Nai Baat:
2025-02-20@20:18:26 GMT

پاکستان تجربات کی لیبارٹری

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

پاکستان تجربات کی لیبارٹری

پاکستان شاید واحد ہی خطہ ہوگا جسے آپ ہر قسم کی تجربہ گاہ کی لیبارٹری کہہ سکتے ہیں اور آج بھی ہم آٹھویں عشرے میں انہی بار بار کئے تجربات گاہوں سے گزر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی کام کے لئے تجربہ ضروری ہوتا ہے اور ہم نے تو ماشاء اللہ ہر معاملے میں تجربات ہی تجربات کرکے دیکھے مگر سب بے سود ثابت ہوئے۔ اب ان تجربات میں ایک دو ٹھیک ہوئے تو وہ بھی آٹے میں نمک نہ ہونے کے برابر، اگر تجربات کا ذکر چلا ہی ہے تو ہم نے آزادی کے بعد پہلے ون یونٹ کا تجربہ کیا، پھر تین بار مارشل لاء کا تجربہ ہوا، پھر بار بار جمہوریت کا تجربہ ہوا، یعنی مارشل لائ، پھر جمہوریت، پھر مارشل لاء اور پھر جمہوریت جو آج بھی لیبارٹری میں تجربہ گاہ سے گزر رہی ہے۔ اسی طرح اسلام کے نام پر آزاد ہونے والا ملک میں جنرل ضیاء الحق کی دی اسلامی پالیسی تجربہ گاہ بھی تھی۔ اس تجربے کی آڑ میں انہوں نے تمام اداروں کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا تھا اور اس تجربے کے اثرات کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی ہمارے ماحول میں موجود ہیں۔ ان تجربات کی آڑ میں ہماری نسلوں کو ایک غلط تھیوری پڑھائی گئی وہ تھی کہ اسلام خطرے میں ہے، جمہوریت خطرے میں ہے۔ معاشرہ بھی خطرے میں ہے۔ ملکی سالمیت کو بھی خطرہ ہے… خطرہ اس قدر خطرہ کہ پاکستانی نوجوانوں نے پاکستان کو خطرناک ملک قرار دے ڈالا۔ ہر وقت مشکلات اور تجربات میں گھرا پاکستان جس کے بارے آج اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے تو میرا ایک ہی جواب ہوگا۔ افتراق و انتشار… اب اگر اس سوال پر غور کیا جائے کہ ایسی صورتحال کیونکر پیدا ہوئی تو آپ حالات و واقعات ہم سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سوشل میڈیا ہم پر کیوں نازل کیا گیا کہ اس یہودی خطرے نے تو ہماری نسلوں کو دین و مذہب سے بھی دور کر دیا اور کس طرح استعماری طاقتوں نے مختلف طریقوں سے امت مسلمہ میں گمراہ کن نظریات رائج کئے اور پھر ان بے مقصد تصورات کے پھیل جانے سے مسلمانوں کی وحدت کی جہاں فکر ختم کی گئی وہاں مسلمان بھی مختلف نظریاتی ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے۔ دیکھا جائے تو یہ سارا خلفشار عقائد اور نظریات کا ہے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے نکلنے کے لئے ایک صاف اور سیدھا راستہ کیا ہے کہ ہم خالص اور حقیقی اسلام کی پیروی کریں۔ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اسلام کے سوا ہم جس نظام کو اپنا ئیں گے وہ ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر دے گا۔ آج بھی امت مسلمہ میں کہیں اشتراکی نظریات کا پر چار ہے تو کہیں قومیت پرستی کا فلسفہ زور پکڑ رہا ہے اور کہیں تہذیب کے نام پر بے دینی زندگی سر اٹھا رہی ہے شاید ہمارے پاس وہ رہنما یا افراد نہیں جوغیر اسلامی قوتوں یا ان کے نظریات کا مقابلہ کر سکیں۔ دوسری طرف جدیدیت کے نام پر اسلام کے بارے میں جو منفی راستے اپنائے جا رہے ہیں اور جس طرح سوشل میڈیا پر نوجوان نسل کو اسلام سے دور کرنے کا پرچار ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ہم آنے والے برسوں میں مزید شدید خطرات میں نہ صرف مزید گھریں گے نہ صرف مزید تباہی کا سامنا ہوگا بلکہ ہماری قومی سالمیت کو بھی ان خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پوری دنیا میں آج جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں واحد اسلام محبت کا مذہب ہے امتوں کا مذہب ہے، امن اور سلامتی کا مذہب ہے قوت اور صلاحیت کا مذہب ہے ترقی اور فضیلت کا مذہب ہے اکثر لوگ اسلام اور سوشلزم کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں یہ نامناسب رویہ ہے اور اسلام کے ساتھ اس کی پیوند کاری درست بات نہیں ہے۔ اسلام کا ایک مستقل اور مربوط معاشرتی نظام ہے جبکہ سوشلزم ایک علیحدہ زندگی لہٰذا دونوں کی نہ تو سرحدیں ملتی ہیں اور نہ ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں۔ باقی نیت تو اوپر والا ہی جانتا ہے جو پوری کائنات کا بادشاہ ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان شکست کھا گئے ہیں جو کسی دور میں بہت بڑی طاقت بہت بڑی جماعت اور بہت بڑے سردار تصور کئے جاتے تھے۔ یہ سب کچھ کیسے ختم ہو گیا؟ ایسے حالات میں تو یہی کہا جا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی شکست کا سبب ہمارا باہمی انتشار ہے دوسرا ایک اور بڑا مسئلہ ماڈرن کہلوانے کے شوقین نو جوانوں نے مغربی تہذیب کا پرچار کرنا شروع کر دیا اور یہ مادی چمک و دمک دراصل روح کا شعلہ بجھا دیتی ہے۔

دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ زندگی کی بے راہ روی، نماز اور قرآن پاک سے دوری اور جس طرح ذرائع ابلاغ کے ذریعے تباہ کن اثرات ہماری نسلوں کو جہاں دین اور قرآن سے بہت دور لے جا چکے ہیں، وہاں روز بروز نئی نسل بر بادی اور اپنی ہی تباہی میں گرتی نظر آ رہی ہے۔ آج جدیدیت کے نام پر فیس بک، سوشل میڈیا اور دوسری کئی خرابیوں کے بے دریغ استعمال سے اس قدر خوفناک گند گھروں کے اندر پھیلا دیا گیا اور ہماری بچیاں اور ہمارے کم عمر بچے آج ہر اس گند میں دھکیل دیئے گئے کہ نہ شرم رہی نہ حیانہ پردہ نہ احترام ایک طوفان بد تمیزی برپا ہے جس گند کے بارے میں کبھی ہم سنا کرتے تو آنکھیں شرم سے جھک جاتی تھیں اور آج وہی گند موبائل کے ذریعے انہی استعماری اور یہودی قوتوں نے ہماری نسلوں کے اندر اتار کر جدیدیت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی کسی حد تک تکمیل کر لی ہے۔ یوٹیوب کے ذریعے قوموں کو تباہ کرنے کے لئے وہ کام جو جنگوں کے ذریعے حاصل کرتے تھے اب وہ کام ایک بٹن کی دوری پر اس قدر بیہودہ فلموں ، بیہودہ گفتگو، بیہودہ مضامین کے ذریعے ہوا کہ اس نے مسلمان قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اب اس گند کو کون روکے گا اور کیا یہ رک پائے گا۔ میرے نزدیک اگر ان کا جلد تدارک نہ کیا اور یوٹیوب پر تباہی پھیلانے والے سیلاب کو نہ روکا تو یہ فحاشی، دہشت گردی اس بند گلی کی طرف لے جائے گی جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ یہ وہ تباہی ہے جس سے ہماری نوجوان نسل کی نسل بھی خود کو سنبھال نہ سکے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ہماری نسلوں کا مذہب ہے کے نام پر اسلام کے کے ذریعے

پڑھیں:

'ہماری مدد کریں' امریکا سے بیدخل پاکستانیوں سمیت 300 محصورتارکین وطن کی دنیا سے اپیل

امریکا سے بےدخل کیے گئے پاکستانیوں سمیت 300 محصور افراد نے دنیا سے مدد کی اپیل کردی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا کی جانب سے ملک بدر کیے گئے 300 پاکستانیوں سمیت دیگر افراد کو پاناما کے ایک ہوٹل میں رکھا گیا ہے۔ ساحل سمندر کے کنارے واقع ہوٹل کو امریکا سے بے دخل کیے جانے والے افراد کو رکھنے کے لیے عارضی طور پر ڈیٹنشن سینٹر میں تبدیل کیا گیا ہے۔

تارکین وطن کی غیر ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں خواتین اور مردوں کو ہوٹل کے کمروں کی کھڑکیوں سے ' ہماری مدد کریں' اور ' ہم اپنے ملک میں محفوظ نہیں' جیسے پیغامات پلے کارڈز پر لکھ کر لہراتے ہوئے دیکھا گیا۔ امریکا سے ملک بدر کیے جانے والے 300 تارکین وطن کا تعلق پاکستان، بھارت، افغانستان، چین، ایران اور دیگر ممالک سے ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان تارکین وطن کو اس وقت تک وطن واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک بین الاقوامی حکام ان کی واپسی کا بندوبست نہیں کرتے۔

امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی امریکی سرحد پر قومی ایمرجنسی اور لاکھوں تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے ٹرمپ انتظامیہ کو امریکا سے بے دخل کیے گئے تارکین وطن کو عارضی طور پر اپنے ملک میں روکنے کی پیشکش کی تھی۔ پاناما کے حکام کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو امریکا اور پاناما کے درمیان موجود ہجرت کے معاہدے کے تحت طبی امداد اور خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ امریکا بدر کیے جانے والے 200 افراد میں سے 171 نے پناہ گزینوں کی عالمی ایجنسیوں کی مدد سے اپنے ملک واپس جانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 'ہماری مدد کریں' امریکا سے بیدخل پاکستانیوں سمیت 300 محصورتارکین وطن کی دنیا سے اپیل
  • اگر آج ہماری بہادر فوج نہ ہوتی تو ہمارا حال عراق، لبنان اور شام سے بھی بدتر ہوتا، گورنر سندھ
  • کثیر الفریقی نظام کیا ہے اور ہماری دنیا کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے؟
  • چیمپئنز ٹرافی میں ویرات کی پرفارمنس کیسی ہوگی؟ تجربہ کار کوچ کی بڑی پیش گوئی
  • اے این ایف کی جانب سے کراچی میں ضبط کی گئی پراپرٹیز استعمال کرنے کا انکشاف
  • ٹیم کے 15 کے 15 کھلاڑی کپتان ہیں، ہم اپنی بہترین پرفارمنس دینے کی کوشش کر رہے ہیں: محمد رضوان
  • ٹورازم انڈسٹری اور ہماری معیشت
  • چین کے ابھرتے ہوئے سفری مرکز شنشی صوبے میں متحرک چینی نئے سال کا تجربہ
  • معروف کرکٹر جے پی ڈومنی اور اہلیہ کے درمیان طلاق ہوگئی
  • کراچی : ٹکرسے ایک اورنوجوان جاں بحق، 5ْٹینکرزنذرآتش