پاکستان میں بڑے پیمانے پر برطانوی سمیں چلنے اور چائلڈ پورنو گرافی میں استعمال ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
ایڈیشنل ڈی جی سائبر کرائمز وقار الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سائبر کرائم انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے۔ایڈیشنل ڈی جی سائبر کرائمز وقار الدین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سائبر کرائمز کے نئے رجحانات کے مطابق ان سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔وقار الدین نے کہا کہ سائبر کرائم انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے، سائبر کرائم کا محکمہ بین الاقوامی سموں کے غیر قانونی کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہا ہے۔ایڈیشنل ڈی جی سائبر کرائمز نے بتایا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ برطانیہ کی سمیں استعمال ہورہی ہیں، موبائل سمز کے غیر قانونی استعمال کے ذریعے جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے، پری ایکٹی ویٹڈ برطانوی سمز مارکیٹ میں آن لائن آرڈر پر آسانی سے دستیاب ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی آن لائن آرڈر دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، یہ سمیں چائلڈ پورنو گرافی اور آن لائن فنانشل فراڈ میں بھی استعمال ہو رہی ہیں۔وقار الدین کا کہنا تھا دہشتگرد رابطے کیلئے کوئی نا کوئی ذریعہ تو اختیار کرتا ہے، غیرملکی سموں کا استعمال اسی سلسلے کی کڑی ہے، تاہم پاکستان کی سلامتی اور قانون کی پاسداری اولین ترجیح ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: وقار الدین
پڑھیں:
پاکستان منظم جرائم انڈیکس میں 134 ویں نمبر پر ‘ کرائم کنٹرول اسکور 3.96 ہے
کراچی (رپورٹ \محمد علی فاروق ) پاکستان کی آرگنائزڈ کرائم انڈیکس رپورٹ میں خطرناک رجحانات کا انکشاف ہوا ہے۔ پاکستان منظم جرائم کے انڈیکس میں 193 ممالک میں 134 ویں نمبر پر ہے، اس کا کرائم کنٹرول اسکور 3.96ہے، جو مجرمانہ سرگرمیوں کے ایک پیچیدہ مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ میں بشمول جبری مشقت، جنسی استحصال اور انسانی اسمگلنگ سمیت کئی شعبوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جبری مشقت اور قرضوں کی غلامی زراعت، تعمیرات اور ٹیکسٹائل جیسی صنعتوں میں رائج ہے جس میں بچوں سمیت ہزاروں افراد کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، پاکستان غیر قانونی طور پر مغرب کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کے لیے ایک ٹرانزٹ ملک کے طور پرکرادار ادا کر رہا ہے۔ قتل، ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی اور بھتہ خوری جیسے دیگر جرائم بھی بڑھ رہے ہیں۔ بھتہ خوری اور عدم تحفظ کا دھندا مافیا بن چکا ہے‘ ان گرہوں کی سرپرستی مختلف سیاسی جماعتوں اور حکومتی اداروں میں موجود بااثر کرپٹ افسران و جاگیر دارانہ ذہنیت کے افراد کرتے ہیں ، انہوں نے اپنے الگ الگ پس پشت ونگ بنا رکھے ہیں جو مختلف سنگین جرائم کے ساتھ بھتہ خوری میں ملوث ہیں، امیر مقامی لوگوں اور کمزور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ منشیات کے کاروبار کے لیے ایک راستہ ہے، پاکستان ہیروئن کی اسمگلنگ کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ ہے، جہاں نشے میں مبتلا افراد کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ افغانستان اور اس کے مضافاتی علاقے بھنگ کی عالمی تجارت میں پاکستان کے ذریعے دنیا میں منشیات سپلائی کرنے میں ملوث ہیں، جو ایک ذریعہ اور ٹرانزٹ ملک دونوں کے طور پر کام کرتا ہے۔ پاکستان مصنوعی ادویات کی تیاری اور خاص طور پر میتھیمفیٹامین جیسے کیمیکل کی سپلائی کے لیے ایک راستے کا کر دار ادا کر رہا ہے ۔ مزید برآں اسلحے کی اسمگلنگ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے، پاکستان افغان جنگ کے بعد امریکی ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کا مرکز بن گیا ہے۔ ماحولیاتی جرائم، جیسے کہ غیر قانونی درختوں کی کٹائی اور جنگلی حیات کی اسمگلنگ بھی عام ہے جس میں محکمہ جنگلات کو غیر قانونی کٹائی کو قانونی حیثیت دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں سائبر کرائم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جس میں ہراساں کرنا، جعلی پروفائلز اور ہیکنگ عام شکایات ہیں۔ مالیاتی جرائم، جیسے ٹیکس چوری، غبن اور دھوکا دہی بھی بڑے پیمانے پر ہیں، جن میں تاجروں، سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور فوجی رہنماوں پر مشتمل کارٹیل شامل ہیں۔ مجموعی طور پر رپورٹ پاکستان میں منظم جرائم کی ایک سنگین تشویشناک تصویر پیش کرتی ہے، جو ان مسائل سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) کی عالمی فہرست میں 2 درجے کمی کے بعد 180 ممالک میں پاکستان 135 ویں نمبر پر آ گیا۔ اس طرح پاکستان دنیا کا 46 واں کرپٹ ترین ملک بن گیا۔ ڈھائی کروڑ آبادی والے ملک میں صرف 12 افراد ایسے ہیں جن کی دولت 10 ارب سے زاید ہے جب کہ صرف 3500 افراد کے پاس 10 کروڑ روپے سے زاید کے اثاثے ہیں۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک، ہماری معیشت خفیہ ہے۔ لوگ اپنے اثاثے ظاہر نہیں کر رہے۔ دوسرا، ہماری معیشت کا حجم بہت چھوٹا ہے۔ اگر ہم تحقیق کریں تو یہ دونوں خامیاں پاکستانیوں میں ملیں گی ۔ پہلے لوگ کرپشن کرکے اپنی دولت چھپاتے ہیں۔ اس کی وجہ ریاست کا رویہ ہے۔