بانی پی ٹی آئی ہمارے لیے مقابلہ کر رہے ہیں: علی امین گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
علی امین گنڈاپور—فائل فوٹو
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی ہمارے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان نے اسپورٹس کے میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے، نیشنل اور انٹرنیشنل کھلاڑی ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ میں خود اسپورٹس مین رہا ہوں، اسپورٹس سے نام تو بنتا ہے لیکن ایک دوسرے سے مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے، مقابلہ کرنا سیکھیں گے تو آپ ترقی کریں گے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل سے واپس روانہ ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ جان شیر خان نے اسپورٹس میں اپنا نام بنایا ہے، جب جان شیر کھیلتے تھے تو ان کے جوتوں میں سوراخ ہو جاتے تھے۔
وزیرِ اعلیٰ کے پی نے یہ بھی کہا کہ مجھے فخر ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی نےجو خواب دیکھا ہے وہ پورا ہو رہا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
دنیا سے مقابلہ!
چیف منسٹر پنجاب بلاشبہ دوسرے تمام وزرائے اعلیٰ سے زیادہ متحرّک ہیں۔ ان کے کئی نئے پروجیکٹ اچھے ہیں اور کئی بہت اچھے ہیں۔ ناجائز اور غیر قانونی تجاوزات ختم کرنا نہایت احسن اقدام ہے اور اس کی تعریف وتوصیف کی جانی چاہیے۔ چند روز پہلے وزیراعلیٰ نے وزیرِ تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ اسکولوں میں طلبا وطالبات کے لیے انگریزی میں بات چیت (conversation) کی کلاسیں شروع کی جائیں۔
اسی تقریر میں انھوں نے اس کی افادیّت بتاتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو انگریزی میں مہارت حاصل کرنا ہوگی‘‘۔ بے شک وہ دنیا بھر میں جاتی رہتی ہیں۔ انھوں نے باہر کے تعلیمی اداروں سے تعلیم بھی حاصل کی ہے، اس لیے وہ انگریزی بولنے کی اصل قدروقیمت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مگر ہمارے ہاں انگریزی بولنے کی جو اہمیّت سمجھی جاتی ہے، وہ حقیقت سے کہیں زیادہ ہے۔
دنیا سے مقابلے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ علم اور ہنر۔ یعنی knowledge and skills۔ اگر ہمارے نوجوانوں کے پاس اپنے خاص شعبے کا علم بھی ہو اور مہارت بھی، تو ان کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوگی، پھر انگریزی میں عدمِ مہارت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہمارے ڈاکٹروں نے امریکا اور یورپ میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے اپنی انگریزی بول چال کی بنا پر نہیں بلکہ علم اور مہارت کی بنا پر قدرومنزلت حاصل کی ہے۔
میں کئی پاکستانی سرجن حضرات کو جانتا ہوں جو زیادہ روانی سے انگریزی نہیں بول سکتے مگر اپنے شعبے میں مہارت کی بنا پر انھیں وہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی پاکستانی نوجوان فرفر انگریزی بولتا ہے مگر وہ اچھا مکینک نہیں ہے تو اسے اس کی کمپنی نوکری سے نکال دے گی۔ دوسری طرف ایک اچھا پلمبر اگر انگریزی میں زیادہ مہارت نہیں رکھتا مگر اپنے کام کا ماہر ہے تو اسے اچھی سے اچھی نوکری ملے گی اور اس کی کمزور انگریزی اس کے روشن مستقبل کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔
کچھ عرصہ پہلے تک میں خود بھی یہی سمجھتا تھا کہ ترقی کرنے کے لیے انگریزی میں مہارت ضروری ہے مگر یورپ گھوم پھر کر دیکھا تو آنکھیں کھل گئیں۔ انگریزوں کے ہمسایہ ملک فرانس نے انگریزی کے بغیر ترقّی کا ہر زینہ طے کیا اوربہت سے شعبوں میں برطانیہ سے آگے نکل گیا۔ پھر جرمنی گیا تو انگریزی کی پامالی اور بے توقیری دیکھ کر مزید حیران اور پریشان ہوا۔ جرمنی انگریزی زبان کے بغیر، سب کو پچھاڑتا ہوا آگے نکل گیا اور آج وہ پورے یورپ کا چوہدری ہے جب کہ آپ کو وہاں کوئی سائن بورڈ انگریزی میں نہیں ملے گا۔
یہ بات پاکستانیوں کے لیے انتہائی حیران کن ہوگی اور وہ پوچھیں گے کہ جرمن انگریزی نہیں بول سکتے تو پھر ترقّی یافتہ کیسے ہو گئے؟ دراصل ہمارا ترقّی اور قابلیّت کا معیار وہی ہے جو ایک غلام قوم کا ہوتا ہے، ہم روانی سے انگریزی بولنے والے کو اسکالر سمجھ بیٹھتے ہیں اور انگریزی نہ بولنے والے جینوئن اسکالر کو کم پڑھا لکھّا سمجھتے ہیں۔
جاپان کو دیکھ لیجیے، وہ بھی مکمّل بربادی کے بعد انگریزی کی سیڑھی استعمال کیے بغیر دنیا کی معاشی سپر پاور بن گیا اور اب ہماری آنکھوں کے سامنے چین پورے یورپ بلکہ پوری دنیا کو روندتا ہوا آگے نکل گیا ہے۔ کیا انھوں نے اسکولوں میں انگریزی پڑھا کر ترقّی حاصل کی ہے؟ جواب ہے بالکل نہیں۔ انگریزی کی اہمیّت سے انکار نہیں، مگر چونکہ انگریزی اور انگریزوں سے مرعوبیّت ہمارے رگ وپے میں رچ بس گئی ہے اس لیے ہمارے ذہنوں میں انگریزی کی اہمیّت اس کی اصل قدروقیمت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔
قومی زبان کی جو توہین ہمارے ملک میں ہورہی ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہمارا شدید قسم کا احساسِ کمتری ہے کہ ہم آج بھی اپنی قومی زبان کوکمتر اور قابض ملک کی زبان کو برتر سمجھتے ہیں۔ پنجابی ہو یا سندھی، پشتو ہو یا سرائیکی یا بلوچی کسی علاقائی زبان کی اہمیّت، قومی زبان جیسی نہیں ہوسکتی کیونکہ ان میں کوئی بھی تمام صوبوں اور علاقوں کے لیے رابطے کی زبان نہیں ہے۔ رابطے کی زبان یا تمام صوبوں کی زنجیر صرف اور صرف اردو ہے۔ اپنی زبان کی تحقیر کرنے والے اور غیروں کی زبان اور کلچر سے مرعوب ہونے والے دنیا کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔
دنیا کا مقابلہ اپنی زبان اور اپنے کلچر پر فخر کرنے والے ہی کرسکتے ہیں۔ اور دنیا میں عزّت بھی غیروں سے مرعوب نہ ہونے والوں ہی کی ہوتی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف ،سابق وزیراعظم، نواز شریف، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور عمران خان بھی یو این او کی جنرل اسمبلی میں انگریزی میں تقریریں کرتے رہے ہیں مگر ترکی کے خوددار لیڈر طیّب اردوان جنرل اسمبلی سے ہمیشہ ترکی زبان میں خطاب کرتے ہیں، پاکستانی سفیروں سے معلوم کرلیا جائے کہ عالمی سطح کے لیڈر اور ترقی یافتہ ممالک میں انگریزی بولنے والے پاکستانی لیڈروں کی زیادہ عزت کی جاتی ہے یا انگریزی کو مسترد کرکے اپنی قومی زبان میں تقریر کرنے والے طیّب اردوان کا زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔
دنیا میں اپنی زبانوں میں تقریریں کرنے والے خوددار افریقی اور لاطینی امریکا کے راہنماؤں کی قدر ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے والوں کو صرف استعمال کیا جاتا ہے ان کی عزّت نہیں کی جاتی۔ اِس وقت بھی ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں جس قدر انگریزی پڑھائی جارہی ہے اس سے ہمارے لوگ بیرونِ ملک جا کر اپنا مافی الضمیر بہت اچھی طرح بیان کرسکتے ہیں۔
نئی نسل اپنی قومی زبان سے ناآشنا ہورہی ہے، وہ نہ اردو پڑھ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے۔ اپنی قومی زبان سے ناآشنا نسل کیا پاکستانی قوم بن کر رہے گی؟ اس میں پاکستانیت کس قدر ہوگی؟ اس کی اپنی مسلم تہذیب، اپنی اقدار اور اپنے ملک سے کس قدر وابستگی ہوگی؟ اپنے عظیم ہیروز اور ان کے کارناموں سے ناواقفیّت کی بناء پر ان میں کیا چیز احساسِ تفاخر پیدا کرے گی؟ موجودہ حکومت سے تو یہ توقّع تھی کہ اردوکو دفتری اور عدالتی زبان بنانے کا اعلان کرے گی ، انگلش میڈیم اسکولوں میں اعلیٰ معیار کی اردو پڑھانے اور مقابلے کے امتحانوں میں اردو کے پرچے لازمی قرار دے گی کیونکہ نئی نسل کا اردو سے رشتہ ٹوٹ گیا تو ملک سے رشتہ بھی کمزور ہوجائے گا۔ ڈکٹیٹر مشرّف نے تعلیمی نصاب سے کس قدر قیمتی مواد نکلوادیا تھا۔ اس میں مفکّرِ پاکستان علامہ اقبالؒ کا کلام بھی تھا۔ ہمارے عظیم شہیدوں کے حالاتِ زندگی بھی تھے اور ہمارے عظیم ملّی اور قومی راہنماؤں کے بارے میں لکھے گئے مضامین بھی تھے، فوری طور پر وہ نصاب میں شامل کروائے جائیں۔
حکمران یقیناً جانتے ہوں گے کہ اردو ہمارے لیے کتنی اہم ہے۔ ہمارا تمام تر دینی، ملّی،تاریخی ادبی اور ثقافتی ورثہ اردو زبان میں ہے۔ اگر نوجوان اردو سے نابلد ہوگئے تو وہ میرؔ اور غالبؔ کی شاعری کی نزاکتوں اور لطافتوں سے ناآشنا رہیں گے، وہ فیضؔ اور فرازؔ کی غزلوں میںجھلکنے والی محبّت کی حدّت اور حلاوت سے نابلد رہیں گے۔
وہ احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، انور مسعود، مشتاق یوسفی، ضمیر جعفری، عطاء الحق قاسمی امجد اسلام اور اظہارالحق جیسے شاعروں اور ادیبوں سے ناواقف رہیں گے۔ اردو نہ پڑھ سکنے والے نہ نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ سکیں گے نہ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ سے اور نہ قراۃالعین کی لازوال تخلیق ’آگ کا دریا‘ سے اور نہ مختار مسعود کی "آوازِ دوست" سے واقف ہوں گے۔
وہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو جانتے ہی نہیں ہوں گے اور پھر وہ جدید مسلم تاریخ کے سب سے بڑے شاعر، مفکّر اور تصوّرِ پاکستان کے خالق حضرت علامہ اقبالؒ کی حیات آفرین شاعری سے بھی بالکل ناواقف ہوں گے۔ تو پھر ان کا پاکستان کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہوگا کہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور پاکستان تو ایسی مثلّث ہے جس کے معنی ایک ہی ہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ کلامِ الٰہی کو سمجھنے کے لیے اردو سے ناآشنا نسل نہ مولانا مودودیؒ کی تفسیر سے راہنمائی لے سکے گی نہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے۔ وہ نہ ہی مولانا امین احسن اصلاحیؒ، جاوید غامدی اور بیسیوں دوسرے جیّد اسکالرز کی تحریریں پڑھ کر کتابِ حق کا اصل پیغام سمجھ سکے گی۔ ادب، شعر، فلسفہ، تاریخ اور مذہب پر اردو میں لکھی گئی ہزارہا کتابوں سے وہ لاعلم رہے گی لہٰذا لارڈ میکالے کے بقول "ایسی نسل شکل سے تو ہندوستانی (یا پاکستانی) ہوگی مگر اس کی سوچ پاکستانی قطعاً نہیں رہے گی" کیا قومیں اس طرح ترقی کرتی ہیں؟ ترقّی تو دور کی بات ہے اس طرح تو قومیں بنتی ہی نہیں ہیں!! دنیا کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے اور اس کے لیے کس چیز سے مسلّح ہونے کی ضرورت ہے یہ جاننے کے لیے دانائے راز اقبالؒ سے راہنمائی حاصل کریں۔
انھوں نے کہا تھا یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم۔ اپنے نظرئیے اور عقیدے پر غیر متزلزل ایمان اور اس کے بعد جہدِ مسلسل۔ ایسی محنتِ پیہم جس میں رات کے چراغ کے ساتھ خونِ جگر بھی جلایا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر نغمے خام اور نقش ناتمام رہتے ہیں۔ آپ نے اسکولوں میں کیریکٹر بلڈنگ کی بات کی ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ کیریکٹر میں سب سے اہم خوبی ایمانداری ہے اور خودداری ہے۔ انھیں رزقِ حلال پر قناعت کرنے، ہر حال میں سچ بولنے، قانون کا احترام کرنے، منشیات اور جرائم سے نفرت کرنے اور سادہ طرزِ زندگی اپنانے کی تربیّت دینے کی ضرورت ہے، تقریر اور لیکچر اپنی جگہ مگر نوجوان متاثر اپنے لیڈروں کا عمل دیکھ کر ہی ہوں گے۔