آج ہم بات کو پرومیتھین افکار سے شروع کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کے ارتقاء کے حوالے سے یہ مکتب بعض نکات بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
جدید پرومیتھین فکر کے مطابق، انسان مستقبل میں اپنی تخلیقِ نو خود کرے گا۔بایو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسان اپنی حیاتیاتی حدود سے آگے بڑھ کر ایک "نیا انسان” (Posthuman) بن جائے گا۔ اس کے مطابق جینیٹک انجینئرنگ، مصنوعی اعضا، اور ڈیجیٹل شعور (Artificial Consciousness) جیسے عوامل انسان کو ایک "سپرمین” (Superhuman) میں تبدیل کر سکتے ہیں۔کچھ فلسفیوں کے مطابق، انسان کا مستقبل مکمل طور پر مشینی ہو سکتا ہے، جہاں بائیولوجیکل باڈی کی ضرورت بھی نہ رہے۔یہ نظریہ انسانی پیدائش کو ایک جاری عمل (Ongoing Process) سمجھتا ہے، جو محض ایک حیاتیاتی عمل نہیں بلکہ ایک تخلیقی اور تکنیکی جہدوجہد کا نتیجہ ہے۔
حالیہ برق رفتار تبدیلیوں اور سائنسی انقلابات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دور میں انسان اور روبوٹ کا باہمی تعلق کئی اہم پہلوؤں سے تبدیل ہوگا جیسے بایو ٹیکنالوجی، جینیاتی انجینئرنگ اور نیورو سائنس کی ترقی سے انسان اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بڑھانے کے قابل ہوگا۔مشینی ادغام (Cyborgs)، مصنوعی اعضا، دماغی چپس، اور نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان اور مشین کا ملاپ ہوگا۔AI اور نیورل لنکس جیسے منصوبے انسانی دماغ اور مشینوں کے درمیان براہ راست رابطے کو ممکن بنا دیں گے، جس سے انسان کی یادداشت، سیکھنے کی صلاحیت اور فیصلہ سازی میں بے پناہ بہتری آئے گی۔
روبوٹ آٹومیشن بہت سی نوکریوں کو ختم کر دے گی، خاص طور پر مینوفیکچرنگ، ٹرانسپورٹ، اور کسٹمر سروس وغیرہ۔تاہم نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی، خاص طور پر AI اور روبوٹکس کے میدان میں۔AI سے چلنے والے روبوٹ جذباتی اور ذہنی طور پر زیادہ پیچیدہ ہوں گے، جس سے وہ دوست، ساتھی اور حتیٰ کہ شریک حیات کے طور پر بھی قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ اسے آپ ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی بے اعتباری سے بھی تعبیر کیجئے کہ ہر خطے میں آبادی کے اضافے کے مسائل کا سامنا کرنے والا انسان روبوٹ کی پیدائش میں مصروف ہے۔ ہمارے جدید لوگوں اور سائنسدانوں کے لیے موجودہ انسانی آبادی کی کھپت کا کوئی فارمولا تو وجود نہیں پا سکا سو ہم نے یہ زمین ایک نئی مخلوق کے نام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے روبوٹ انسانوں جیسے فیصلے لینے لگیں گے، نئے اخلاقی اور قانونی مسائل جنم لیں گے، جیسے روبوٹس کے حقوق، ان کے جرائم کی ذمہ داری اور مصنوعی ذہانت کی خود مختاری۔اگر مصنوعی ذہانت کو بے قابو چھوڑ دیا گیا، تو اس کے انسانی ذہانت سے برتر ہونے کے امکانات موجود ہیں، جس سے "Singularity” کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، یعنی AI خود مختار ہو کر اپنی مرضی سے فیصلے لینے لگے۔ ہم اس سے اچھی امید پیدا کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں سخت اخلاقی ضوابط اور قانونی ڈھانچوں کا قیام ضروری ہو گا۔جیسے کہ AI کی ترقی کو اخلاقی اور قانونی فریم ورک کے تحت رکھا گیا تو صرف اسی صورت میں روبوٹس انسانی زندگی کا قابل قبول حصہ بن سکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں کچھ انسانی معاشرے روبوٹس اور AI پر مکمل انحصار کرنے لگیں اور "AI-Driven Societies” وجود میں آئیں۔ یہ بات کہتے یا سوچتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے معاشرے انسانوں کے لیے قوانین کے بہتر قیام اور ان کے اطلاق میں ناکام رہے ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں انسان اور روبوٹ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ترقی کریں گے۔ تاہم، اگر روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کو بغیر کسی اخلاقی اور قانونی ضابطے کے ترقی دی گئی، تو اس کے خطرناک نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان اپنی اقدار کو مسلسل خطرات سے دو چار کر رہا ہے۔ اس مرحلے پر مجھے زمین پر روبوٹ بنانے والوں سے ہٹ کر آسمانوں میں دوسری مخلوق کی تلاش کے مشتاق کارل سیگاں یاد آ گئے۔ پتا نہیں کیوں کارل سیگاں جیسے جیسے کائنات کے اسرار و رموز کھوجتے جاتے تھے وہ اس زمین اور انسان سے محبت کی باتیں کیوں کرتے جاتے تھے۔ انھیں کائنات کی بلندیوں اور مہیب خلائی وسعتوں میں انسان جیسا ایک وجود بھی نہیں ملا تھا۔
کارل سیگاں (Carl Sagan) ایک معروف امریکی ماہر فلکیات، کاسمولوجسٹ، اور سائنسی کمیونیکیٹر کی حیثیت انسانیت، سائنسی جستجو اور کائنات میں انسان کے مقام کو موضوع بحث بنایا۔ انھوں نے انسان سے محبت کے حوالے سے کئی خوبصورت خیالات پیش کیے۔
سیگاں کا ماننا تھا کہ سائنسی علم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم سب ایک ہی کائناتی کہانی کے کردار ہیں۔ وہ اکثر اس بات پر زور دیتے کہ تمام انسان ایک ہی ستارے کی خاک سے بنے ہیں، اور ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی تقسیمات سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔
ان کی کتاب Pale Blue Dot میں وہ مشہور تصویر کا ذکر کرتے ہیں جو "وائجر” خلائی جہاز نے زمین کی کھینچی تھی۔ اس تصویر میں زمین ایک مدھم نیلا نقطہ دکھائی دیتی ہے، جس سے سیگاں نے نتیجہ اخذ کیا کہ:
"یہاں، اس نقطے پر، ہر وہ شخص بستا ہے جسے آپ جانتے ہیں، جس سے آپ محبت کرتے ہیں، ہر وہ انسان جس نے کبھی زندگی گزاری۔”
انھوں نے کہا کہ انسان کی نفرتیں، جنگیں اور طاقت کی خواہش سب اسی چھوٹے سے نقطے پر مرکوز ہیں، جو کائنات میں ایک ذرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے مطابق، یہی حقیقت ہمیں محبت، ہمدردی اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کا درس دیتی ہے۔
سیگاں کا ماننا تھا کہ علم اور محبت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی بقا چاہتے ہیں تو ہمیں سائنسی تحقیق کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا، اور علم کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ ہم ایک بہتر، محبت بھری دنیا تخلیق کر سکیں۔
سیگاں کے مطابق، اکثر لوگ لاعلمی کی وجہ سے ایک دوسرے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم سچ میں اپنی کائناتی حیثیت کو سمجھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ نفرت کے بجائے محبت ہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں آگے لے جا سکتا ہے۔
کارل سیگاں کا فلسفہ محبت، ہمدردی، اور اتحاد پر مبنی تھا۔ ان کا پیغام یہ تھا کہ ہم سب ایک ہی کائنات کے باشندے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے محبت اور عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، کیونکہ ہماری بقا اور ترقی اسی میں مضمر ہے۔ آخر میں جون ایلیا کا ایک شعر ملاحظہ ہو
داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کارل سیگاں اور قانونی ایک دوسرے کے مطابق سکتے ہیں کے ساتھ سکتا ہے
پڑھیں:
تکنیکی اور آپریشنل وجوہات: کراچی سے جانیوالی 3پروازیں منسوخ
(اقصیٰ شاہد)تکنیکی اور آپریشنل وجوہات کے باعث کراچی سے جانے والی 3پروازیں منسوخ ہوگئیں۔
منسوخ ہونے والی پروازوں میں کراچی سے لاہورجانے والی سیرین ایئر کی پرواز ای آر 524 اورکراچی سے اسلام آبادجانے والی سیرین ایئرکی پرواز ای آر 504شامل ہیں۔
کراچی سے جدہ جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 731 بھی منسوخ ہونے والی پروازوں میں شامل ہے ۔