ماسکو عالمی کانفرنس: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر تشویش
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر میں 78 سال سے جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف کشمیر الائنس فورم ماسکو کے زیر اہتمام آٹھویں عالمی آن لائن کشمیر کانفرنس میں مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر، خصوصی حیثیت کے خاتمے اور مسلسل فوجی محاصرے کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔ شرکاء نے زور دیا کہ پاکستان کو اپنی فارن پالیسی کو مزید موثر اور جارحانہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جا سکے۔
اس کانفرنس میں دنیا بھر سے شریک ممتاز کشمیری رہنمائوں، سیاسی و سماجی شخصیات، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں نے اقوام متحدہ‘ او آئی سی اور عالمی طاقتوں کو جھنجھوڑنے کیلئے سفارتی محاذ پر مزید فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم امریکہ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام نبی فائی نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ میں پالیسیاں تبدیل ہو رہی ہیں، ایسے میں پاکستان کو اپنی سفارتی پوزیشن کو مزید مستحکم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا۔ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنا موثر کردار ادا کریں۔ برطانیہ سے لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستانی فوج اور حکومت کی حمایت انتہائی ضروری ہے۔ اگر پاکستان کمزور ہوگا تو کشمیر کاز بھی متاثر ہوگا۔ اسلئے ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے پر مرکوز کرنی ہونگی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اوورسیز کمیونٹی کے چیئرمین میاں طارق جاوید نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونیوالی کور کمانڈر کانفرنس میں جس طرح مسئلہ کشمیر پر بات کی گئی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اور ادارے اس مسئلے کو دوبارہ عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں، جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ کشمیر کونسل یورپی یونین کے چیئرمین علی رضا سید نے کہا کہ پاکستان اس وقت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا دو سال کیلئے رکن بن چکا ہے۔ ان دو سالوں میں پاکستان کو عملی اقدامات کرتے ہوئے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے فیصلہ کن سفارتی کوششیں کرنا ہونگی۔
سپین سے راجہ مختار احمد سونی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بین الاقوامی سطح پر موثر لابنگ کی ضرورت ہے۔ نیویارک سے ڈاکٹر ملک ندیم عابد نے کہا کہ پاکستان کو فوری طور پر اپنی کشمیر پالیسی کو ری ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھ کر وہاں ایک ایڈمنسٹریٹر تعینات کرانے کا مطالبہ کریں۔ نیلسن منڈیلا کی طرز پر ایک کمیشن قائم کیا جائے جو اْن عناصر کا احتساب کرے جنہوں نے فارن پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچایا۔ فرینڈز آف کشمیر کی چیئرپرسن غزالہ حبیب نے کہا کہ کشمیر کے مظلوم عوام اس وقت بھارتی ظلم و ستم کیخلاف سینہ سپر ہیں۔ عالمی برادری کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایک عالمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو دنیا بھر میں کشمیر کاز کو موثر طریقے سے اجاگر کرے۔ کشمیر الائنس فورم ماسکو کے جنرل سیکرٹری ارسلان اصغر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
آخر میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کے غیر قانونی قبضے، انسانی حقوق کی پامالی اور مظلوم کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کا فوری نوٹس لیں اور ان کے بنیادی حقوق بحال کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔
حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے بھارتی حکومت کالے قانون افسپا پر نظرثانی کرنے اور منسوخ کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ یہ قانون بھارتی فوجیوں کو وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔ اس قانون کے تحت گزشتہ طویل عرصے سے بھارتی فوج بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ بھارت گزشتہ 75 سال سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کا بے دریغ خون بہا جا رہا ہے‘ لیکن اپنے اپنے مفادات کی اسیر عالمی طاقتیں اس سے صرف نظر کئے ہوئے ہیں۔ اس مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کی اصل ذمہ داری برطانیہ پر عائد ہوتی ہے جس کے نمائندے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بھارت نواز رویئے کے باعث یہ مسئلہ پیداہوا۔ انگریز گورنر جنرل قانوناً اور اخلاقاً اس بات کا پابند تھا کہ وہ تقسیم ہند کے ریاستوں کے بارے میں فارمولے پر عمل کراتا۔ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد بھی برطانیہ نے اس ضمن میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس کا فرض بنتا تھا۔ بعد میں یہ مسئلہ عالمی سیاست کا شکار ہو گیا۔ اب جس طرح دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے دوران اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کیلئے انسان دوست اور آزادی پسند حلقوں نے کوشش کی ہے‘ اگر ایسی کوششیں اسی شدومد اور جذبے سے جاری رکھی گئیں تو یقینا ہمارے کشمیر کاز کو تقویت پہنچے گی۔
اقوام متحدہ کا ادارہ ڈی پی آئی دنیا کے مختلف خطوں میں پائی جا رہی کشیدگی کے خاتمے میں کردار ادا کر سکتا ہے اور بھائی چارہ قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ادارے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ کشمیر،میانمار اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہیں۔ ڈی پی آئی ان خلاف ورزیوں کو اجاگر کرے تاکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اقدامات ہوں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اقوام متحدہ پاکستان کو کرتے ہوئے نے کہا کہ کو اجاگر کرنے کی
پڑھیں:
مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر تجارت کا فائدہ بھارت کو ہوگا
اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر تجارت کا فائدہ بھارت کو ہوگا‘ دوطرفہ تعلقات کے ذریعے ہی اعتماد سازی کی فضا قائم کرکے تنازعات حل کیے جاسکتے ہیں‘ دونوں ایٹمی ممالک جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے‘ بھارت میں مسلم اقلیت نشانے پر ہے‘ پاکستان کے خلاف بھارت نے دفاعی بجٹ بڑھا کر6.81 ٹریلین بھارتی روپے کردیا۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ض) کے سربراہ، رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز الحق‘ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما زاہد ملک ‘سول سوسائٹی کے ممبر ذوالفقار علی شاہ ‘سابق بیورو کریٹ قومی کشمیر کمیٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل طارق بھٹی‘ اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق سینئر نائب صدر، پیپلز ٹریڈرز سیل کے رہنما عمران شبیر عباسی‘ سارک ایس ایم ای کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین چودھری سجاد سرور‘دانشور سہیل مہدی اور ممتاز قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت کرنا درست ہوگا؟‘‘ اعجاز الحق نے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ دھوکا دیا اور 7 دہائیوں سے وہ اپنی ہی پیش کردہ قراردادوں پر عمل نہیں کر رہا اور اس کے ساتھ تجارت تو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اس کا کیا فائدہ ملا تھا؟ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہوگا اور اصل فریق تو کشمیری ہیں جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے‘ جب یہ مسئلہ حل ہوجائے تو بھارت کے ساتھ تجارت کا اس کے بعد سوچا جاسکتا ہے‘ فی الحال تو بھارت میں انتہا پسندی کا رحجان بڑھ رہا ہے‘ ابھی حال ہی میں بھارتی ریاست اترپردیش میں حکام نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں کے اس الزام کے بعد ایک اور مسجد کو شہیدکر دیا کہ اس مسجد کا کچھ حصہ سرکاری زمین پر ہے‘ اس سے قبل عدالت نے مسجد کے انہدام پر8 فروری تک حکم امتناع جاری کیا تھا جس کا وقت ختم ہوتے ہی حکام نے ایکشن شروع کر دیا مسجد کی مسماری بھارتیعدالت عظمیٰ کی ہدایت کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب ایک امریکی تھنک ٹینک کی جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بھارت میں نفرت انگیزی کے 1165 واقعات ریکارڈ کیے گئے جو 2023ء کے مقابلے میں74.4 فیصد زیادہ تھے۔ ان واقعات میں 98.5 فیصد مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا جبکہ80 فیصد ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں بی جے پی کی حکومت تھی لہٰذا ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لینا ہوگا۔ زاہد ملک نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جو فورم ہے اس پر ہی جانا چاہیے اس مسئلے کے حل کے لیے دونوں ممالک جنگ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں‘ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ تجارت کو ضرور کھلنا چاہیے‘ تجارت کھلنے سے پاکستان کو زیادہ فائدہ ہے‘ اگر بھارت سے سبزیاں اور دالیں منگوائیں جاسکتی ہیں تو پاکستان سیمنٹ سریا اور نمک بھیج کر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے اور بات چیت کے لیے مناسب فضا کا ہونا بھی ضروری ہے‘ اگر دونوں ملک باہمی تجارت شروع کردیں تو دونوں کے بین اعتماد سازی کا عمل بھی بہتر ہوسکتاہے‘ یہ بہتر ہوگا تو بات چیت بھی ہوسکے گی اور ممکن ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونے کی بھی امید بر آئے۔ طارق بھٹی نے کہا کہ 5 اگست 2019ء سے قبل بھارت کے ساتھ تجارت ہو رہی تھی‘ تاہم جب بھی بھارت کے ساتھ تجارت ہوتی ہے تو اس کا زیادہ فائدہ بھارت کو ہی پہنچتا ہے‘ 5 اگست کے بھارتی اقدام سے پہلے تجارت ہو رہی تھی اس کے بعد بند کر دی گئی ویسے بھی ایک غیر مقبول حکومت یہ فیصلہ کیسے لے سکتی ہے‘ اس کے لیے حکومت کا مقبول اور مستحکم ہونا ضروری ہے‘ ویسے یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے بھی حل نہیں ہونا ہے‘ پاکستان کو چاہیے کہ جرأت کا مظاہرہ کرے اور کشمیر بھارت سے چھین لے‘ اس کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت غیر معمولی فیصلہ ہوگا اس وقت بھارت کی صورت حال بہت تبدیل ہوئی ہے‘ بھارت میں مسلمانوں کی املاک نذر آتش کرنا‘ عبادت گاہوں کو مسمار کرنا‘ انہیں مذہبی‘ سیاسی و سماجی آزادی سے محروم رکھنا مودی سرکار کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے‘ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ان کارروائیوں میں بھارتی عدالتیں بھی برابر کی شریک ہیں جو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے متعصبانہ فیصلے صادر کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مودی سرکار اور بھارت کے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں بھارت ایک جنونی ہندو ریاست بن چکا ہے جس کا اعتراف معروف امریکی جریدہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ بھی اپنی رپورٹ میں کر چکا ہے بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے خلاف رجحانات میں شدید اضافہ ہوا ہے‘ بالخصوص مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے آئین میں ترامیم کی گئیں‘ کالے قانون جیسے سخت قوانین نافذ کیے گئے اور جنونی ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا کر انہیں قتل کرنے‘ ان پر قدغنیں لگانے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کی راہ ہموار کی گئی‘ یہ سب کارروائیاں دراصل بھارت کو کٹر ہندو ریاست بنانے کا عملی ثبوت ہیں جسے عالمی سطح پر مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں بی جے پی اقتدار میں ہو یا کانگریس‘ مسلمان دشمنی پر مبنی دونوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے‘ عالمی اداروں کو بھارت کی ان ریشہ دوانیوں کا پاکستان کے کہنے پر نہ سہی‘ کم از کم عالمی میڈیا اور امریکی تھنک ٹینک کی اس رپورٹ پر ہی نوٹس لے لینا چاہیے۔ سجاد سرور نے کہا کہ بھارت تو وفاقی بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے6.81 ٹریلین بھارتی روپے بڑھا رہا ہے اور ہم اگر اس کے ساتھ تجارت کریں گے تو اس کا سارا فائدہ بھارت کو ہوگا‘ بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور خطے میں طاقت کے توازن کو مزید بگاڑنے کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں‘ حالیہ بجٹ میں بھارتی حکومت نے دفاعی اخراجات میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے جس سے نہ صرف جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کو تقویت ملے گی بلکہ خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ بھارتی بجٹ میں 486 ارب روپے ہوائی جہاز اور ایرو انجنز کی خریداری کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 243.9 ارب روپے بحری بیڑوں کے لیے رکھے گئے ہیں‘ یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت اپنی فضائی اور بحری قوت کو غیرمعمولی طور پر بڑھا رہا ہے حالانکہ اس کے پاس پہلے ہی ایک وسیع بحری بیڑا اور ایٹمی آبدوزیں موجود ہیں‘ بھارت کی یہ فوجی حکمت عملی خطے میں طاقت کے توازن کو مزید غیر مستحکم کر رہی ہے اور اس کی جارحانہ پالیسیوں کو بھی واضح کر رہی ہے۔ بھارت کا مسلسل بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ اور جنگی سازوسامان کا حصول اس اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ آخر بھارت کا دشمن کون ہے؟ جس کے خلاف وہ بے تحاشا اسلحہ اکٹھا کر رہا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ بھارت خطے میں سب سے زیادہ دشمنی پاکستان سے رکھتا ہے عالمی برادری کو بھی بھارت کے جنگی جنون کا نوٹس لینا چاہیے۔ سہیل مہدی نے کہا کہ تجارت کو چھوڑیں‘ مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دیں‘ مسلم ممالک کو اب مصلحت سے نکل کر فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے عملی اقدامات کی طرف آنا ہوگا‘ مسلم امہ متحد ہوتی تو اول تو یہ مسائل سامنے ہی نہ آتے‘ اگر آ بھی جاتے تو ان کے اتحاد کے باعث بلا تاخیر حل ہو چکے ہوتے‘ بڑی طاقتوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان مسائل کو انسانوں اور انسانیت کے نہیں بلکہ مسلمانوں کے مسائل سمجھ کر نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اب تو کشمیر اور فلسطین میں ظلم اور جبر کے باعث بدترین انسانی المیات جنم لے رہے ہیں‘ ٹرمپ کو اگر قدرت نے موقع دیا ہے تو انہیں اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے ناکہ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کریں‘ بھارت میں مسلمانوں کی املاک نذر آتش کرنا‘ عبادت گاہوں کو مسمار کرنا‘ مذہبی، سیاسی و سماجی آزادی سے محروم رکھنا مودی سرکار کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ صلاح الدین مینگل نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ مودی حکومت اور بھارت کے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں بھارت ایک جنونی ہندو ریاست بن چکا ہے‘ حالیہ بجٹ میں بھارتی حکومت نے دفاعی اخراجات میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے جس سے نہ صرف جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کو تقویت ملے گی بلکہ خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں‘ پاکستان نے کبھی کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھے بلکہ ہمیشہ اپنے دفاع پر ہی توجہ مرکوز رکھی ہے‘ بھارت کا جنگی جنون اور طاقت کے نشے میں اس کا بڑھتا ہوا غرور جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو ہمہ وقت مستعد رکھے اور اپنے وسائل کو دانشمندانہ طریقے سے بروئے کار لائے۔