شادیاں کیوں ناکام ہورہی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
ایک خبر کے مطابق ملک میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران طلاق اور خلع کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ خبر کے مطابق یہ شرح 35 فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ چار سال کے دوران خلع کے مقدمات کی تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ ادارہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4 لاکھ ہوگئی ہے۔ کراچی میں 2020ء کے دوران فیملی کورٹس میں خلع کے 5 ہزار 800 مقدمات دائر ہوئے جبکہ 2024ء میں یہ تعداد 11 ہزار سے تجاوز کرگئی۔ ماہرین کے مطابق خلع اور طلاق کمزور خاندانی نظام کی عکاسی کرتی ہے۔ گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال ہے کہ طلاقوں اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات غیر ضروری خواہشات اور عدم برداشت کا نتیجہ ہیں۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 10 فروری 2025ء)
سیکولر اور لبرل دانش ور آئے دن اخبارات میں اس بات پر شور مچاتے رہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ زیادہ سے زیادہ مذہبی ہوتا چلاجارہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں مذہبی شعور کی سطح گرتی چلی جارہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو معاشرے میں طلاقوں اور خلع کے واقعات میں اضافہ نہ ہوتا۔ ہمارا بچپن 1970ء کی دہائی میں بسر ہوا ہے اور ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے اپنے بچپن میں کبھی سنا ہو کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے یا فلاں عورت نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں بھی طلاق اور خلع ’’قابل ِ ذکر‘‘ چیزیں نہیں تھیں مگر 2025ء تک آتے آتے ایسا لگ رہا ہے کہ شادی کا ادارہ ایک بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ ہزاروں شادیاں طلاقوں اور خلع پر منتج ہورہی ہیں اور لاکھوں شادیاں ایسی ہی جو ’’مجبوری‘‘ کے سبب چل رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے مذہبی شعور کا زوال ہے۔
ہمارے مذہب میں مرد خدا کی ذات اور عورت خدا کی صفت ِ رحمت کا مظہر ہے۔ چنانچہ مرد اور عورت کی شادی ہوتی ہے تو انسانی سطح پر ذات اور صفت رحمت کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جائز چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پاک ہے کہ خدا اگر اپنے سوا کسی کو سجدے کی اجازت دیتا تو بیوی شوہر کو سجدہ کرتی۔ ہندو ازم میں بھی شوہر یا پتی کو پرمیشور یا خدا کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں سے کتنے لوگوں کو ان باتوں کا شعور ہے؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے اچھا ہے۔ رسول اکرمؐ جب اس دنیا سے رخصت ہورہے تھے تو وہ مسلمانوں کو تلقین کررہے تھے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا اور اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو یا تو یہ باتیں معلوم ہی نہیں اور اگر ہیں تو انہوں نے ان باتوں کو اپنے لیے لائحہ عمل میں تبدیل نہیں کیا۔ چنانچہ شادیوں کی دھوم دھام بڑھ رہی ہے مگر ان کا حسن و جمال اور ان کی معنویت گھٹ رہی ہے۔ اوّل تو شادیاں چل ہی نہیں پارہیں اور کہیں چلتی ہوئی نظر آتی ہیں تو وہ چلنے سے زیادہ گھسٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اب نہ بیوی مرد کا سکون ہے اور نہ شوہر عورت کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ شادی کے ادارے نے دونوں کو ایک دوسرے کا حریف بلکہ ایک دوسرے کا دشمن بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ کبھی شادی کا ادارہ آسمان کا سورج تھا مگر اب وہ زمین کا ذرہ بھی نہیں ہے۔
مذہبی شعور کے بعد ہماری زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت محبت کی ہے۔ میر نے کہا ہے
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭٭
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭٭
دور بیٹھا غبارِ میر ان سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر کہہ رہے ہیں کہ یہ پوری کائنات محبت کا نتیجہ ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کی محبت کے سبب ’’عدم‘‘ کے ’’اندھیرے‘‘ سے ’’وجود‘‘ کی روشنی پیدا فرمائی۔ یعنی یہ صرف محبت ہے جو اندھیرے سے روشنی برآمد کرکے دکھا سکتی ہے۔ یہ کام نہ عقل کرسکتی ہے، نہ علم کرسکتا ہے، نہ دولت کرسکتی ہے، نہ کوئی اور طاقت کرسکتی ہے، یہ کام صرف محبت کرسکتی ہے۔ میر نے دوسرے شعر میں کہا ہے کہ محبت ہی ہر چیز کا سبب اور وہی سبب پیدا کرنے والی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت ہمیشہ معجزے رونما کرکے دکھاتی ہے۔ میر نے تیسرے شعر میں بھی عجیب بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے، اس کا خاندانی پس منظر مختلف ہوتا ہے، اس کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے، اس کی نفسیات مختلف ہوتی ہے، اس کی سماجیات مختلف ہوتی ہے، اس کی معاشیات مختلف ہوتی ہے مگر جب آپ کو کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو یہ تمام ’’اختلافات‘‘ یہ تمام ’’امتیازات‘‘ بے معنی ہوجاتے ہیں۔ پھر انسان کے لیے دوسرا فرد صرف فرد کی حیثیت سے اہم ہوجاتا ہے اور محبت اسے محبوب کا ’’طواف‘‘ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ انسان ’’انا پرستی‘‘ کا شکار ہو کر اپنی اور دوسرے کی زندگی برباد کردیتا ہے مگر محبت انا کی عمارت کو مسمار کردیتی ہے۔ جس دل میں محبت آجاتی ہے اس دل میں پھر ’’انا‘‘ یا ’’دنیا‘‘ کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ سلیم احمد کے دو شعر یاد آئے۔
محبت ہی بنادیتی ہے مشتِ خاک کو انساں
قوامِ آب و گِل سے بھی کہیں انسان بنتے ہیں
٭٭
جس نے تجھے دکھ سہنے کی توفیق نہیں دی
وہ اور کوئی شے ہے محبت تو نہیں ہے
سلیم احمد کہہ رہے ہیں کہ یہ صرف محبت ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ ورنہ محبت کے بغیر تو انسان صرف مٹی اور پانی کا آمیزہ ہے اور مٹی اور پانی کے آمیزے سے انسان انسان نہیں بنتے۔ دوسری بات سلیم احمد نے یہ کہا ہے کہ محبت دکھ کو سہنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ زندگی صرف ’’مسرت‘‘ کا نام نہیں اس میں دکھ بھی ہوتے ہیں لیکن جو محبت دکھ کو جذب نہیں کرتی اسے برداشت کرنا نہیں سکھاتی وہ محبت نہیں ہے محبت کا دھوکا ہے۔ یہاں تک آتے آتے رئیس فروغ کا بے مثال شعر یاد آگیا۔ رئیس فروغ نے کہا ہے۔
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
محبت اور عشق کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کو محبوب کی ذات میں فنا کردیتے ہیں۔ عاشق کے لیے محبوب سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہوتا خود اس کی اپنی ذات بھی نہیں۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے فلموں اور ڈراموں نے عشق و محبت کو زندگی کا سب سے بڑا موضوع بنادیا ہے۔ مگر ہماری فلموں اور ڈراموں میں زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ’’پکنک‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن زندگی اونچ نیچ، غموں اور دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن ہماری فلمیں اور ہمارے ڈرامے محبت کو ایک ’’عیاشی‘‘ اور کبھی نہ ختم ہونے والا خواب بنا کر پیش کررہے ہیں۔ چنانچہ نوجوان نسل میں ’’رومانس پرستی‘‘ بڑھ رہی ہے۔ اور ان میں دوسرے سے محبت کرنے کی صلاحیت گھٹتے گھٹتے صفر تک آگئی ہے۔ چنانچہ شادیاں ناکام ہورہی ہیں۔ طلاقوں اور خلع کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
بلاشبہ ہمارے معاشرے میں مذہب کا غلغلہ برپا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی عظیم اکثریت کا مذہب اسلام نہیں ’’دولت‘‘ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ شادی کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کا خاندان دیکھا جاتا تھا، شرافت اور نجابت کی تحقیق کی جاتی تھی، مگر اب صرف دولت یا Status دیکھا جاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے ڈیڑھ سو سال پہلے شکایت کی تھی۔
نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
ہمارے زمانے تک آتے آتے شادیاں تنخواہوں سے بھی ہونے لگی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شادی دولت اور تنخواہ سے ہوگی اس کی پشت پر نہ مذہب ہوگا، نہ محبت ہوگی۔ چنانچہ وہ شادی سو فی صد ناکام ہوگی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طلاقوں اور خلع تک ا تے ا تے کرسکتی ہے سے زیادہ کے مطابق ہوتا ہے ہوتی ہے رہی ہیں رہی ہے خلع کے کہا ہے ہے مگر ہے اور
پڑھیں:
امریکی خاتون کو محبت میں دھوکا دینے والا لڑکا منظر عام پر آگیا، حیران کن انکشافات
محبت میں اندھی ہوکر کراچی پہنچنے والی خاتون کو مبینہ طور پر دھوکا دینے والا لڑکا منظر عام پر آگیا ہے، جن نے حیران کن انکشافات کیے ہیں۔
ندال عمر نے ایک انٹرویو میں کہاکہ میں بھی امریکی خاتون اونیجا سے رابطے میں ہوں، ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور جلد آپ ہم دونوں کو ایک پراجیکٹ میں ساتھ دیکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں ’ہم لُٹ گئے تیری محبت میں‘، پاکستان آنیوالی امریکی خاتون نامراد وطن لوٹ گئی
انہوں نے کہاکہ اونیجا کی پاکستان آمد کے موقع پر میری فیملی کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں اور ہم نے ایک ساتھ خریداری بھی کی۔
ندال عمر نے کہاکہ رشتوں میں اتار چڑھاؤ آ جاتا ہے، اور پھر سب کچھ ٹھیک بھی ہو جاتا ہے، جلد آپ ہم دونوں کو ایک پراجیکٹ میں ساتھ دیکھیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اونیجا کا کوئی ایک بیان بھی ایسا نہیں جس میں اس نے میرے ساتھ قطع تعلقی کی بات کی ہو، یہ سب کچھ میڈیا نے پھیلایا۔
انہوں نے مزید کہاکہ امریکی خاتون سے لمبے عرصے سے رابطہ تھا، لیکن شادی یا منگنی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں تھی۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل امریکا سے تعلق رکھنے والی خاتون اونیجا کراچی کے نوجوان کی محبت میں پاکستان پہنچ آئی تھی، لیکن لڑکا غائب ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں ’5 ہزار ڈالرز دیں تو بات کروں گی‘، شادی کے لیے پاکستان آنے والی امریکی خاتون کا انوکھا مطالبہ
خاتون نے محبت میں دھوکا ہونے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے واپس جانے سے انکار کردیا تھا، تاہم بالآخر اب وہ دبئی سے ہوتے ہوئے واپس امریکا پہنچ گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی خاتون انٹرویو اونیجا دھوکا سنسنی خیز انکشافات محبت ندال عمر وی نیوز