اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا، اللہ مالک ہے۔

سپریم کورٹ میں حلف برداری تقریب کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو ہوئی۔

صحافی نے سوال کیا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ کام نہیں کرتے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ مقدمات نمٹانے کی شرح دیکھ لیں، کس کے کتنے فیصلے قانون کی کتابوں میں شائع ہوئے سب سامنے ہے، تمام ریکارڈ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ابھی تو حلف برداری کے بعد چائے پینے آیا ہوں۔

مزید پڑھیں؛ سپریم کورٹ میں تعینات 7 نئے ججز نے حلف اٹھا لیا

صحافی نے سوال کیا کہ سنا ہے آپ کے خلاف ریفرنس آ ہا رہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ ریفرنس جب آئے گا تب دیکھی جائے گی، کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا، اللہ مالک ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی سے کوئی ذاتی عناد یا اختلاف نہیں، کمرے میں موجود ہاتھی کسی کو نظر نہ آئے تو کیا کہہ سکتے ہیں، باقی تمام ججز کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے اور اکٹھے چائے بھی پیتے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں تعینات ہونے والے 7 نئے ججز نے حلف اٹھا لیا ہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالت عظمیٰ میں تعینات ہونے والے 6 مستقل اور ایک قائم مقام جج سے حلف لیا۔

حلف برداری تقریب میں جسٹس منصور علی شاہ بھی موجود تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج محسن اختر کیانی بھی تقریب حلف برداری میں شریک تھے۔ ان کے علاوہ اٹارنی جنرل، وکلا، لا افسران اور عدالتی اسٹاف نے بھی تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ حلف برداری

پڑھیں:

6 ججوں کے خط کے بعد عدلیہ کتنی تبدیل ہوئی؟

26 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا حساس ادارے ان کے کام میں مداخلت کرتے ہیں لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل اس مداخلت کو روکنے کے لیے طریقہ کار وضع کرے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس: 10 ججز کے خلاف شکا یتیں داخل دفتر، 6 ججوں کے خط پر بھی غور

مذکورہ خط کے فوراً بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ان 6 ججز سے ملاقات کی اور اس کے ان ججز کا وہ معاملہ سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے مقرر بھی کیا لیکن تاحال اس مقدمے کا کوئی فیصلہ تو نہیں ہوا البتہ اس کے نتائج ضرور برآمد ہوئے۔

گزشتہ ماہ 28 جنوری کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی بنیاد ایک خط بن گیا۔ گو کہ سپریم کورٹ میں تقسیم تو پہلے سے موجود تھی لیکن اس خط کے بعد تقسیم اور واضح ہو گئی اور کچھ ججز نے اپنے ریمارکس میں اس خط کے حوالے بھی دیے۔

سپریم کورٹ تو پورے ملک میں آئینی و قانونی اعتبار سے ایک اہم عدالت ہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وفاق سے متعلق مقدمات سماعت کے لیے اکثر اسی عدالت میں آتے ہیں۔ 6 ججز کے خط کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوسرے صوبوں سے آئے ججز انتظامی کمیٹیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔

سپریم ججز کے درمیان کشمکش

سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلوں کی وجہ سے یوں تو پورے ملک کے میڈیا کی ہیڈلائنز میں رہتی ہے لیکن سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور سے سپریم کورٹ نے کچھ ایسے مناظر دیکھے جو شاید اِس سے قبل نہیں دیکھے تھے جن میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے جج ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آئے اور سیاسی جماعتیں ایک کے مقابلے میں دوسرے جج کو سپورٹ کرتی نظر آئیں۔

مزید پڑھیے: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز ٹرانسفر کی حمایت کیوں کی؟

28  جنوری کو سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل حافظ احسان کھوکھر نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے درمیان یہ کشمکش ہمیشہ رہتی تھی، پہلے من پسند بینچز بنائے جاتے تھے اور کچھ ججز کو بینچز میں شامل نہیں کیا جاتا تھا، پھر ایک دوسرے کے خلاف خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تو اس معاملے کی انتہا ہو گئی ہے کہ ساتھی ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کے درمیان جو خطوط کا سلسلہ چلتا ہے اس کو روکنے کے لیے کونسلنگ جاری ہے اور جلد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

اس سارے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمیں حکومت وقت فی الحال بالادست نظر آتی ہے کیونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، مخصوص نشستیں،26 ویں آئینی ترمیم، ججز تعیناتیاں، ٹرانسفر کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جج تعیناتی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ان تمام معاملات پر زبردست مزاحمت کے باوجود حکومتی مؤقف فی الوقت ہمیں کامیاب دکھائی دیتا ہے اور بظاہر عدلیہ کی جانب سے حکومت کو درپیش مسائل کو حل کر لیا گیا ہے۔

مزید پڑھیے: آئینی بینچ کے لیے ججز کی تعیناتی کا مکینزم ہونا چاہیئے، جسٹس منصور علی شاہ نے ایک اور خط لکھ دیا

10 فروری کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف آل پاکستان وکلا کا احتجاج بھی اس وقت بظاہر ناکام ہو گیا جب منقسم وکلا کمیونٹی کے ایک بڑے حصے نے اِس احتجاج میں شرکت نہیں کی۔

 6ججز خط کے بعد سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں بہت کچھ بدلا۔ اس خط کے بعد اکتوبر 2024 میں 26 ویں آئینی ترمیم آئی جس کے تحت نہ صرف آئینی بینچز بنائے گئے بلکہ چیف جسٹس اور دیگر ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی بدل گیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تبدیل ہونے والا جوڈیشل کمیشن اس وقت 2 صوبائی ہائیکورٹس کے اندر آئینی بینچوں کی تشکیل کر چکا ہے، 36 کے قریب نئے ججز تعینات کیے جا چکے ہیں جبکہ سپریم کورٹ میں 7 نئے ججز تعینات ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں انتظامی کمیٹیاں بھی تبدیل کی جا چکی ہیں

سپریم کورٹ انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 17 فروری کو سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو کی جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کو شامل نہیں کیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں مشیر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ ایک سال سے وہاں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کو لا کلرک شپ پروگرام کمیٹی کی کمیٹی سے ہٹا دیا گیا۔

جسٹس مسرت ہلالی کو خیبرپختونخوا کی انسداد دہشتگردی عدالتوں کی نگراں جج مقرر کیا گیا ہے جبکہ جسٹس ملک شہزاد پنجاب، جسٹس ہاشم کاکڑ بلوچستان، جسٹس صلاح الدین پنہور سندھ اور جسٹس عامر فاروق اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالتوں کے نگراں جج مقرر کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بینچز اختیارات کا معاملہ: ایڈیشنل رجسٹرار فارغ، جسٹس منصور آرٹیکل 191 اے کا جائزہ لیں گے

سپریم کورٹ عملے کے یونیفارم کی کوالٹی چیک کرنے کے لیے قائم کمیٹی تحلیل کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے تمام کمیٹیوں اور تقرریوں کے الگ الگ نوٹیفیکیشن جاری کر دیے گئے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آنے والی تبدیلیاں

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بذریعہ ٹرانسفر آنے والے ججز کے بعد 3 فروری کو انتظامی کمیٹی تبدیل کر دی گئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اسلام آباد ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہو گئے تھے جبکہ جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر اس کمیٹی کے چیئرمین اور جسٹس خادم حسین سومرو انتظامی کمیٹی کے رکن ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو، چیمبر اپیلوں کی سماعت کا حق کن 5 ججوں کے نام؟

اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی بھی تبدیل کر دی گئی۔ نئی ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی سینیئر پیونی جج جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

6 ججز خط سپریم کورٹ سپریم کورٹ ججوں میں کشمکش سپریم کورٹ میں بدلاؤ سپریم کورٹ میں تبدیلیاں عدلیہ میں کشمکش

متعلقہ مضامین

  • سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں، جسٹس امین الدین کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ 
  • سویلینز ملٹری ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں، جج کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ
  • 6 ججوں کے خط کے بعد عدلیہ کتنی تبدیل ہوئی؟
  • کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ
  • نئے ججز کی آمد کے بعد سپریم کورٹ میں ہلچل
  • نئے ججز کی آمد کے بعد سپریم کورٹ میں ہلچل
  • سپریم کورٹ انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو، جسٹس منصور اور عائشہ اطہر شامل نہیں
  • چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی متعدد انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو کر دی،جسٹس منصور،جسٹس منیب،سمیت متعدد سینئر جج کسی کمیٹی کا حصہ نہیں
  • سپریم کورٹ، کیس مینجمنٹ کمیٹی کی نئی تشکیل
  • سپریم کورٹ: عمران خان کی قتل کیس میں سزا کے خلاف اپیل سماعت کے لیے منظور