Nai Baat:
2025-02-19@05:55:29 GMT

افغان بیانیے کی حمایت افواج ِ پاکستان کی مخالفت ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

افغان بیانیے کی حمایت افواج ِ پاکستان کی مخالفت ہے

میں روزانہ ہزاروں لفظ لکھتا ہوں اور یقینا اس میں سیاسی تجزیہ سے لے کر افسانہ ٗ شاعری اور تنقیدی مضامین سب کچھ ہوتا ہے۔ بڑے سر کا درد بھی بڑا ہوتا ہے اور جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے اُس سے غلطی بھی اُتنی بڑی ہوتی ہے ۔ یقینا میرا کروڑوں روپے کا نقصان نہیں ہو سکتا کیونکہ میرے پاس کروڑوں روپے موجود ہی نہیں ۔فر د کی غلطی کا خمیاز اُسے اور اُس سے وابستہ لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن جب قوم کا لیڈر غلطی کرئے تو اُس کا حمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ جاتا ہے ۔عمران نیازی نے تیسرا خط بھی آرمی چیف کو لکھ دیا ہے لیکن میں جانتا ہو ں کیا وہ لکھیں گے جواب میں ۔لیکن عمران نیازی کے خطوط کا سلسلہ صرف آرمی چیف تک ہی محدود نہیں وہ عدلیہ کو بھی خط لکھ چکے ہیں اور ایک تازہ ترین خط مسٹر نیازی نے آئی ایم ایف کومبینہ انتخائی دھاندلی کے ثبوتوں کے ساتھ بھی ارسال کردیا ہے۔عمران نیازی کو جتنی ڈھیل ریاست نے دے رکھی ہے وہ شاید اُس کے ہاتھوں کوئی بڑی بربادی کروانا چاہتی ہے ۔ ایک شخص نے ریاست ِ پاکستان اوراُس کے ہر ادارے کو بدنام اورناکام کرنے کیلئے ہر وہ ممکن کام کیا جو اُس کی بساط میں تھا اور ہر وہ کام بھی کیا جو اُس کی بساط میں نہیں تھا جس کی وجہ سے آج وہ اڈیالہ میں بیٹھا اپنی زوجہ کا منتظر ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اُسے یہ رعایت بھی دیدی جائے ۔شیر افضل مروت کا وقت تحریک انصاف میں پورا ہو چکا اور اب اگر وہ اِس میں رہنے کی کوشش کرئے گا تو مزید خوار ہو گا ۔ بیرسٹر سیف کو بھی عہدہ سے فارغ کردیا گیا ہے لیکن اُس کے بارے میں صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ ’’ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے ۔‘‘ بیرسٹر سیف چلا گیا لیکن اسی عہد ہ پر عنقریب کوئی نیا ’’ بیرسٹر سیف ‘‘ براجماں ہو گا کہ عمران نیازی کی ذہنی حالت ٗ قوت ِ فیصلہ اور پاکستانی عوام کی معاشی حالت بالکل ایک جیسی ہے ۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے فتنہ الخوارج کی سوچ کو فرسودہ قراردے کر ایسی سوچ کو کبھی بھی مسلط نہ ہونے کا عہد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کا آئین ’’ ان الحکم الا للہ ‘‘ سے شروع ہو تاہے ٗ ہمیں اپنے مذہب اورروایات پر فخر ہے ٗ فتنہ الخواج کس شریعت کی بات کرتے ہیں؟ یہ اخبارات کے فرنٹ پیچ پر چھپا ہے جو یقینا سب کی نظر سے گزر ا ہے ۔ یقینا پاکستانیوں کی اکثریت اسی سوچ کے ساتھ کھڑی ہے اور اس کیلئے انہیں ماضی کے تلخ تجربات کا شدید احساس ہے ۔ خدا نہ کرے کہ ہم کبھی دوبارہ اُن حالات سے گزریں لیکن میرے سامنے پڑے اخبار کے بیک پیج پر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا چھپا بیان بھی پڑا ہے جس کے مطابق فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہو گا ٗ پاکستان اور افغانستان کو لڑانا امریکی ایجنڈا ہے ۔ بامعنی مذاکرات کیے جائیں ٗ حافظ نعیم الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں بدامنی کیلئے کسی صورت استعمال نہیں ہونی چاہیے ٗ وہ تو آئی ڈی پیز کے حوالے سے خیبر پختوانخوا میں کسی نئے تجربے کو آگ سے کھیلنے سے تعبیر کررہے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ یہی لوگ جنرل ضیاء الحق اورجنرل اختر عبد الرحمن کی قیادت میں افغانستان میں ہونے والے ہر ’’ عمل ‘‘ کو جائز قرار دے رہے تھے ۔ آرمی چیف اورامیر جماعت اسلامی دونوں ہی حافظِ قرآن ہیں اور دین ِاسلام کے بارے میں مکمل باخبر بھی ٗ تو ان حالات میں کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یا تو جماعت اسلامی فتنہ الخواج کے اسلام کو جائز سمجھتی ہے اور آرمی چیف اس سے واقف نہیں اور اگریہ بات غلط ہے تو پھر جماعت اسلامی حالتِ جنگ میں دشمن کے موقف کی حمایت کرکے ریاست پاکستان کو نہ صرف نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ یہ دشمن کی مدد اور اپنی فوج کے خلاف سازش کے مترادف ہے۔ یہ نہ تو ضیاء الحق کا دور ہے اور نہ ہی دنیا 80 ء کی دہائی میں سانس لے رہی ہے ۔ سو ہمیں اپنا بہت کچھ بدلنا ہو گا اور ہم نے نہ بدلا تو ہم ایسی عالمی تنہائی کا شکار ہوں گے جس کا تصور ہی انسانی عقل سے باہر ہے ۔

میں طویل عرصہ ایک بڑے اخبار کے ادارتی صفحہ اور کلر ایڈیشن کا انچار ج رہا ہوں جانتا ہوں کہ قلم کار اپنے لکھے کی پروف ریڈنگ خود نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کا ذہن الفاظ کو اُسی طرح پڑھ جاتا ہے جیسے اُس نے سوچا ہوتا ہے خواہ کمپوزنگ میں کچھ غلط ہی لکھا گیا ہو۔ 11 فروری کو میرا کالم جو ’’ 8 اپریل :استحکام اور انتقام کے بیانیوں کا دن ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ اُس میں اپریل کے بجائے مجھے فروری لکھنا تھا لیکن چونکہ پاکستان میں آخری ضمنی الیکشن 21 اپریل کو ہوا اور اُس میں میری بھرپور شرکت تھی بلکہ میں نے برادرم شعیب صدیقی کی فتح کی خبر پہلے ہی اپنے کالم میں دیدی تھی سو اپریل میرے ذہن سے نکلا ہی نہیں ۔ میں نے غلطی تسلیم کرنے میں کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا لیکن اگر ادارتی صفحات کے شہزادے بھی اُسے ایک نظر دیکھ لیتے تو یہ معمولی غلطی چھپنے کے بعد بڑی غلطی نہ بنتی بہرحال شکایت اسی کی لگتی ہے جو کا م کررہا ہو کیونکہ جو کام کرتا ہے اُس سے کام غلط بھی ہو جاتا ہے اورجو کچھ بھی نہیں کرتا اُس سے غلطی کا امکان بھی موجود نہیں ہوتا ۔

مجھے اُس تحریر کے حوالے سے صرف اس بات کا دکھ ہے کہ اول تو وہ 8 فروری کے حوالے سے تھا جو اب ایک سال بعد آئے گی دوسرا اُس میں عبد العلیم خان کی تقریر کے حوالے سے میں نے تفصیل سے لکھا تھا اور وہ 8 فروری کو عبد العلیم خان کی تقریر واقعی ایک ایسے پاکستانی کی تقریر تھی جو ہمیں مسقبل کے بہت سے رستے دکھا رہی تھی ۔ جس میں کوئی شکوہ شکایت نہیں تھی ٗ کام نہ کرنے اور کام کرنے والوں کا ذکر تھا اور عبد العلیم خان تو آدمی ہی مسقبل کا ہے وہ ماضی کو یاد ضرور رکھتا ہے تاکہ جو غلطیاں ماضی میں ہوئیں مستقبل میں نہ ہو سکیں البتہ اُسے اپنے مسقبل کے پروگرامز پر اثر انداز نہیں ہونے دیتا اور یہی عبد العلیم خان کی خوبی ہے جو اُسے دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی وہ حقیقی سیاست ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے ۔ کوئی انقلاب ابھی راوی کے کنارے پر نہیں روکا ہو ا جو لاہو ر میں داخل ہونے کیلئے مچل رہا ہو۔ ہمارے لوگوں کو ابھی فوری ریلیف کی ضرورت ہے اور اِس کیلئے موجودہ حکومت کی کارکردگی لائق تحسین نہیں تو تسلی بخش ضرور ہے ورنہ کم ظرفو ں نے تو اسے سری لنکا سمجھ لیا تھا ۔ ایک بات اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر لکھ دیتا ہوں کہ عمران نیازی کا لایا ہوا انقلاب اگر کبھی پوری شدت سے آ بھی گیا تو اُسے روکنے کیلئے ایک اے ایس آئی ٗ دو حوالدار اور دس پولیس والوں سے زیادہ کی نفری درکار نہیں ہو گی ۔سمجھ میں نہیں آ رہا جس کے پاس تنظیم اورکٹ مرنے والا سیاسی ورکر ہی نہیں ہے اُس سے ریاست اتنی خوفزدہ کیوں ہے ؟ شاید ریاست چلانیوالوں نے انقلاب خود نہیں پڑھ رکھا ورنہ یہ کھیل کب کاختم ہو چکا ہوتا ۔ ہمیں بس بڑے سر والوں کی غلطی سے بچنا ہے کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عبد العلیم خان جماعت اسلامی عمران نیازی کے حوالے سے ا رمی چیف نہیں ہو ہوتا ہے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان کا او آئی سی پر فلسطینی ریاست کیلئے سعودی اقدام کی حمایت پر زور

پاکستان کا او آئی سی پر فلسطینی ریاست کیلئے سعودی اقدام کی حمایت پر زور WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد/نیویارک(سب نیوز)نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پر زور دیا ہے کہ وہ پورے خطے میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ایک ناگزیر پیشگی شرط کے طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سعودی اقدام کی توثیق کرے۔

تفصیلات کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان او آئی سی کو اپنا ’بنیادی حلقہ‘ سمجھتا ہے اور فلسطین کا مسئلہ پاکستان اور مسلم دنیا دونوں کے لیے اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے اسرائیل کو مغربی کنارے کے الحاق سے روکنے اور فلسطین کو اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر تسلیم کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی کارروائی پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اسرائیلی انتہا پسندوں کے مغربی کنارے کو ضم کرنے کے منصوبوں کی مخالفت میں اپنی مشترکہ پوزیشن لینی چاہیے، ہمیں دو ریاستی حل حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کرنے چاہئیں۔‘
وزیر خارجہ نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ انسانی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور اس کے اگلے مراحل کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھنے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اسرائیل اور اس کے حامیوں کو غزہ میں جنگ کے دوبارہ آغاز سے روکنا چاہیے اور یو این آر ڈبلیو اے کے ضروری کردار کو برقرار رکھتے ہوئے غزہ کے لوگوں کے لیے مناسب انسانی امداد کو یقینی بنانا چاہیے۔‘ انہوں نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبوں کے خلاف بھی خبردار کیا۔

اسحاق ڈار نے او آئی سی پر زور دیا کہ وہ مغربی کنارے میں اسرائیلی تشدد کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرے، جہاں بستیوں کی تعمیر اور جبری نقل مکانی جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے ساتھ ہی، ہمیں مغربی کنارے میں اسرائیل کے تشدد اور نقل مکانی کی مہم کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔‘

لبنان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے فرانس اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا، لیکن جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’جنوبی لبنان میں اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائیاں معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور ان سے تنازع دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ ہے۔‘ انہوں نے لبنانی سرزمین سے اسرائیل کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا۔

فلسطین اور کشمیر کے درمیان مشابہت قائم کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اجاگر کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’خودارادیت کے اصول اور طاقت کے استعمال یا دھمکی کے ذریعے علاقے کا عدم حصول عالمی نظام کی بحالی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوجی موجودگی، آبادی کی تبدیلیوں اور کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سنگین ہے اور 9 لاکھ بھارتی قابض افواج کے ذریعہ یہاں کے عوام پر مسلسل ظلم و ستم جاری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’فلسطین میں اسرائیل کی طرح، بھارت کشمیریوں کو وحشیانہ طریقے سے دبانے اور مقبوضہ کشمیر کو مسلم اکثریت سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کے لیے بھارت بھر سے آباد کاروں کو لانا چاہتا ہے۔‘

نائب وزیر اعظم نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور کرنے کے بارے میں نئی ​​دہلی کے ’جارحانہ بیانات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کے خطرے سے بھی خبردار کیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات میں ایل او سی کو عبور کرنے اور آزاد کشمیر پر ’قبضہ کرنے‘ کی دھمکیاں شامل ہیں، جس کے باعث ایک اور پاک ۔ بھارت تنازع کے خطرے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔‘

افغانستان سے متعلق بات کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے افغان سرزمین سے سرگرم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سرحد پار حملوں پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے خدشات کو اجاگر کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں افغانستان میں [ٹی ٹی پی] کے محفوظ ٹھکانوں سے روزانہ حملوں کا سامنا ہے،‘ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ’تمام ضروری اقدامات‘ کرے گا۔

وزیر خارجہ نے پاکستان میں بعض افغان مہاجرین کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں کچھ افغان نے، جو غیر قانونی طور پر یا پناہ گزین کے طور پر موجود ہیں، بدقسمتی سے دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے، اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ انہیں ان کے ملک واپس بھیجے۔‘

ساتھ ہی اسحاق ڈار نے افغان عوام کی حمایت، انسانی امداد کی سہولت فراہم کرنے اور علاقائی اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کو عالمی نظام میں ضم کرنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے سمیت جامع حکمت عملی اپنائے۔

متعلقہ مضامین

  • بریگزٹ ایک غلطی تھی، مئیر لندن صادق خان
  • بین الاقومی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جسٹس نعیم اختر افغان 
  • پاکستان کا او آئی سی پر فلسطینی ریاست کیلئے سعودی اقدام کی حمایت پر زور
  • آرمی چیف کی کاوشیں، پاکستان کھپے اور عمرا ن نیازی
  • نیتن یاہو کی میزبانی ٹرمپ کی اسٹریٹجک غلطی
  • ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کی شدید مخالفت
  • مسلح افواج کے سربراہان قوم کو جواب دیں کہ اتنے زیادہ جوان کیوں شہید ہورہے ہیں؟ عمر ایوب
  • اسٹیڈیم تو بنا دیے اب ٹیم بھی بنا دیں
  • محمد سہیل نے تیز رفتار معاشی نمو کی مخالفت کردی
  • نسیم البحرپاکستان، سعودی عرب کی بحری افواج کے درمیان گہرے تعلقات کا عکاس ہیں، نواف بن سعید