Nai Baat:
2025-04-13@17:05:57 GMT

جدید ڈیری فارمنگ،پنجاب حکومت توجہ کرے

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

جدید ڈیری فارمنگ،پنجاب حکومت توجہ کرے

جدید ڈیری فارمنگ میں انقلاب برپا کرنے والے ممالک میں نیوزی لینڈ سب سے نمایاں ہے۔ نیوزی لینڈ نے ڈیری فارمنگ کو جدید ٹیکنالوجی، موثر انتظامیہ، اور پائیدار طریقوں سے یکسر بدل دیا ہے۔ یہ ملک اپنی معیاری ڈیری مصنوعات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور دودھ، مکھن، پنیر و دیگر ڈیری مصنوعات کی بڑی مقدار برآمد کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی سال 2024 کی سالانہ ڈیری ایکسپورٹ 423 بلین ڈالر رہی۔ نیوزی لینڈ نے جدید ڈیری فارمنگ کے لیے جدید مشینری، جینیاتی طور پر بہتر جانوروں کی نسل اور موثر مارکیٹنگ کے طریقے اپنائے ہیں۔ یہاں کے کسانوں کو جدید تربیت اور وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، جس سے وہ زیادہ پیداوار حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، نیوزی لینڈ نے ماحولیاتی تحفظ کو بھی اہمیت دی ہے، جس سے ڈیری فارمنگ پائیدار اور ماحول دوست بن گئی ہے۔ نیوزی لینڈ کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کی حکومتی پالیسیاں ہیں، جو کسانوں کو معاونت فراہم کرتی ہیں اور برآمدات کو فروغ دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، نیوزی لینڈ کی ڈیری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں اپنی معیاری پہچان رکھتی ہیں۔ دیگر ممالک کے لیے نیوزی لینڈ کی کامیابی ایک مثال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور حکومتی تعاون سے ڈیری فارمنگ کو کس طرح ترقی دی جا سکتی ہے۔ اب نیوزی لینڈ سے واپس آتے ہیں وطن عزیز کی طرف کہ جس کا صوبہ پنجاب، بالکل نیوزی لینڈ کی طرح زراعت کے لحاظ سے ملک کا دل ہے، جہاں کی زمینیں زرخیز ہیں اور آب و ہوا ،موسمی حالات اور وسیع پانی کے ذخائر اسے کاشتکاری یا زراعت کے ساتھ ساتھ مویشی پالنے یا موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق ڈیری فارمنگ کے لئے مثالی خطہ بناتے ہیں۔ بلا شبہ ڈیری فارمنگ پاکستان کی زرعی معیشت کا ایک اہم جزو ہے۔ پنجاب جو کہ زرعی زمین اور آبادی کے لحاظ سے ملک کا اہم ترین صوبہ ہے اس میں ڈیری فارمنگ کے شعبے کی ترقی و بہتری کے بے انتہا امکانات اور فوائد موجود ہیں۔ اس شعبے میں خاطرخواہ اور جدید طرز پہ ترقی سے جہاں اہلیان پنجاب کی جسمانی و معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے وہیں پنجاب کی صوبائی حکومت اس سے وسیع اقتصادی فوائد حاصل کر سکتی ہے۔ ماڈرن ڈیری فارمنگ پنجاب کی معیشت میں انقلاب لا سکتا ہے۔ ڈیری فارمنگ سے مراد مویشیوں، خاص طور پہ گائے، بھینس، بکریوں اور بھیڑوں کو پال کر دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات تیار کرنا ہے جو نا صرف خوراک کی ضروریات پورا کرنے کا سبب ہے بلکہ اس سے جانوروں کے مالکان کی معاشی حالت میں بہتری اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اب آتے ہیں ماڈرن ڈیری فارمنگ کی طرف تو روایتی ڈیری فارمنگ کو جب آپ جدید ٹیکنالوجی، صحت مند جانوروں کی افزائش، دودھ سے بنی دیگر اشیائے خورونوش کی معیاری تیاری جیسے کہ دھی، مکھن، پنیر، گھی وغیرہ اور موثر مارکیٹنگ سے مارکیٹ کرتے ہیں تو ان اشیا کو صرف لوکل نہیں بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ تک بھی رسائی مل جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جدید ڈیری فارمنگ سے پنجاب کی قریب 9 ملین ٹن دودھ کی پیداوار کو ایک سال کے قلیل عرصے میں 3 11 ملین ٹن تک پہنچایا جا سکتا ہے اور پھر اسے تناسب سے ہر سال اس میں اضافہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ جس سے نا صرف حکومت پنجاب میں منافع کما سکتی ہے بلکہ دیگر ڈیری مصنوعات کی برآمدات سے بھی اچھا بھلا منافع حاصل ہو سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے ڈیری فارمنگ کو جدید خطوط پہ استوار کرنے کے لئے اس میں سرمایہ کاری اور اصلاحات لانے کے بعد اس کے معاشی اثرات کیا ہوں گے۔ جدید ڈیری فارمنگ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جہاں اعلیٰ نسل کے جانور حاصل ہوں گے وہیں جدید مشینری کے استعمال سے خالص اور وافر دودھ حاصل ہو گا۔ اور نتیجتاً کسانوں کو روایتی فصلوں کے ساتھ ساتھ کم خرچ سے آمدن کا ایک اضافی اور ذریعہ حاصل ہو جائیگا یعنی ایک درمیانے درجے کے کسان کے لئے دودھ کی پیداوار اور جانوروں کی افزائش سے سالانہ لاکھوں روپے کی اضافی آمدنی ممکن ہو سکے گی۔ جدید ڈیری فارمنگ کے ساتھ پیداوار میں اضافے کی وجہ سے ہزاروں دوسرے افراد کو بھی روزگار کے مواقع ملیں گے۔ جن میں دودھ کی پراسیسنگ،دودھ کی ترسیل، فنی مہارت رکھنے والے افراد، وارنٹی سروسز اور سپلائی چین کے لوگ قابل ذکر ہیں۔ جدید ڈیری فارمنگ سے جہاں دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہو گا وہیں ملاوٹ سے پاک اور معیاری دودھ کی سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے کسان خود کو بلکہ اپنے خاندان کو بھی صحت مند غذا فراہم کر سکیں گے۔ خالص دودھ و دیگر ڈیری اشیائے خوردونوش کے استعمال سے جہاں پنجاب کے باسی صحت مند ہونگے وہیں اگلی نسل کی افزائش پہ اس کا انتہائی مثبت اثر بھی نظر آئیگا۔ نتیجتاً اس سے تعلیم ، پبلک ہیلتھ سسٹم سسٹم میں بھی بہتری آئیگی۔ جدید ڈیری فارمنگ سے قدرتی کاشتکاری کو بھی فروغ ملے گا اور ایک دفعہ پھر کسان جانوروں کے فضلات کو کھاد کے طور پہ استعمال کرتے ہوئے خالص یا آرگینک فارمنگ کی طرف بڑھیں گے۔ اس سے مضر صحت کیمیا کھادوں پہ انحصار کم ہو گا بلکہ آرگینک فارمنگ سے فی ایکڑ پیداوار بھلے کم ہو گی لیکن خالص ہونے کے سبب لوکل اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں زیادہ منافع بخش ثابت ہو گی۔ دودھ سے تیار کردہ مکھن، گھی،پنیر، دھی اور آئس کریم جیسی دیگر مصنوعات کی پیداوار بڑھانے سے مارکیٹ میں تنوع آئیگا اور منافع میں اضافہ ہو گا۔ یہیں انہی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دیتے ہوئے پنجاب حکومت سالانہ 250 سے 500 ملین ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ حاصل کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں آن لائن مارکیٹنگ اور ای کامرس کے ذریعے کسان اپنی مصنوعات کو براہ راست صارفین تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت کو اس سلسلے میں کون سے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ جن سے جدید ڈیری فارمنگ کا بلا توقف آغاز ہو سکے۔ پنجاب حکومت کو جدید ڈیری فارمنگ پروگرام کے نام سے سبسڈی یا بلا سود قرض سکیم جاری کرنی چاہئے۔ جس میں وہ نوجوانوں سمیت کسانوں کو اس طرف راغب کرے کہ وہ آسان شرائط پہ پنجاب حکومت سے قرض لیکر جدید ڈیری فارمنگ شروع کر سکیں۔ اس سلسلے میں ہر کامیاب درخواست دہندہ کو جدید طریقوں پر تربیت دینے کے لئے ٹریننگ پروگرامز رکھے جائیں۔ پھر ان لوگوں کو جدید مشینری، صحت مند جانوروں کی نسل اور معیاری خوراک فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ اسی طرح ڈیری فارمنگ مالکان کو مارکیٹ تک آسان رسائی فراہم کرنے کے لئے ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج سہولیات کو بہتر بنایا جائے۔ سب سے اہم بات صوبائی حکومت کی طرف سے ڈیری فارمنگ کے شعبے میں تحقیق اور ترقی کے لئے ایک ریسرچ سنٹر بنانا چاہئے تا کہ ڈیری فارمنگ کو جدید رکھنے کے لئے نئی ٹیکنالوجیز اور طریقے متعارف کئے جاتے رہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جدید ڈیری فارمنگ جدید ٹیکنالوجی ڈیری فارمنگ سے ڈیری فارمنگ کے ڈیری فارمنگ کو نیوزی لینڈ کی ڈیری مصنوعات پنجاب حکومت مصنوعات کی کی پیداوار جانوروں کی کسانوں کو پنجاب کی فراہم کر سکتی ہے سکتا ہے حاصل ہو دودھ کی سے جہاں کو جدید کو بھی کے لئے کی طرف

پڑھیں:

ٹریفک کے مسائل پر توجہ دیں

 قارئین ! آج جس موضوع پر اظہار خیال کرنے کی کوشش کی ہے ، وہ ٹریفک مسائل سے متعلق ہے جس کا اہل کراچی شکار ہیں بلکہ آجکل خاصے پریشان ہیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے محکمے کے افسران کو ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر بھر میں پرانی بوسیدہ اور ہیوی گاڑیوں کی سخت چیکنگ کی جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ موٹرسائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ کا استعمال لازمی قرار دیا، بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے والے افراد کے خلاف موقع پر چالان کیا جائے ، فینسی نمبر پلیٹس، کالے شیشے، نیلی لائٹس، ہوٹرز اور سائرن والی گاڑیوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کی جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈی آئی جی ٹریفک نے اس شہر کے لیے خلوص دل سے مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔

 یہاں میں کچھ مسائل پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جن کا حل ہونا بہت ضروری ہے اگر ہماری پولیس ان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوتی ہے تو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ پولیس کے بہتر اقدامات اٹھانے پر خوشی سے سرشار ہوں گے کیونکہ اس وقت لوگ بہت مایوس بلکہ زیادہ مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔

اس شہر میں چنگ چی والوں نے شہر کا ماحول خراب کر دیا ہے ادھر موٹرسائیکل سواروں نے قانون کی تمام حدیں پار کرلی ہیں یہ نہ تو اینٹی گیٹر کو اہمیت دیتے ہیں11 سال کے نوعمر موٹرسائیکل چلاتے ہیں اور ایک موٹرسائیکل پر 12 سال سے لے کر 16 سال کے لڑکے جن کی تعداد 3 تا چار ہوتی ہے وہ سوار ہوجاتے ہیں، انتہائی تیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلاتے ہیں، ٹریفک کے قوانین کی قطعی پابندی نہیں کرتے ،گاڑیوں سے ٹکراتے ہیں جلدی کے چکر میں 30 لاکھ سے لے کر 90 لاکھ کی گاڑی میں اسکریچ ڈال دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں موٹرسائیکل 16 سالہ لڑکا چلا رہا تھا پیچھے اس کی والدہ فخریہ بیٹھی تھیں کہ ان کا بیٹا جوان ہو گیا ہے اس نوجوان نے ایک کار کو ٹکر ماری جس کی وجہ سے موٹرسائیکل گر پڑی اور اس کی کہنی میں چوٹ لگ گئی، ماں نے کار والے کو پکڑ لیا اور بے تحاشا گندی زبان استعمال کی، اس دوران 30 موٹرسائیکل والے ان کی حمایت میں جمع ہو گئے۔

کار سوار نے کہا’’ محترمہ! میں نے اینٹی گیٹر دیا ہے۔ آپ دیکھیں جو اب تک آن ہے۔ آپ بلاوجہ گندی زبان استعمال کر رہی ہیں۔ اس کی والدہ نے کہا’’ اپنی گاڑی میں مجھے اور میرے بیٹے کو بٹھاؤ اور ہمیں اسپتال لے کر چلو‘‘اب یہ تو زیادتی کی بات ہے، نوجوان موٹرسائیکل مصروف روٹ پر چلاتے ہیں۔

صبح کا منظر کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک موٹرسائیکل پر تین طالب علم اسکول جاتے ہیں جب کہ ان کے والدین کو چاہیے کہ نوجوانوں کو موٹرسائیکل نہ دیں اس پر ڈی آئی جی ٹریفک کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔ شرفا کے پاس لائسنس ہے اس کے باوجود ان داداگیروں نے اس شہر کی خوبصورتی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ آج کل ایک نیا فیشن مارکیٹ میں آیا ہے نوجوانوں نے اپنی گاڑیوں میں سفید ہیڈ لائٹ لگا لی ہیں ،رات میں سامنے کچھ نظر نہیں آتا ،یہ المیہ ہے شریف شہری کی جان عذاب میں آگئی ہے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہیوی گاڑیوں کی رفتار 30 کلو میٹر ہونی چاہیے۔ پانی کے ٹینکرز سے پانی رس رہا ہوتا ہے جس سے روڈ بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ 

انھوں نے مزید کہا کہ حادثات کی روک تھام ہونی چاہیے ،ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹریفک پولیس محنت سے ٹریفک کے نظام کو سیدھے راستے پر لانا چاہتی ہے سب سے پہلے موٹرسائیکل والوں کو اس بات کا پابند کیا جائے ، اینٹی گیٹر تمام موٹرسائیکل والوں کے چیک کیے جائیں، سائیڈ گلاس لگانے کے حوالے سے انھیں پابند کیا جائے ،معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ80 فی صد موٹرسائیکلوںکی نمبر پلیٹ ہی نہیں ہوتی، حادثے کی صورت میں پولیس بھی کچھ نہیں کر سکتی، نمبر پلیٹ کی ہی وجہ سے آپ حادثے کے ملزم کو پکڑ سکتے ہیں کہ اس کا ایڈریس مل جائے گا۔

رش کے دوران لوگوں کے چلنے والی فٹ پاتھوں پر آپ کو یہ موٹرسائیکل والے رواں دواں نظر آئیں گے، قوم فٹ پاتھ پر اپنی جان کی حفاظت کرے یا ان فٹ پاتھوں پر چلنے والے موٹرسائیکل سواروں کو چیک کرے پھر جاہل حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ کام پولیس کا ہے وہ انھیں پکڑیں ۔

اصل میں ہمارے معاشرے میں 20 فی صد پڑھے لکھے لوگ جاہلوں سے بہتر ہیں۔ بڑی کمرشل گاڑیاں ون وے کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں جب تک گاڑیوں کے لائسنس اور کاغذات نہیں چیک کیے جائیں گے ، چند داداگیر قسم کے لوگ، پولیس کی محنت پر پانی پھیرتے رہیں گے ۔

سفید لائٹس جو منچلوں نے کاروں پر لگا رکھی ہیں اس سے سامنے والی گاڑی بالکل نظر نہیں آتی روز حادثات ہوتے ہیں قصوروار بے قصور کو ذلیل و رسوا کرتا ہے کیونکہ اکثر رات دس بجے کے بعد پولیس بہت کم جگہ دیکھی جاتی ہے۔

ظاہر ہے ان کی بھی ڈیوٹی کے اوقات مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل ٹریفک قوانین کو توڑنا ہم نے اپنا چلن بنا لیا ہے۔میں پھر یہی کہوں گا کہ 70 فیصد موٹرسائیکل سواروں کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہوتے، جب صوبائی حکومت سختی سے اعلان کرے گی تو صرف ایک ماہ میں عام شہری لائسنس اورکاغذات بنوائیں گے ہیلمٹ سے تو ایک شخص کی جان بچ سکتی ہے مگر ان موٹرسائیکل والوں کی وجہ سے ہر دوسرے شخص کی جان عذاب میں ہے ۔.

14 سال کے نوعمر موٹر سائیکل چلاتے پھر رہے ہیں حادثے کی صورت میں 14 سال کے بچے کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہوگی ؟کیونکہ شہر میں ٹریفک بہت ہے اور اس میں 70 فیصد تو موٹرسائیکل والے ایسے ہیں جو سڑک کے کنارے کھڑی کار کے آگے پیچھے موٹرسائیکل لاک کرکے چلے جاتے ہیں ،وقت ضرورت گاڑی کے مالک راہ گیروں کی مدد لے کر موٹرسائیکلیں ہٹاتے ہیں۔

ذرا سوچیں! ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ موبائل پر ایس ایم ایس کرتے ہوئے یہ موٹرسائیکل چلا رہے ہوتے ہیں اگر انھیں آپ ہارن دے کر باور کرائیں کہ راستہ دیں تو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں اور گالیاں الگ دیتے ہیں تو پھر معزز شہری کی تو کوئی عزت نہ ہوئی۔ میں پھر لکھ رہا ہوں کہ موٹرسائیکل افراد ٹریفک قوانین کی پابندی کریں تو حادثات کی شرح میں نمایاں کمی آسکتی ہے، جب کہ محکمہ ٹریفک پولیس کے اہلکارں سے مودبانہ گزارش ہے کہ لائسنس، ٹیکس، لائٹ، اینٹی گیٹر (موٹرسائیکل کے حوالے سے) آپ سختی سے قانونی طور پر انھیں پابند کریں تاکہ شریف شہری قانون کی حکمرانی کو بہتر طریقے سے دیکھ کر آپ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • سنکگران فیسٹیول؛ تھائی لینڈ قونصلیٹ کراچی کل سے دو روز کیلئے بند رہے گا
  • پی ایس ایل؛ شائقین کی عدم توجہ نے سوال اٹھادیا
  • ٹریفک کے مسائل پر توجہ دیں
  • پشاور، میٹرک امتحان میں بھٹو کی تعلیمی پالیسی سے متعلق سوال پر کے پی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس
  • غربت کا خاتمہ اولین ترجیح، آئی ٹی کے فروغ پر توجہ دی جارہی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • امریکہ میں رجسٹریشن کے بغیر مقیم غیر ملکیوں پر نیا عتاب،11 اپریل کی ڈیڈ لائن دیدی
  • سندھ بلڈنگ، کھوڑو سسٹم میں دودھ کی حفاظت پر بلے مامور
  • ٹریجیڈی اور کامیڈی
  • ڈیری کی صنعت کیلئے اچھی خبر، حکومت نے دودھ پر ٹیکس کے حوالے سے بڑی نیوز سنادی،جا نئے کیا
  • حکومت دودھ پر ٹیکس میں کمی کے لیے سرگرم، وفاقی وزیر نے اچھی خبر سنا دی