بھارت کو جدید ٹیکنالوجیز کی منتقلی پر شدید تحفظات ہیں، پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت کو جدید ٹیکنالوجیز کی منتقلی پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں۔ انڈو یو ایس کے مشترکہ بیان کو بے بنیاد اور غلط قرار دیتے ہیں۔
صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے بتایا کہ وزیر اعظم کی دعوت پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردون نے 2روزہ سرکاری دورہ کیا ۔ ان کا صدر مملکت اور وزیراعظم نے پرتپاک استقبال کیا۔ سیشن کے اختتام پر ایم او یوز اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک تعاون کونسل کے ساتویں اجلاس میں شرکت کی۔ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں پرانے گہرے مذہبی، تہذیبی، ثقافتی، لسانی اور تاریخی تعلقات کو مزید تقویت دینے پر بات چیت کی گئی۔ دورے کے دوران مشکل وقت میں دونوں ممالک کے عوام اور حکومتوں کے آزمائشی اور مثالی بھائی چارے و باہمی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔
ترجمان کے مطابق پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تمام شعبوں میں موجودہ دوطرفہ تعاون کو مزید تقویت دینے کا اعادہ کیا گیا۔ دفاع، تجارت، سرمایہ کاری، بینکنگ، فنانس، تعلیم، صحت، توانائی، ثقافت، سیاحت، ٹرانسپورٹ و مواصلات، زراعت، پانی، سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔
شفقت علی خان نے بتایا کہ ہم لیبیا میں مارسہ دیلا میں کشتی حادثے کے متاثرین کے اہل خانہ سے اظہار افسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کا دہشت گردی اور غیر ملکی قبضے پر مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں 2 کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ہم ان کی موت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار جلد اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ لیبیا کشتی حادثے میں 16 لاشوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔ پاکستانی سفارتخانہ مزید نگرانی کرنے اور شناخت کرنے میں مصروف ہے۔ ایک زخمی اس وقت زاویہ کے اسپتال میں زیر علاج ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کا خواہاں ہے۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ فلسطین کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔ کشمیر میں 2 نوجوان کو شہید کیا گیا ہے جس کی پاکستان مذمت کرتا ہے۔ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق حق خودارادیت ملنا چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ انڈو یو ایس کے مشترکہ بیان کو بے بنیاد اور غلط قرار دیتے ہیں۔ مشترکہ بیان میں بھارت عوامی حقوق کی پامالی کا جواب دینے میں ناکام رہا۔ دہشت گردی سے متاثرہ ملک کے طور پر پاکستان دنیا میں امن و استحکام کے فروغ کا خواہاں ہے۔ بھارت کو جدید ٹیکنالوجیز کی منتقلی پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کیا گیا
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو کیسز کی غیر ضروری منتقلی سے روکنے کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ سنگل بینچ سے ڈویژن بینچ میں کیسز کی منتقلی بغیر قانونی جواز کے کرنے سے روک دیا ہے عدالت کی جانب سے یہ واضح ہدایت دی گئی ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار آئندہ کسی بھی کیس کی ٹرانسفر یا مارکنگ کرتے وقت عدالتی گائیڈ لائنز کو مدنظر رکھیں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کی ہدایت پر ڈویژن بینچ میں مقرر کیے گئے کیسز کو واپس دیگر بینچز میں بھیجنے کا عمل بھی روک دیا جائے عدالت نے حکم دیا کہ جب تک فل کورٹ ہائیکورٹ رولز سے متعلق مزید رائے نہیں دیتا تب تک انہی جاری کردہ گائیڈ لائنز پر عمل درآمد کیا جائے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق پر مشتمل بینچ نے اس معاملے پر بارہ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا عدالت نے واضح کیا ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل صرف اسی صورت میں سنگل بینچ سے ڈویژن بینچ میں کیس بھیج سکتا ہے جب اس کے لیے واضح قانونی جواز موجود ہو جیسے کہ قانون کی تشریح درکار ہو یا ایک جیسے نوعیت کے کیسز سامنے ہوں عدالت نے یہ بھی ہدایت جاری کی ہے کہ ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق کیسز فکس کرنے یا مارک کرنے کا اختیار تو ڈپٹی رجسٹرار کے پاس ہے لیکن اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کوئی کیس واپس لے یا کسی اور بینچ کے سامنے مقرر کرے چیف جسٹس کے پاس روسٹر کی منظوری کا اختیار ہے لیکن کیسز کی مارکنگ اور فکسنگ کا عمل صرف ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے دائرہ کار میں آتا ہے فیصلے میں آصف زرداری کیس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جہاں عدالت نے قرار دیا تھا کہ یہ اختیار جج کے پاس ہے کہ وہ کیس سنے یا نہیں اور جب جج نے نہ تو معذرت کی اور نہ ہی جانبداری کا کوئی پہلو سامنے آیا تو پھر کیس کی منتقلی کا کوئی جواز نہیں تھا عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ انتظامی سطح پر آفس کی جانب سے قائم مقام چیف جسٹس کی معاونت مناسب انداز میں نہیں کی گئی یہ عدالتی فیصلہ عدالتی نظام میں شفافیت اور قانونی دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کرنے کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے