ڈاکٹر محمد حمیداللہ ایک مفکر و سیرت نگار
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
ایک دانشور کا قول ہے کہ ’’ہر انسان ایک چلتی پھرتی کتاب ہوتا ہے ،بس ہم پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے ،کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ علم صرف کتابوں سے حاصل کیا جاتا ہے ،کیونکہ زندگی گزارنے کے اصل اسباق ہمیں انسانوں اور ان کے رویوں سے ہی ملتے ہیں ‘‘لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ساری زندگی ہی کتابیں پڑھنے ،کتابیں لکھنے اورجو سبق ان میں ہوتا ہے اس پر عمل کر دینے میں بسرکرتے ہیں ۔
ایسے ہی لوگوں میں اس شخصیت کا شمار ہوتا ہے جن کا جنم دن 9فروری 1908ء تھا ۔اس بین الاقوامی شخصیت کی کسی نے برسی نہیں منائی نہ ہی ان کے کئے ہوئے کام پر کسی نے قلم اٹھایا کہ انہیں خراج عقیدت ہی پیش کردیا جاتا۔وہ ایک ایسے صاحب قلم تھے جنہوں نے ساری زندگی نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں کو اجاگر کرنے میں گزاری ،بے شمار مقالات لکھے ان گنت کتب مرتب کیں اور اپنے تئیں پوری محنت ،لگن اور جانفشانی سے کو شش کی کہ دین اسلام اور شارع اسلام کی زندگی کے ایک ایک پہلو کو پوری دنیا کے انسانوں تک پہنچائیں تاکہ انہیں کی تعلیمات کو منبع و سرچشمہ بنا کر عالم انسانیت اپنی زندگیوں کو بنا سنوار سکے ۔
کوئی ریاست کا سربراہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے پر حکمرانی کرے ،کوئی جنگجو ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کی روشنی میں جنگ لڑے، کوئی معلم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے سے علم کی روشنی نگر نگر پھیلائے ،کوئی مصلح ہے تو صالح اعمال پر چلنے کا وہی ڈھنگ اپنائے جو اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے روا رکھا ۔
جس شخصیت کا ذکر مقصود ہے وہ تھے ڈاکٹر محمد حمیداللہ جنہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک قریہ،قریہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیغام محبت والفت کو دنیا میں پہنچایا۔وہ دنیا کی بائیس سے زیادہ زبانوں کو سمجھتے اور ان میں لیکچر دیتے اور اسلامی لٹریچر تحریر کرتے ۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن میں ایک دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے‘ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔آپ کے والد کانام مولوی ابومحمد خلیل اللہ تھا جو ایک جید عالم اور قاضی تھے ۔آپ کی والدہ کانام بی بی سلطان تھا جو ایک نیک و پارسا اور درویش منش خاتون تھیں ۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ اپنے سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔آپ کے آبائواجداد علم و فقہ کے حوالے سے جانے جاتے تھے اور عربی النسل تھے جو ہجرت کرکے حیدرآباد دکن آئے اور اسی مٹی کے ہورہے ۔مگران میں ڈاکٹر حمیداللہ ایسے تھے جو حصول علم کے لئے ملکوں ملکوں پھرے ۔اپنا بیشتر وقت کفر کے گڑھ مغربی ممالک میں گزارا خصوصاً فرانس کو اپنا مستقل مسکن بنایا ۔
ڈاکٹر حمید اللہ تاحیات اس فکر میں رہے کہ جس دین کے وہ ماننے والے ہیں پورے عالم میں اسی دین کا تسلط ہو اور دنیاکی تمام ریاستیں اسی نہج پر دستور سازی کریں اور اسی جادہ رحمت کو اپنے امور مملکت بنانے کی طرف راغب ہوں ۔اسی لئے انہوں نے جو پہلی کتاب تصنیف کی اس کانام تھا ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیاسی زندگی‘‘ تھی(The Muslim Conduct of Satate)جو ان کی تحقیقی زندگی کا ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا۔جس میں اسلامی ریاست،بین الاقوامی تعلقات اور اسلامی نظام ریاست کا مکمل خاکہ تھا۔
یہ ایک ایسی مکمل کتاب تھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی، سفارتکاری، دیگر اقوام کے معاہدات اور اسلام کے جنگی اصولوں پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ۔انہوں نے اسلام کے سماجی ،سیاسی زندگی اور قانونی امور کو جدید ریاستی نظام کی روشنی میں کھنگالااور دلائل و براہین کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ اسلام ہی وہ ضابطہ حیات ہے جو دنیا کوامن کا گہوارہ بنا سکتا ہے ۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے گو حنفی مسلک رکھنے والے مدرسہ میں اولین دینی تعلیم مکمل کی ، مگر انہوں نے تمام عمر کسی مخصوص فقہی مکتب فکرسے تعلق کا اظہار نہیں کیا ۔انہوں نے منفرد غیر جانبدار علمی و تحقیقی طرزاپنایا اور اسی پر قائم رہے ۔مختلف مغربی ممالک کی یاترا کی ،یورپ افریقہ اور امریکہ میں ان کی وجہ سے اسلام پھلا پھولا۔فقط فرانس میں ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ عمر عزیز کا ایک طویل عرصہ فرانس میں گزارا مگر وہاں کی یا کسی اور ملک کی باقاعدہ شہریت حاصل نہیں کی پاکستان نے شہریت کی پیشکش کی یہاں تک کہ ستارہ امتیاز دینے کا بھی عندیہ دیا مگر ڈاکٹر صاحب نے ایسے کسی ایوارڈ کے لینے سے یکسر معذرت کرلی ۔انہوں اپنی زندگی سیرت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر تحقیق کرنے میں صرف کر دی تا ہم تاریخ اسلا م ،فقہ، حدیث اور تفسیرقرآن پر بھی آپ کی گہری نظر تھی ۔
قرآن کریم کا فرانسیسی میں ترجمہ بھی کیا۔ آپ کا انتقال 17 دسمبر2002 ء میں امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں ہوا ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ڈاکٹر محمد حمیداللہ انہوں نے
پڑھیں:
آشا بھوسلے کی مرنے سے پہلے ’’آخری خواہش‘‘ کیا ہے؟ گلوکارہ نے بتادیا
بھارت کی لیجنڈری گلوکارہ آشا بھوسلے نے ایک پوڈ کاسٹ میں شرکت کے دوران اپنی زندگی کی آخری خواہش کا اظہار کیا ہے۔
آشا بھوسلے نے پوڈ کاسٹ میں شرکت کرتے ہوئے اپنی زندگی، کیریئر، اور مستقبل کی خواہشات پر روشنی ڈالی۔ اور ساتھ ہی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ گاتے ہوئے مرنا چاہتی ہیں۔
لیجنڈری گلوکارہ کا کہنا تھا کہ ’’ایک ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے خوش رہیں۔ ایک نانی یا دادی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں خوش رہیں۔ لیکن میری خواہش ہے کہ میں اپنی آخری سانس تک گاتی رہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’میری اب صرف یہی خواہش ہے کہ میں گاتے ہوئے مر جاؤں۔ میرے لیے سیکھنے کےلیے کچھ نہیں بچا۔ میں نے پوری زندگی گایا ہے۔ میں نے تین سال کی عمر میں کلاسیکل موسیقی سیکھنا شروع کی، اور 82 سال سے پلے بیک گلوکارہ ہوں۔ اب یہی خواہش ہے کہ گاتے ہوئے میرا سانس نکل جائے، اور یہی مجھے سب سے زیادہ خوشی دے گا۔‘‘
آشا بھوسلے نے اپنے کیریئر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ موسیقی ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے ہمیشہ موسیقی کو اپنی زندگی کا مرکز بنایا ہے۔ یہی میری پہچان ہے، اور یہی میری خوشی کا ذریعہ ہے۔‘‘
انھوں نے اپنے مرحوم شوہر اور لیجنڈری میوزک کمپوزر آر ڈی برمن کو یاد کرتے ہوئے ان کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا، ’’وہ غیر معمولی فطرت کے انسان تھے۔ ایک مشہور میوزک ڈائریکٹر ہونے کے باوجود وہ خود کو ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ ان میں کوئی غرور نہیں تھا۔‘‘