Nai Baat:
2025-02-20@20:15:51 GMT

لاقانونیت کی عادی قوم

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

لاقانونیت کی عادی قوم

ہم سب عملی، ذہنی، نفسیاتی اور قومی سطح پر لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرے تو ہمیں وہ برا لگتا ہے، غلط لگتا ہے۔ ہم کسی سڑک پر جا رہے ہوں اور کسی کا سگنل توڑنے پرچالان ہوتے دیکھیں تو کہتے ہیں، اوہ بے چارے کا چالان ہوگیا یعنی ہم اس پر برہم نہیں ہوتے کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔ معاملہ کچھ زیادہ سنگین ہوچکا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے کسی کو سگنل توڑ تے دیکھیں تو کہتے ہیں، واہ، زبردست، کتنا بہادر ہے۔ مجرموں کو بہادرسمجھنا ، انہیں سراہنا ظاہر کرتا ہے کہ ہم ہیرو اور ولن کی بنیادی تعریفوں اور تصورات کو گڈمڈ کر چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجاب میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی تو ظاہر ہوا کہ ہم فکری اور عملی طور پر کس حد تک کرپٹ ہوچکے ہیں۔ بہت سارے تو ایسے ہیں جو صرف اس وجہ سے تجاوزات کے خلاف مہم کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بہرصورت مخالفت کرنی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مریم نواز کے مقابلے میں انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ عثمان بُزدار کی حمایت کرتے ہیں مگر ان سے ہٹ کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجاوزات کے خلاف مہم میں بے روزگاری نظر آ رہی ہے حالانکہ پنجاب حکومت نے سڑکوں پر بے ہنگم کھڑی ریڑھیوں کوہٹانے سے پہلے وہاں کاروبار کرنے والوں کی رجسٹریشن کی، انہیں جدید اور خوبصورت ریڑھیاں ہی نہیں دیں بلکہ ان سڑکوں کے ایک جانب جگہ بھی دی جہاں سے ٹریفک بلاک کیا کرتے تھے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اس مہم کے بعد بھی جو لوگ بے روزگاری کا شکوہ کر رہے ہیں ان کے لئے الگ سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، ان کے روزگار کا متبادل دیا جا رہا ہے۔
سینئر صحافیوں کی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے یوم یکجہتی کشمیر کے موقعے پر ملاقات اور غیر رسمی گپ شپ ہوئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس تنقید کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ ان کے تجاوزات کے خلاف آپریشن پر بات ہوئی تو وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی اور جمہوری حکومت کے لئے یہ ایک بہت ہی مشکل کام تھا۔ مسلم لیگ نون کو اس امر کا کریڈٹ دینا ہوگا کہ اس نے ہمیشہ اپنی سیاست سے زیادہ ملک اور قوم کے مفاد کو سامنے رکھا ہے۔ اس سے پہلے جب عمران خان عین آئینی اور قانونی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر جا رہے تھے تو نواز لیگ نے حکومت سنبھالنے کا فیصلہ کیا حالانکہ یہ سب کو علم تھا کہ عمران خان نام کا شخص معیشت کے لئے بارودی سرنگیں کھود کے جا رہا ہے۔عمران نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا اور ملک میں ڈالروں کا بحران پیدا کیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا اوریہاں پر پٹرول تین ہزار روپے کا لیٹر اور بجلی کا یونٹ تین سو روپے میں بھی نہ ملتا۔ بہت ساروں کا یہ خیال تھا کہ حکومت اسی طرح نہیں لینی چاہئے جس طرح ایک سیانا شخص ایکسیڈنٹ کی گئی گاڑی نہیں خریدتا کہ اس نے دوبارہ پتا نہیں ٹھیک بھی ہونا ہے یا نہیں۔ میاں نواز شریف ہوں،شہبا زشریف ہوں یا مریم نواز، یہ چیلنج قبول کرتے ہیں اوراس پر پورا اتر کے دکھاتے ہیں۔ جب ریڑھیاں ختم کی جائیں گی یا تھڑے توڑے جائیں گے تو کچھ لوگ ضرور ناراض ہوں گے مگر بہت سارے خوش ہوں گے، اپنے محلے بازار اور شہر کو صاف ستھرا دیکھ کے۔ آپ کسی بھی بازار میں چلے جائیں وہاں دکانوں کو دیکھ لیں جیسے کسی سبزی والے کی دکان۔ اس نے اندر سے پوری دکان خالی رکھی ہو گی اور تمام ٹوکرے باہر سجا رکھے ہوں گے۔

بات تجاوزات کے حوالے سے ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگ اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے۔ جب ہم کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو اس ملک کے بارے میں پہلا اندازہ اس کی سڑکیں اور بازار دیکھ کے ہی لگاتے ہیں کہ یہ کتنا مہذب اور کتنا جدید ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غربت کی بنیاد پر غریبوں کو ریڑھیاں لگانے کی اجازت دے دی جائے تو اسی غربت کی بنیاد پر کیا کل چوری اور ڈاکے کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے، اسے جواز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقعے پیدا کرنے چاہئیں اور یہ بھی درست ہے کہ یہ مواقعے ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو دوسرے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہوں، معاشرے کا چہرہ گندا کر رہے ہوں۔ میں صرف لاہور کی نہیں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کے بازاروں سے لے کر منڈی بہائوالدین کے صدر بازار تک کی بات کر رہا ہوں۔ حکومت کو دو امور پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ایک متبادل ریڑھی بازار اور دوسرے پارکنگ کا انتظام۔ جب ہم بازاروں میںپارکنگ سے منع کریں گے تو یقینی طور پر ہمارے پاس ایسی جگہیں ہونی چاہئیں جہاں پر گاڑیاں اورموٹرسائیکلیں پارک کی جا سکیں اور وہ محفوظ بھی رہیں۔ جہاں فوری طور پر پارکنگ پلازے نہیں بن سکتے وہاں الیکٹریکل پارکنگ بھی لائی جا سکتی ہے۔
ایک اور اہم کام گلیوں، محلوں سے تھڑوں کا خاتمہ ہے۔ ہماری بہت ساری سڑکیں اور گلیاں چھوٹی چھوٹی ہیں اور یوں بھی ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی گلیوں میںبھی لوگ اپنی گاڑیاں پارک کرتے ہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں گیراج نہیں ہوتے۔ سو نے پر سہاگہ تقریباً نوے فیصد لوگ اپنے گھر اونچے بناتے ہوئے سیڑھیاں اور ڈھلوان گیٹ سے باہر بنا دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا گھر اونچا بنانا چاہتا ہے تو شوق سے بنائے مگر گیٹ گلی کے فرش کے برابر ہی ہونا چاہئے ، اگر کسی نے سیڑھی یا ڈھلوان بنانی ہے تو وہ اس کی جگہ اپنے گھر کے اندر سے دے۔

میں نے کہا ، ہم لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی قانون پر عمل کرے تووہ غلط لگتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جب کوئی شخص غلط پارکنگ کرے اور گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دے، کوئی شخص اشارہ توڑے اور دوسری طرف سے آنے والے سے ٹکر اجائے، کوئی شخص ون وے کی خلاف ورزی کرے اور سیدھے راستے پر آنے والوں کے لئے ٹریفک بلاک کر دے تو جب بھی ایسے کسی شخص کو روکا جائے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے زیادہ بدمعاشی کرتا ہے۔میں نے پہلے کہا کہ ہم نے اپنی نفسیات اور اخلاقیات ہی خلط ملط کر کے رکھ دی ہیں۔ اگر آپ ایسے سبزی والے کو جس کا ذکر میں نے پہلے کیا، اسے کہیں گے کہ تم یہ ٹوکرے اپنی دکان کے اندر کیوں نہیں رکھتے تو وہ آگے سے کہے گا تمہیں کیا تکلیف ہے، تم مامے لگتے ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم سب کو ریاستی قوانین اور معاشرتی اخلاقیات کی خلاف ورزیاں دیکھ کے تکلیف ہونی چاہئے اگر ہم کچھ تمیز، تہذیب اور شعور رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک مشکل کام شروع کیا ہے اورمیرا خیال ہے کہ گھر کو صاف ستھرا کرنے والا کام ایک خاتون ہی کر سکتی تھی، مرد سیاستدانوں کے بس کی یہ بات ہی نہیں تھی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تجاوزات کے خلاف مریم نواز بہت سارے کوئی شخص ہے کہ ہم ہیں کہ کر رہے کے لئے تھا کہ

پڑھیں:

یورپ کا گریہ

حالیہ سالوں میں عالمی سیاست دو بحرانوں کی اسیر ہے، دونوں ہی بحران جنگی ہیں اور دونوں ہی بائیڈن حکومت کی دین ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی بربریت رکوا چکے اور اب روس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔ یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن کے متعلق 2016 سے لبرل امریکی میڈیا نے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا تھا کہ وہ ایک مسخرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ مغرب سے باہر بھی دنیا کے قریباً ہر ملک میں گنتی کے چند لبرل ضرور پائے جاتے ہیں، سو ہمارے ہاں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، اور بیک ظرف و زمان تب ہی دستیاب ہوتے ہیں جب کوئی قاری صاحب بھی وہی شوق پورا کرلیں جس شوق کی تکمیل کو لبرلزم نے مغرب میں قانونی تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ یا پھر تب جب کوئی لبرل کسی آفت کا اس قدر شکار ہوجائے کہ اس آفت کو ٹالنے کے لیے موم بتیوں کی روشنی ہی واحد علاج قرار پائے۔ انہی مقامی لبرلز نے بھی اپنے اپنے ممالک میں ٹرمپ کو مسخرے کے طور پر ہی پینٹ کرنا شروع کردیا۔ یقین جانیے کچھ عرصے کے لیے تو خود ہم بھی اس پر یقین کر بیٹھے تھے۔

شاید جدید سیاسیات میں یہ چیز مسخرے پن کا ہی درجہ رکھتی ہوگی کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں کسی ملک پر جنگ مسلط نہ کی۔ اس کے برخلاف اس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار کی اور دوحہ مذاکرات کو حتمی نتیجے تک پہنچایا۔ یہ مسخرہ روایتی سیاستدان نہیں، سو نتیجہ دیکھیے کہ امریکا کی سیاسی روایت صدیوں سے اس اصول پر کھڑی تھی کہ امریکا دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتا۔ مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو توڑا اور دوحہ میں مذاکرات کی وہ میز سجا لی جس کی ایک جانب ایسے چہرے بیٹھے تھے جو گوانتانامو بے میں امریکا کے ہی قیدی رہے تھے۔ یہ اس بولڈ قدم کا ہی نتیجہ ہے کہ افغان جنگ کو ختم ہوئے 4 برس ہوچکے۔

اپنے دوسرے دور میں بھی مسخرہ پہلے دور والے چلن پر ہے، وہ نہایت طاقتور یہودی لابی کو لبھانے کے لیے زبان سے جو بھی کہہ رہا ہے مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر بمباری رک چکی اور اب سعودی عرب سمیت 4 عرب ممالک اس کی تعمیر نو کا آغاز کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اہل غزہ کہیں نہیں جا رہے، وہ غزہ میں ہیں اور غزہ میں ہی رہیں گے۔

یوکرین کے حوالے سے مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ نے صرف ایک ہفتے میں ہی اتنے بولڈ قدم اٹھا لیے ہیں کہ یورپ پہلے سکتے، پھر ماتم اور اب گریے کے مرحلے میں ہے۔ یہ ہم محض کہہ نہیں رہے، بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے اس کانفرنس کے صدر کرسٹوف ہیوسگن باقاعدہ رو پڑے۔ وہ شدت غم سے اپنی تقریر جاری نہ رکھ سکے، ڈائس سے اترے اور سیدھا جاکر پہلی صف میں بیٹھی کسی خاتون کے گلے لگ کر اپنا دکھ مٹانے کی کوشش فرما لی۔ گورا مینٹلی کتنا سٹرانگ ہوتا ہے، اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ شدید صدمے میں بھی کرسٹوف کو یہ اچھی طرح یاد رہا کہ غم مٹانے کے لیے موزوں سینہ کونسا ہوتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران جو چند بڑے اعلانات کیے ہیں ان میں سرفہرست یہی ہے کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بنے گا۔ دوسرا یہ کہ امریکا یوکرین کی سلامتی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں، گویا اس کی سلامتی ہمارا درد سر نہیں۔ تیسرا یہ کہ اگر کسی یورپین ملک نے امن فوج کے نام پر اپنی فورس یوکرین بھیجی تو اس کا ذمہ دار وہ ملک خود ہوگا۔ نیٹو یا امریکا اس کے دفاع یا ریسکیو کے لیے نہیں آئےگا۔ چوتھی بات یہ کہ یورپ کو چین یا روس سے کوئی خطرہ نہیں، اسے خطرہ اپنے ہی چھچورپنوں سے ہے۔ مثلاً یہ چھچور پن کہ رومانیہ کے صدارتی انتخابات اس بنیاد پر منسوخ کردیے گئے کہ ان انتخابات میں روس نے ٹک ٹاک کے ذریعے مداخلت کرکے اپنے پسندیدہ امیدوار جیرجسکو کی فتح کی راہ ہموار کی ہے۔ اس حوالے سے نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاف صاف کہا ’اگر سوشل میڈیا کی چند ہزار پوسٹیں آپ کا انتخابی عمل متاثر کردیتی ہیں تو پھر آپ کے ہاں جمہوریت نہیں کچھ اور چل رہا ہے، ہم سوشل میڈیا پر پابندی قبول نہیں کریں گے۔‘

اس پورے معاملے میں سب سے اہم ڈیڑھ گھنٹے کی وہ ٹیلیفونک گفتگو ہے جو امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ عرف مسخرے اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن عرف ڈکٹیٹر کے بیچ ہوئی۔ اس کال کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ’گریٹ کال‘ قرار دیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بقول ٹرمپ پیوٹن سے یوکرین، مشرق وسطیٰ، ایران اور ڈالر کے مستقبل سمیت ہمہ جہت گفتگو ہوئی اور طے پایا کہ امریکا اور روس کے مابین فوری طور پر باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے چاہییں۔ پیش رفت کی رفتار اتنی تیز رہی کہ روس اور امریکا کے مابین پہلے رابطے کے پانچویں روز دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ گئے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو مذاکرات کے پہلے دن کا سورج ریاض میں غروب ہوچکا۔ بالعموم پہلا دن ہی یہ طے کردیتا ہے کہ خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ سو پہلے دن کی گفتگو کے بعد دونوں وفود نے میڈیا سے الگ الگ بات چیت کی ہے۔ روسی وفد کے سربراہ وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے

’ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ امریکی وفد ہمارے مؤقف کا پوری طرح اور درست شعور رکھتا ہے۔ بات چیت بہت مثبت اور تعمیری رہی‘۔

اگرچہ پروٹوکول کے مطابق امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مارکو روبیو کررہے ہیں، مگر سب جانتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے کلیدی رول نمائندہ خصوصی سٹیو ویٹکوف کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے پہلے روز سے متعلق عالمی میڈیا نے سٹیو ویٹکوف کی ہی رائے کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ سٹیو نے کہا ’گفتگو کے بعد ہماری ٹیم نے آپسی گفتگو میں ایک دوسرے سے کہا، اتنے اچھے نتائج کی تو ہم نے توقع بھی نہیں کی تھی، بات چیت بہت ہی تعمیری رہی اور اس میں شامل ہر شخص کی یہ سنجیدہ کوشش رہی کہ مسائل کا کوئی پائیدار حل تلاش کیا جائے، یہ بہت ہی سولڈ گفتگو تھی‘۔

اس گفتگو کے حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ضیا دور والے جنیوا مذاکرات کی طرح کی گفتگو نہیں ہے۔ 80 کی دہائی والے جنیوا مذاکرات کا واحد ایجنڈا افغان جنگ تھی، اور ساری بات چیت اسی سے متعلق تھی۔ جبکہ روس اور امریکا کی حالیہ بات چیت کا ایجنڈا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی رائے کے مطابق طے پایا ہے۔ صدر پیوٹن کئی ماہ سے اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں یہ بات کرتے آرہے تھے کہ ایشو یوکرین نہیں، ایشو کچھ اور عالمی سنگین مسائل ہیں جن کا نتیجہ یوکرین کی جنگ ہے۔ اگر وہ مسائل حل کر لیے جائیں تو یوکرین کی جنگ بھی ختم ہوجائے گی اور آئندہ کے لیے بھی جنگ جیسی صورتحال پیدا ہونے کا امکان باقی نہیں رہے گا۔ پیوٹن کی اس رائے سے صدر ٹرمپ متفق ہیں، چنانچہ دونوں ممالک کے مابین بات چیت ہمہ جہت ہی ہے۔

اس بات چیت کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ کو اس سے باہر رکھا ہے، جس پر یورپ کا صدمے سے برا حال ہے۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بالعموم اور سوویت زوال کے بعد سے بالخصوص خود کو دنیا کے ’مالکان‘ سمجھتے آئے ہیں۔ جب بھی کوئی عالمی بحران کھڑا ہوا امریکی صدر نے ان ممالک کے اس وقت کے سربراہوں کو بطور مالکان ساتھ ہی رکھا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو بھی توڑ دیا۔ برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر پر واضح کردیا گیا ہے کہ دو بڑوں کی بات چیت میں بچوں کا کوئی کام نہیں۔

سوال تو بنتا ہے کہ آخر ٹرمپ نے یورپین لیڈروں کو اس بڑی عالمی شرمساری سے کیوں دوچار کیا؟ اگر آپ لبرل ہیں تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیجیے کہ مسخرے نے تو یہی کرنا تھا، اور اگر آپ لبرل یعنی مغربی اقدار کے کاپی پیسٹر نہیں ہیں تو پھر جواب یہ ہے یورپ کی موجودہ قیادت گلوبلسٹ لبرلز پر مشتمل ہے۔ یو ایس ایڈ اور مختلف طرح کے ادارے یورپین ممالک میں یہ بات یقینی بناتے آئے ہیں کہ کوئی اچھوت یعنی نان لبرل اقتدار میں نہ آنے پائے، جس کی تازہ مثال رومانیہ کا صدارتی الیکشن ہے۔ اور اگلی مثال جرمنی کا الیکشن بننے جارہا تھا، اس معاملے پر حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران نائب امریکی صدر جے ڈی وینس پورے یورپ کے کانوں سے دھواں نکال چکے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رومانیہ میں بھی جلد انتخابی عمل مکمل ہوگا اور جرمنی میں بھی آئی ایف ڈے پر پابندی بس حسرت بن کر رہ جائے گی۔

اگر آپ نے یورپین پارلیمنٹ کے گزشتہ برس والے انتخابات پر غور کیا ہو تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان انتخابات میں یورپ بھر سے قدامت پسند بڑی تعداد میں جیتے، مگر یورپین یونین کی تشکیل دیکھیے کہ اس کا سربراہ ہی نہیں بلکہ باقی کابینہ بھی غیرمنتخب لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جنہیں پیار سے ’برسلز کے بیوروکریٹس‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں تندور گرم پا کر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی دو چار نان سیک لیے۔ جے شنکر نے کہا ’یہ غیر منتخب لوگ جو کبھی انتخابات میں کھڑے نہیں ہوئے، خود ہی اپنا تقرر کرکے جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور باقی دنیا کو جمہوریت کے بھاشن دیتے ہیں، ان کے سفیر ہمارے ممالک میں جو حرکتیں کرتے ہیں وہی حرکتیں ان کے ممالک میں بھارتی سفیر کرے تو یہ قبول کریں گے؟‘

ان حالات میں یورپ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں، یا تو امریکا پر انحصار ختم کرکے اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں اور آخری دموں پر کھڑے لبرلزم کو بچا لیں یا پھر انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے والی حرکتیں بند کرکے ووٹ کوعزت دیں۔ اگر انہوں نے یہ دوسری آپشن چن لی تو یورپ میں نیشنلسٹ حکومتوں کا سرکل پورا ہوجائےگا، اور یہی وہ موقع ہوگا جب ٹرمپ یورپ کو واپس قریب کرلیں گے۔ مگر بس قریب ہی، یورپ کو پرانی حیثیت وہ کبھی نہیں دیں گے، کیونکہ اس یورپ کی تو پوری قیادت ہی امریکا کو پالنی پڑتی ہے جس پر اربوں ڈالرز صرف ہوجاتے ہیں اور امریکا اس وقت 34 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کے پاس تیر بہدف مسخرہ پن یہی ہے کہ خرچوں کے بوجھ سے خود کو آزاد کیا جائے۔ ٹرمپ کے نزدیک امریکا کی بڑی فضول خرچیوں میں سے ایک یورپین قیادت کی پرورش ہے۔

یہ تو ہم سب دیکھ ہی چکے کہ ٹرمپ ہر طرح کی فضول خرچیاں بند کرنے کے موڈ میں ہیں، اس ضمن میں یو ایس ایڈ کا حشر آپ کے سامنے ہی ہے۔ سو بے جا نہ ہوگا کہ جاتے جاتے ہم مقامی لبرلز کو بھی ایک مخلصانہ مشورہ دے دیں۔ پلیز کوئی باعزت روزگار ڈھونڈ لیجیے۔ این جی اوز والا دور تو تمام ہوا۔ کرسٹوف ہیوسگن کی طرح رونے کو جی کرے تو ہمارا کاندھا حاضر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews امریکا این جی اوز جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ رعایت اللہ فاروقی روس عالمی سیاست مسخرہ پن میونخ سیکیورٹی کانفرنس وی نیوز یو ایس ایڈ یورپ یوکرین جنگ

متعلقہ مضامین

  • عید کے بعد احتجاجی تحریک
  • صدر ٹرمپ ایک بات بھول رہے ہیں
  • عمران خان کے خطوط
  • یورپ کا گریہ
  • رمضان پیکیج
  • لائیو ویڈیو اسٹریمنگ کرنے کے عادی صارفین کیلئےاہم تبدیلی کرنے کا اعلان
  • عبوری سربراہ دہشتگردی اور لاقانونیت کو فروغ دے رہے ہیں، حسینہ واجد
  • وقت اور زندگی کی حقیقت
  • پی ٹی آئی کے لئے مشکلات
  • آرمی چیف کی طلبا کے ساتھ نشست