Nai Baat:
2025-02-20@20:41:47 GMT

غزہ پر قبضہ یا تقسیم؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

غزہ پر قبضہ یا تقسیم؟

امریکہ میں فلسطین اور اہل فلسطین کے مقدر کے فیصلے لکھے جا رہے ہیں جبکہ مورخ لکھے گا جب یہ فیصلے لکھے جا رہے تھے تو کس اسلامی ملک میں کیا ہو رہا تھا۔ اس ملک کی حکمران اشرافیہ کیا سوچ رہی تھی اور اس کا طرزعمل کیا تھا۔ فلسطین پر اسرائیلی یلغار ایک سال دس ماہ تک جاری رہی۔ محتاط اندازے کے مطابق اس میں پچاس ہزار کے قریب مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں نے جام شہادت نوش کیا۔ تقریباً اتنے ہی معذور ہوئے۔ غزہ کا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ پورے غزہ میں کوئی ایک عمارت اپنے پائوں پر کھڑی نظر نہ آتی تھی۔ سب کچھ زمین بوس ہو گیا۔ سکول، ہسپتال، کیمپ سب کچھ وحشیانہ بمباری کی نذر ہو گیا۔ اس ہولناکی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا البتہ تصاویر اور ویڈیوز اس دہشت گردی کی کہانیاں سنا سکتی ہیں۔ ان قیامتوں کے گزر جانے کے باوجود فلسطینیوں نے محدود وسائل کے ساتھ ایک بہت بڑے دشمن کا مقابلہ کیا جسے امریکہ اور یورپ کی ہر قسم کی مدد حاصل تھی۔ جس میں جدید اسلحہ اور کئی ہزار ارب ڈالر کی امداد بھی شامل ہے۔ فلسطینیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اسرائیل انہیں برباد تو کر گیا لیکن انہیں فتح نہیں کر سکا۔ فلسطینیوں نے اپنے لہو سے میدان جنگ میں جو باب رقم کئے ہیں وہ یہی کر سکتے تھے۔ دیکھنا ہے ان کی جیتی ہوئی جنگ کو اب مذاکرات کی میز پر لڑنے والے کس طرح لڑتے ہیں اور ان کے لیے کیا حاصل کرتے ہیں یا سب کچھ کھو دیتے ہیں۔

ٹرمپ نے ایک حکمت عملی کے تحت کئی شاہ و گدا امریکہ طلب کر لئے ہیں۔ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں سب کو ایک ہی پیغام دیا جائے گا۔ وہی پیغام ٹرمپ نے میڈیا کی وساطت سے دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے کہ فلسطینی غزہ کو خالی کر دیں تمام مسلمانوں نے اس خیال کو رد کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ غزہ کو خرید لے گا۔ اس پر امریکہ کے علاوہ یورپ کے بعض ملکوں سے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور سوال اٹھایا گیا کہ امریکہ ایسا کیونکر کر سکتا ہے جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید ڈھٹائی سے جواب دیا یہ بالکل ہو سکتا ہے۔ تمام دنیا اسے بخوشی قبول کرے گی، ہم ملبہ ہٹائیں گے، تعمیر نو کریں گے۔ دنیا کی تمام سہولتیں اور خوبصورتی وہاں لائیں گے اور یہ سب کچھ نہایت آسانی سے ہو جائیگا۔ ٹرمپ یہ گفتگو کرتے ہوئے کسی مہذب ملک کے سربراہ کم اور ایک غنڈہ نما کاروباری شخص زیادہ نظر آئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی غزہ کو خالی کرنے کے بعد وہاں لوٹنے کا حق نہیں رکھیں گے۔
صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والی پہلی شخصیت اردن کے شاہ عبداللہ تھے جنہیں کہا گیا کہ اردن بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ملک میں بسائے۔ انہوں نے یہی فرمائش اس سے قبل مصر کے وزیرخارجہ سے بھی کی جنہوں نے امریکہ کا دورہ کیا، دونوں ملکوں کو امریکہ کی طرف سے کئی ارب ڈالر کی سالانہ امداد ملتی ہے جس کے سہارے ان کی معیشت چل رہی ہے۔

ٹرمپ نے شاہ عبداللہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں وہ خود ہی بولتے رہے۔ انہوں نے شاہ عبداللہ کو بولنے کا کم موقع دیا اور ابتدا میں ہی کہہ دیا کہ شاہ عبداللہ سے زیادہ تر امور پر اتفاق ہو گیا ہے لیکن اس پریس کانفرنس کے بعد ابھی مزید بات ہو گی۔ شاہ عبداللہ نے حالات اور موقعہ کی مناسبت سے محتاط گفتگو کی اور کہا انہیں عرب دنیا کی طرف سے مشترکہ تجاویز کا انتظار ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

ٹرمپ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ غزہ پر قبضہ کیسے کریں گے تو اسے جواب دیا گیا یو ایس کی اتھارٹی کے بل بوتے پر۔ اردن اور مصر کی دکھتی رگ امریکہ کے قبضے میں ہے۔ امریکہ دونوں ملکوں کی امداد بند کرکے انہیں عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔ یاد رہے اردن ایسا ملک ہے جہاں پہلے ہی قریباً تین ملین کے قریب فلسطینی آباد ہیں، انہیں 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران بے دخل کیا گیا تھا، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ٹرمپ آئندہ ایام میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور مصر کے عبدالفتح سیسی سے ملاقات کریں گے اور اپنی بات منوانے کی کوششیں کریں گے جسے پورا عالم اسلام رد کر چکا ہے۔ اس حوالے سے عرب ممالک سربراہی اجلاس 27 فروری کو ہو گا۔ فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہٹ دھرمی سے اپنے موقف پر قائم نظر آئے۔ ان کی گفتگو سے عیاں تھا کہ وہ یہودی لابی کو خوش کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایک موقع پر ان کے ساتھ بیٹھے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ وہ چاہیں گے فلسطینی غزہ کے علاقے میں آ اور جا سکیں۔ موجودہ حالات میں کوئی ان کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ اسے ایک چال قرار دیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی سے بہت پہلے ٹرمپ کے ایماء پر ہی دو ریاستی حل کا چرچا کیا گیا تھا لیکن آج ایک یکسر مختلف حل کیسے رکھ دیا گیا ہے جسے عرب دنیا ماننے کیلئے تیار نہیں، جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں حملے جاری رکھے جس کے بعد فلسطینیوں نے قیدیوں کی رہائی روک دی۔ ٹرمپ کو یہ بھی ناگوار گزرا لیکن اسے اسرائیلی جاری حملوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو دھمکی دے دی ہے کہ اگر ہفتے کی رات تک تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو پھر میں تمہیں دیکھ لوں گا اور قیامت ڈھا دوں گا۔ اسرائیل اپنے تمام تر وسائل کے باوجود حماس کو شکست نہیں دے سکا۔ ٹرمپ کو اس کا دکھ نظر آتا ہے۔ پس اب انہیں مذاکرات کے ذریعے غزہ سے نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ایک موقع پر ٹرمپ کی اس ظالمانہ گفتگو کو پاس بیٹھے ان کے سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو ریبو اور ٹرمپ ٹیم کے بعض ارکان شرمندہ شرمندہ نظر آئے۔ انہوں نے اپنے طور پر اس گفتگو کے زہر کو نکال کر مطلب بیان کرنے کی کوششیں کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑی خواہشوں میں سے ایک نوبل پرائز برائے امن ہے لیکن جس ظالمانہ طرزعمل سے وہ اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سابق صدر اوباما کو اس اعزاز کا حق دار نہیں سمجھتے بلکہ غزہ سے فلسطینیوں کو ہمیشہ کیلئے نکال کر اور اسرائیل کو اس کا غاصبانہ قبضہ دے کر اپنے آپ کو اس اعزاز کا مستحق ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھارتی وزیراعظم مودی کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں اور وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جو کشمیر پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے کئے گئے یعنی طاقت اور فسطائیت کے استعمال سے وہ فلسطینیوں کو ان کے دیرینہ حق سے محروم کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار نظر آتے ہیں۔ کچھ عجب نہیں وہ امت مسلمہ کو موت دکھا کر بخار پر راضی کر لیں یعنی آخر میں غزہ کی تقسیم اور دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنا دیا جائے۔ ایسا ہوا تو یہ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوگا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: فلسطینیوں نے شاہ عبداللہ انہوں نے کیا گیا کریں گے کے بعد لیکن ا ہو گیا سب کچھ

پڑھیں:

صدر ٹرمپ ایک بات بھول رہے ہیں

ہیرلڈ لیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ’’امیر تیمور نے دنیا کو درہم بر ہم کیا‘‘۔ صدر ٹرمپ کے بیانات نے اب تک دنیا کو درہم کم اور برہم زیادہ کیا ہے، خاص طور پر غزہ کو امریکی ملکیت میں لینے کے دعوے نے، جس نے بین الاقوامی اور عالمی سطح پر تنقید اور اعتراضات کے الائو بھڑکا دیے۔ وائٹ ہائوس اور اس کے ترجمان جن کی حدت اور شدت کو کم کرنے کے لیے آئے دن جنہیں نئے معانی پہنا رہے ہیں کہ ٹرمپ کے منصوبے کا مطلب غزہ پر امریکا کا قبضہ یا اس کی تعمیر نو نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے بدھ کے روز ایک پریس بریفنگ میں کہا: ’’صدر نے غزہ میں زمینی فوج بھیجنے کا وعدہ نہیں کیا… امریکا غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات برداشت نہیں کرے گا‘‘۔ ان کی یہ وضاحت اس لحاظ سے بے معنی، تضاد پر مبنی، بیکار اور فضول تھی کیونکہ صدر ٹرمپ نے اس سے پہلے منگل کے روز اپنے بیانات میں غزہ کو محفوظ بنانے میں مدد کے لیے امریکی فوج بھیجنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا تھا: ’’ہم وہ کریں گے جو ضروری ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم ایسا کریں گے‘‘۔

امریکی وزیر ِ خارجہ مارکو روبیو نے بدھ 5 فروری 2025 کو صدر ٹرمپ کے موقف کی شدت کو کم کرنے اور اس کا جواز پیش کرنے کے لیے کہا کہ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی کے بارے میں جو پیشکش کی ہے اس کا مقصد جارحانہ اقدام نہیں ہے، ان کی پیشکش اس علاقے سے ملبہ ہٹانے اور تباہی سے جگہ کو صاف کرنے میں مداخلت کرنے کی نمائندگی کرتی ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’غزہ کی تعمیر نو کے دوران لوگوں کو کہیں تو رہنا پڑے گا‘‘۔ جمعرات کے روز صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر اپنے وزیر خارجہ کے بیان کو دھواں دھواں کردیا کہ اسرائیل لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کی پٹی امریکا کے حوالے کر دے گا۔ جمعہ 7 فروری 2025 کو جاپانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا: ’’بنیادی طور پر امریکا اس معاملے کو ایک جائداد کی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھے گا، غزہ ہمارے لیے ایک جائداد کی ڈیل ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے، اور ہم کسی بھی قدم کو جلد بازی میں نہیں اٹھائیں گے‘‘۔

یوں دنوں میں نہیں گھنٹوں میں ٹرمپ انتظامیہ اور خود صدر ٹرمپ غزہ کے معاملے پر بیانات تبدیل کررہے ہیں جسے بہت سے مبصرین فیصلوں میں ہچکچاہٹ، تبدیلی اور نظر ثانی سے تعبیر کررہے ہیں، کچھ اسے دنیا کی توجہ منتشر کرنے اور دھیان ہٹانا قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ اس پورے معاملے کو محض ایک مفروضہ اور فرضی قصہ باور کررہے ہیں جس میں مضبوط حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی شخص کے فیصلوں میں شش و پنج اور ان میں سے بعض سے دستبرداری کو ہچکچاہٹ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہو گا جب اس کی پہلے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو، اور یہ امکانات اور توقعات سے باہر ہو، اور یہ بات امریکا جیسی ریاست سے بعید از امکان ہے جو اپنے منصوبے اور پروگرام، ملازمین، مفکرین اور پالیسی سازوں کی فوج کے ذریعے تیار کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ سے جبری انخلا کے لیے ماحول کو سازگار بنانا چاہتی ہے جسے خطے کے مسلم حکمران مسترد کر چکے ہیں، خاص طور پر مصر اور اردن۔ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ہچکچاہٹ ظاہر کرتے بیانات نبض جانچنے کا عمل ہیں کہ اگر ان دونوں ممالک کے عوام اس انخلا کے خلاف اپنی حکومتوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور مسلمانوں سے غداری کو روکنے کے لیے اپنے حکمرانوں کے مقابل آگئے تو کیا یہ مسلم حکمران اپنے لوگوں پر صدر ٹرمپ کے بیان پر عمل کرنے، انہیں ان کے ملکوں سے بے دخل اور خالی کرنے اور یہودیوں کو ضم کرنے یا اسے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق کسی اور وقت تک ملتوی کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں؟؟

صدر ٹرمپ انخلا کے منصوبے پر اس وقت عمل درآمدکا ارادہ رکھتے ہیں جب وہ اس پر عمل درآمدکو کم سے کم ضمنی نقصان کے ساتھ ممکن سمجھیں گے۔ وہ فی الحال تیاریوں میں مصروف ہیں اور تیاری کے عرصے تک تحمل کا مظاہرہ اور ہچکچاہٹ پر مبنی بیانات ان کی پالیسی کا حصہ ہیں، جیسا کہ ان کے اس بیان سے ظا ہر ہے کہ: ’’غزہ ہمارے لیے ایک جائداد کا سودا ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے اور ہم کوئی بھی قدم اٹھانے میں جلدی نہیں کریں گے‘‘۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے لیے صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ ان کے خوابوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ ایسا منصوبہ تو کوئی اسرائیلی وزیراعظم بھی سوچنے اور پیش کرنے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔ یہ منصوبہ ان کے توراتی خوابوں، فلسطین کے لوگوں کو بے دخل کرنے اور فلسطین کو یہودیوں کے لیے خاص کرنے کے منصوبوں سے ہم آہنگ ہے۔ اس منصوبے نے نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے لیے ایک نجات دہندہ کا کردار ادا کیا ہے۔ نیتن یاہو نے حماس سے امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو ٹرمپ سے ملاقات کے بعد تک ملتوی کر دیا تھا جو امریکا جانے سے پہلے شروع ہونے والے تھے۔ انہوں نے واشنگٹن جانے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے ان کی ایک شرط ہے کہ حماس اپنے رہنماؤں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے پر راضی ہو جائے۔ جب صدر ٹرمپ سے ان کی ملاقات ہوئی اور صدر ٹرمپ نے غزہ کو خالی کرانے کا اپنا حد سے گزرتا ہوا منصوبہ پیش کیا تو انہوں نے فوری طور پر وفد کو دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے لیے بھیج دیا اور اپنی شرط کو بھول گئے۔

صدر ٹرمپ کے غزہ انخلا کے منصوبے نے اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ کو بھی نیتن یا ہو کی حکومت میں رہنے پر قائل کرلیا جس نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیتن یاہو دوسرے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع نہیں کرتا تو وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ لہٰذا غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے، حماس کو ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کا ٹرمپ کا منصوبہ، نیتن یاہو اور سموٹریچ کے منصوبوں کو جنگ میں واپس جانے اور نیتن یاہو کی حکومت کو گرنے اور مقدمات میں جانے سے بچانے کے لیے ایک تحفہ اور راستہ ثابت ہوا ہے۔

نیتن یاہو کو جنگ میں جائے بغیر صدر ٹرمپ کے منصوبے سے تمام ممکنہ اہداف حاصل ہورہے ہیں۔ فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں انہوں نے صدر ٹرمپ کے خیال کو ایک عظیم خیال قرار دیا جو شروع میں کچھ لوگوں کو عجیب لگ رہا ہے لیکن بعد میں ممکن نظر آئے گا اور غزہ کے مسئلہ کا بنیادی حل تشکیل دے گا۔ اب وہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں یرغمالیوں کو بازیاب کرانے، جنگ کے خاتمے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے اور حماس کو منظر سے ہٹانے کے لیے انتظامات کرنا چاہتے ہیں، لیکن غزہ سے اہل غزہ کے انخلا کے منصوبے پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے غزہ کے لوگوں پر مزید سختی شروع کر دی گئی ہے، یہود انسانی امداد، خیموں اور موبائل گھروں کی ترسیل کی اجازت دینے میں تاخیر کررہے ہیں، اس کے علاوہ پانی، خوراک اور صحت سے متعلق معاملات کو بھی خراب کیا جارہا ہے، تاکہ غزہ میں رہنے اور زندگی گزارنے کا آپشن اگر ناممکن نہیں تو، مشکل ضرور ہو جائے اور اس کے مقابلے میں ایسی جگہوں پر ہجرت کا موقع فراہم کیا جائے جہاں زندگی کے قابل قبول حالات فراہم کیے جائیں۔ اس طرح ٹرمپ نے انخلا کے منصوبے کا اعلان کر کے اور معاہدہ ابراہیم میں واپسی اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور اگلے چار ہفتوں کے دوران مغربی کنارے میں توسیع کے بارے میں سوچنے کا وعدہ کر کے یہودیوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا مکمل ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن اس سارے کھیل میں ایک چیز فراموش کردی گئی ہے، سب سے زیادہ اہم اور کھیل پلٹ دینے والی، امت مسلمہ کی ثابت قدمی اور ان کا جذبہ جہاد۔ امت مسلمہ اپنے ذلیل حکمرانوں کی طرح امریکی ایجنٹ نہیں ہے۔ وہ اس منصوبے کو پاش پاش کرکے رکھ دے گی۔

متعلقہ مضامین

  • مریم نواز کے بعد علی امین گنڈاپور نے بھی لیپ ٹاپ تقسیم کرنا شروع کردیے
  • صدر ٹرمپ ایک بات بھول رہے ہیں
  • کندھ کوٹ: کیڈٹ کالج کرمپور میں مختلف مقابلہ جات میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کیڈٹس میں انعامات تقسیم کیے جارہے ہیں
  • میرپورخاص: میئر میونسپل کارپوریشن وچیف وارڈن سول ڈیفنس میرپورخاص عبدالرئوف غوری رضا کاروں میں یونیفارم تقسیم کرتے ہوئے
  • شیخ حسینہ کا بنگلہ دیش واپسی کا عزم؛ ‘اقتدار پر قبضہ کرنے والی حکومت کو جانا ہو گا’
  • چین نے ہمیشہ متعلقہ ممالک کے غیر قانونی قبضہ کیے گئے جزائر اور چٹانوں پر تعمیراتی سرگرمیوں کی مخالفت کی ہے،چینی وزارت خارجہ
  • تحریک انصاف میں ایک گروپ طاقتور گروپ کا مقصدپارٹی پر قبضہ کرنا ہے.شیرافضل مروت
  • غزہ پر قبضہ: امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے؟
  • چیمپئنز ٹرافی کیلیے کراچی میں موجود افغان کرکٹ ٹیم دو حصوں میں تقسیم
  • حیدرآباد ،لطیف آباد 11 نمبر پر ٹھیلہ مافیا نے پوری سڑک پر قبضہ کررکھا ہے