ایگزیکٹو آرڈر جاری: ہر ملک پر اتنا ہی جوابی ٹیکس ہو گا جتنا وہ امریکی مصنوعات پر لگاتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک —
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ہر اس ملک کے لیے جوابی محصولات عائد کرنے کا پروگرام شروع کیا ہےجو امریکی درآمدات پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ امریکہ کے دوستوں اور دشمنوں پر اس تازہ ترین تجارتی اقدام کے متعلق وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس سے ملکی معیشت اور قومی سلامتی میں استحکام آئے گا۔
جوابی محصولات کے نفاذ پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے اوول آفس میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہم تجارت کے لیے یکساں اور منصفانہ میدان چاہتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ٹرمپ کی تجارتی اور اقتصادی ٹیم کی جانب سے باہمی محصولات اور تجارتی تعلقات کے جائزے کے بعد چند ہفتوں کے اندر جوابی محصولات کا اطلاق ہو جائے گا۔
ٹرمپ کے نامزد وزیر تجارت ہاورڈ لاٹنک نے بتایا کہ انتظامیہ جوابی محصولات کے دائرے میں آنے والے ہر ملک کا الگ الگ جائزہ لے گی اور یہ کارروائی یکم اپریل تک مکمل ہو جائے گی۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران روزمرہ اشیاء کی قیمتیں نیچے لانے کا وعدہ کیا تھا تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں مختصر مدت کے لیے قیمتیں اوپر جا سکتی ہیں لیکن محصولات لگانا بہت بہتر ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ انتطامیہ پہلے ان ممالک کا جائزہ لے گی جن کی امریکہ سے تجارت کا توازن غیرمعمولی طور پر ان کے حق میں ہے ،اور جو ممالک امریکی اشیاء پر بھاری محصولات لگاتے ہیں۔
عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ جو ملک امریکی درآمدات پر جتنا ٹیکس لگاتے ہیں، امریکہ بھی ان کی امریکہ میں آنے والی اشیاء پر اسی مناسبت سے محصول عائد کرے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ ان ملکوں کے تجارت سے متعلق تمام ضابطوں اور سبسیڈیز(مراعات) کا بھی جائزہ لے گا جو بیرونی منڈیوں میں امریکی مصنوعات کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
عہدے دارنے کہا کہ اگر امریکہ کے ساتھ تجارت کرنے والے ملک اپنے محصولات کم کرنا چاہتے ہیں تو صدر ٹرمپ بھی بخوشی انکے لیے اپنے محصولات کم کریں گے ، لیکن ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ کئی معاملات میں محصولات اور بہت اونچے محصولات مسئلے کا بڑا حصہ نہیں ہیں۔
عہدے دار کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے جوابی محصولات کے نہ ہونے کے باعث امریکہ کو بڑے پیمانے پر تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں شامل ایک ایسا ملک ہے جہاں امریکی مصنوعات پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے بھی جمعرات کو اپنی گفتگو میں اس کا ذکر کیا ہے۔اور جمعرات کو ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کی سہ پہر وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ 13 فروری 2025
ایک تجارتی ماہر اور امریکہ کی اکاؤنٹنگ کمپنی بی ڈی او انٹرنیشنل کے عہدے دار ڈیمان پائیک سمجھتے ہیں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ محصولات کی عالمی تنظیم (ورلڈ کسٹمز آرگنائزیشن) کے 186 ممبر ہیں اور ہر ایک کے ٹیکس کے ریٹ مختلف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی اشیاء کی تقریباً 5 ہزار مختلف وضاحتیں ہیں۔ اس لیے اگر 186 میں سے ہر ایک میں 5 ہزار چیزوں پر محصولات کا جائزہ لینا پڑے تو اس کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جینس پراجیکٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پاس محصولات لگانے کے لیے کئی قوانین موجود ہیں جن میں سے ایک 1974 کا ایکٹ ہے جس کا سیکشن 122 صدر کو چھ مہینوں کے لیے زیادہ سے زیادہ 15 فی صد ٹیکس عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اسی طرح 1930 کے ٹیرف ایکٹ کے سیکشن 338 میں کہا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی امریکی تجارت کو امتیازی سلوک کے باعث پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے۔ لیکن یہ قانون آج تک استعمال نہیں ہوا ہے۔ ٹرمپ، انٹرنیشنل ایمرجینسی اکنامک پاورز ایکٹ کا استعمال بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے چین پر ٹیکس عائد کیا اور کینیڈا اور میکسکو پر عائد کرنے کے بعد اسے معطل کر دیا۔
وائٹ ہاؤس کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ صدر اس کے علاوہ کئی اور اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔
(اس رپورٹ کی معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل جوابی محصولات کا کہنا ہے کہ نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس لگاتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
یوکرین جنگ پر خفیہ ڈیل؟ امریکہ، روس اور سعودی عرب کے مذاکرات، یورپ پریشان
ریاض: سعودی عرب میں امریکی اور روسی حکام کے درمیان یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں، تاہم یوکرین کو ان مذاکرات میں شامل نہیں کیا گیا۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جرمنی میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ یوکرین کو مذاکرات میں مدعو نہیں کیا گیا اور وہ روس سے کسی بھی بات چیت سے پہلے اپنے اسٹریٹیجک اتحادیوں سے مشورہ کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف سعودی عرب جائیں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ روسی وفد میں کون شامل ہوگا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالا، بارہا یوکرین جنگ کو جلد ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ لیکن یورپی ممالک اس خدشے میں مبتلا ہیں کہ انہیں کسی بھی امن معاہدے سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ روبینو نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے بات چیت کی، اور دونوں نے ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان ملاقات کی تیاری کے لیے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
دوسری جانب، امریکہ اور یوکرین قدرتی وسائل کے معاہدے پر بھی بات چیت کر رہے ہیں، جس کے تحت امریکہ یوکرین کے 50 فیصد قیمتی معدنی ذخائر پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ زیلنسکی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں یوکرین کے لیے مطلوبہ سیکیورٹی تحفظات شامل نہیں۔
روس کا مطالبہ ہے کہ یوکرین نیوٹرل ہو جائے اور کچھ علاقے روس کے حوالے کر دے جبکہ یوکرین کا مؤقف ہے کہ روس مکمل انخلا کرے اور نیٹو کی سیکیورٹی گارنٹی فراہم کی جائے۔
ماہرین کے مطابق، اگر یوکرین کو شامل کیے بغیر مذاکرات کیے گئے تو یہ مستقبل میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں اور یورپی ممالک کی ناراضی کا سبب بن سکتے ہیں۔