیرہ مردار کے مسئلے پر کام کر رہے ہیں۔
کارنی کا کہنا ہے کہ پانی کو صاف کرنے کے علاوہ، حکومت کئی حل تلاش کر رہی ہے، جس میں بحیرہ مردار سمیت خطے میں پانی کی عمومی کمی کو پورا کرنے کے لیے شمال یا جنوب سے ایک نہر کی تعمیر شامل ہے۔
کارنی نے مزید کہا، ''ہم یہ اکیلے نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہو گی۔ ہم اردن کے ساتھ معاہدے کے بغیر کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘‘
ع ف / ص ز (اے ایف پی)