Jasarat News:
2025-02-20@20:47:37 GMT

شادیاں کیوں ناکام ہورہی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

شادیاں کیوں ناکام ہورہی ہیں؟

ایک خبر کے مطابق ملک میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران طلاق اور خلع کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ خبر کے مطابق یہ شرح 35 فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ چار سال کے دوران خلع کے مقدمات کی تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ ادارہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4 لاکھ ہوگئی ہے۔ کراچی میں 2020ء کے دوران فیملی کورٹس میں خلع کے 5 ہزار 800 مقدمات دائر ہوئے جبکہ 2024ء میں یہ تعداد 11 ہزار سے تجاوز کرگئی۔ ماہرین کے مطابق خلع اور طلاق کمزور خاندانی نظام کی عکاسی کرتی ہے۔ گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال ہے کہ طلاقوں اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات غیر ضروری خواہشات اور عدم برداشت کا نتیجہ ہیں۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 10 فروری 2025ء)

سیکولر اور لبرل دانش ور آئے دن اخبارات میں اس بات پر شور مچاتے رہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ زیادہ سے زیادہ مذہبی ہوتا چلاجارہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں مذہبی شعور کی سطح گرتی چلی جارہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو معاشرے میں طلاقوں اور خلع کے واقعات میں اضافہ نہ ہوتا۔ ہمارا بچپن 1970ء کی دہائی میں بسر ہوا ہے اور ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے اپنے بچپن میں کبھی سنا ہو کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے یا فلاں عورت نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں بھی طلاق اور خلع ’’قابل ِ ذکر‘‘ چیزیں نہیں تھیں مگر 2025ء تک آتے آتے ایسا لگ رہا ہے کہ شادی کا ادارہ ایک بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ ہزاروں شادیاں طلاقوں اور خلع پر منتج ہورہی ہیں اور لاکھوں شادیاں ایسی ہی جو ’’مجبوری‘‘ کے سبب چل رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے مذہبی شعور کا زوال ہے۔

ہمارے مذہب میں مرد خدا کی ذات اور عورت خدا کی صفت ِ رحمت کا مظہر ہے۔ چنانچہ مرد اور عورت کی شادی ہوتی ہے تو انسانی سطح پر ذات اور صفت رحمت کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جائز چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پاک ہے کہ خدا اگر اپنے سوا کسی کو سجدے کی اجازت دیتا تو بیوی شوہر کو سجدہ کرتی۔ ہندو ازم میں بھی شوہر یا پتی کو پرمیشور یا خدا کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں سے کتنے لوگوں کو ان باتوں کا شعور ہے؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے اچھا ہے۔ رسول اکرمؐ جب اس دنیا سے رخصت ہورہے تھے تو وہ مسلمانوں کو تلقین کررہے تھے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا اور اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو یا تو یہ باتیں معلوم ہی نہیں اور اگر ہیں تو انہوں نے ان باتوں کو اپنے لیے لائحہ عمل میں تبدیل نہیں کیا۔ چنانچہ شادیوں کی دھوم دھام بڑھ رہی ہے مگر ان کا حسن و جمال اور ان کی معنویت گھٹ رہی ہے۔ اوّل تو شادیاں چل ہی نہیں پارہیں اور کہیں چلتی ہوئی نظر آتی ہیں تو وہ چلنے سے زیادہ گھسٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اب نہ بیوی مرد کا سکون ہے اور نہ شوہر عورت کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ شادی کے ادارے نے دونوں کو ایک دوسرے کا حریف بلکہ ایک دوسرے کا دشمن بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ کبھی شادی کا ادارہ آسمان کا سورج تھا مگر اب وہ زمین کا ذرہ بھی نہیں ہے۔

مذہبی شعور کے بعد ہماری زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت محبت کی ہے۔ میر نے کہا ہے

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭٭
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭٭
دور بیٹھا غبارِ میر ان سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا

میر تقی میر کہہ رہے ہیں کہ یہ پوری کائنات محبت کا نتیجہ ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کی محبت کے سبب ’’عدم‘‘ کے ’’اندھیرے‘‘ سے ’’وجود‘‘ کی روشنی پیدا فرمائی۔ یعنی یہ صرف محبت ہے جو اندھیرے سے روشنی برآمد کرکے دکھا سکتی ہے۔ یہ کام نہ عقل کرسکتی ہے، نہ علم کرسکتا ہے، نہ دولت کرسکتی ہے، نہ کوئی اور طاقت کرسکتی ہے، یہ کام صرف محبت کرسکتی ہے۔ میر نے دوسرے شعر میں کہا ہے کہ محبت ہی ہر چیز کا سبب اور وہی سبب پیدا کرنے والی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت ہمیشہ معجزے رونما کرکے دکھاتی ہے۔ میر نے تیسرے شعر میں بھی عجیب بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے، اس کا خاندانی پس منظر مختلف ہوتا ہے، اس کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے، اس کی نفسیات مختلف ہوتی ہے، اس کی سماجیات مختلف ہوتی ہے، اس کی معاشیات مختلف ہوتی ہے مگر جب آپ کو کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو یہ تمام ’’اختلافات‘‘ یہ تمام ’’امتیازات‘‘ بے معنی ہوجاتے ہیں۔ پھر انسان کے لیے دوسرا فرد صرف فرد کی حیثیت سے اہم ہوجاتا ہے اور محبت اسے محبوب کا ’’طواف‘‘ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ انسان ’’انا پرستی‘‘ کا شکار ہو کر اپنی اور دوسرے کی زندگی برباد کردیتا ہے مگر محبت انا کی عمارت کو مسمار کردیتی ہے۔ جس دل میں محبت آجاتی ہے اس دل میں پھر ’’انا‘‘ یا ’’دنیا‘‘ کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ سلیم احمد کے دو شعر یاد آئے۔

محبت ہی بنادیتی ہے مشتِ خاک کو انساں
قوامِ آب و گِل سے بھی کہیں انسان بنتے ہیں
٭٭
جس نے تجھے دکھ سہنے کی توفیق نہیں دی
وہ اور کوئی شے ہے محبت تو نہیں ہے

سلیم احمد کہہ رہے ہیں کہ یہ صرف محبت ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ ورنہ محبت کے بغیر تو انسان صرف مٹی اور پانی کا آمیزہ ہے اور مٹی اور پانی کے آمیزے سے انسان انسان نہیں بنتے۔ دوسری بات سلیم احمد نے یہ کہا ہے کہ محبت دکھ کو سہنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ زندگی صرف ’’مسرت‘‘ کا نام نہیں اس میں دکھ بھی ہوتے ہیں لیکن جو محبت دکھ کو جذب نہیں کرتی اسے برداشت کرنا نہیں سکھاتی وہ محبت نہیں ہے محبت کا دھوکا ہے۔ یہاں تک آتے آتے رئیس فروغ کا بے مثال شعر یاد آگیا۔ رئیس فروغ نے کہا ہے۔

عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے

محبت اور عشق کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کو محبوب کی ذات میں فنا کردیتے ہیں۔ عاشق کے لیے محبوب سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہوتا خود اس کی اپنی ذات بھی نہیں۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے فلموں اور ڈراموں نے عشق و محبت کو زندگی کا سب سے بڑا موضوع بنادیا ہے۔ مگر ہماری فلموں اور ڈراموں میں زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ’’پکنک‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن زندگی اونچ نیچ، غموں اور دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن ہماری فلمیں اور ہمارے ڈرامے محبت کو ایک ’’عیاشی‘‘ اور کبھی نہ ختم ہونے والا خواب بنا کر پیش کررہے ہیں۔ چنانچہ نوجوان نسل میں ’’رومانس پرستی‘‘ بڑھ رہی ہے۔ اور ان میں دوسرے سے محبت کرنے کی صلاحیت گھٹتے گھٹتے صفر تک آگئی ہے۔ چنانچہ شادیاں ناکام ہورہی ہیں۔ طلاقوں اور خلع کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔

بلاشبہ ہمارے معاشرے میں مذہب کا غلغلہ برپا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی عظیم اکثریت کا مذہب اسلام نہیں ’’دولت‘‘ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ شادی کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کا خاندان دیکھا جاتا تھا، شرافت اور نجابت کی تحقیق کی جاتی تھی، مگر اب صرف دولت یا Status دیکھا جاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے ڈیڑھ سو سال پہلے شکایت کی تھی۔

نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے

ہمارے زمانے تک آتے آتے شادیاں تنخواہوں سے بھی ہونے لگی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شادی دولت اور تنخواہ سے ہوگی اس کی پشت پر نہ مذہب ہوگا، نہ محبت ہوگی۔ چنانچہ وہ شادی سو فی صد ناکام ہوگی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: طلاقوں اور خلع تک ا تے ا تے کرسکتی ہے سے زیادہ کے مطابق ہوتا ہے ہوتی ہے رہی ہیں رہی ہے خلع کے کہا ہے ہے مگر ہے اور

پڑھیں:

ایران کے بغیر خطے کی سیاست آگے بڑھانے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے، سید عباس عراقچی

وزارت خارجہ میں سیاسی اور بین الاقوامی مطالعات کے مرکز میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہ پائیدار سلامتی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ سب ایک دوسرے کی سلامتی کا خیال رکھیں، خلیج فارس میں سیکیورٹی ایک مربوط تصور ہے اور اس سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے، ورنہ کسی کے لیے کوئی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے خلیج فارس میں آٹھویں ایرانی خارجہ پالیسی کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو خطے کی سیاست سے خارج کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ خلیج فارس ہمیشہ سے دنیا کی اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک رہا ہے اور اس کی تزویراتی اہمیت ہے، یہ سمندری علاقہ اپنے تمام اتار چڑھاؤ کے باوجود بامعنی تسلسل،اپنی مرکزیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یقیناً خلیج فارس نے متعدد تجاوزات اور مداخلت کا بھی مشاہدہ کیا ہے، استعمار طاقتوں کا بے حد و حساب لالچ خلیج فارس کو محفوظ بنانے کا باعث بنا ہے اور اب یہ خطہ انتہائی محفوظ ہو چکا ہے۔

سید عباس عراقچی نے علاقے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں ایران کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے زیادہ سے زیادہ مقامی طور پر سلامتی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی کو اپنے ایجنڈے میں رکھا ہے، جس کی وجہ سے خلیج فارس میں جہاز رانی کا عمل محفوظ ہے، تہران کی اصولی پالیسیوں کے باوجود بعض طاقتوں نے خلیج فارس کو بحرانوں اور تنازعات کا مرکز بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، عالمی طاقتوں کی طرف سے کئی دہائیوں تک پرامن بقائے باہمی کی فضا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، لیکن کوئی ایسی چیز کامیاب نہیں ہو سکی۔

انہوں نے واضح کیا کہ آج نہ صرف ایران کو علاقائی معاملات و انتظامات سے خارج کرنے کی پالیسی ناکام ہوئی ہے، بلکہ ایران کی فعال ہمسایہ محور سفارت کاری اور خارجہ پالیسی سے خلیج فارس ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے خطے کے ممالک کے درمیان موجودہ اتفاق رائے کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ پائیدار سلامتی کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں کہ سب ایک دوسرے کی سلامتی کا خیال رکھیں، خلیج فارس میں سیکیورٹی ایک مربوط تصور ہے اور اس سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے، ورنہ کسی کے لیے کوئی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ خلیج فارس میں پیدا والے نئے حالات میں ہم ایک محفوظ تر خلیج فارس دیکھیں گے، ہم پانیوں کی اہمیت کو اولیت دیتے ہوئے قومی مقاصد کو خطے ممالک کیساتھ سازگار تعلقات کی بنا پر حاصل کرنیکی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ساحلی اور سرحدی علاقوں کے لئے کامیاب سفارتی نظام کار پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران، راہداریوں کی اہمیت سے واقف ہے، ایران شمالی-جنوب کوریڈور اور خلیج فارس-بلیک سی کوریڈور کو حتمی شکل دینے کے لیے سرگرم عمل ہے، چابہار صرف ایران اور ہندوستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ ایران اور بحرہند کے تمام ممالک کے درمیان بھی ایک اہم موضوع ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ چابہار کی ترقی کا راستہ جاری رہے گا اور ایران چابہار کو خطے کی ایک شاندار بندرگاہ میں تبدیل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ بیرونی روابط کی تاریخ میں خلیج فارس اور ایرانی خارجہ پالیسی کے موضوع پر آٹھویں کانفرنس میں وزارت خارجہ میں سیاسی اور بین الاقوامی مطالعات کے مرکز کے سربراہ سعید خطاب زادہ اور سید عباس عراقچی نے خطاب کیا۔ ابتدا میں سعید خطاب زادہ نے کہا کہ خلیج فارس انسانی معاشرے جتنی وسعت کا حامل ایک سمندر ہے، قدیم زمانے سے لے کر آج تک تاریخ نویسوں اور سفر ناموں کے مصنفین کے آثار میں خلیج فارس کے تذکرے سے ہمیں اس کے تاریخی وجود کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم ہوئی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سچائی: دنیا و آخرت میں کام یابی کی کلید
  • کیا ملک میں اقتصادی ترقی ہورہی ہے؟
  • حقیقی محبت کا مقام، عرشِ رحمان کے سائے تلے
  • پورٹ قاسم انتظامیہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان بنانے میں ناکام
  • شاہین آفریدی نے بیٹے کی تصویر شیئر کردی
  • کوئٹہ، سید الشہداء ویلفئیر سوسائٹی کیجانب سے چوتھی اجتماعی شادیاں منعقد
  • صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ کے قسط وار ناکام منصوبے
  • صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ قسط وار ناکام منصوبے
  • ایران کے بغیر خطے کی سیاست آگے بڑھانے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے، سید عباس عراقچی
  • تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان