بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
بحر الکاہل کو دنیا کا سب سے بڑا سمندری خطہ سمجھا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے آج تک یہ خطہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بحر الکاہل جس میں شنگھائی اور سنگاپور کے علاوہ ٹوکیو، یوکوہاما، لاس اینجلس اور بوسان جیسی اہم ترین تجارتی بندرگاہیں شامل ہیں۔ ان بندرگاہوں کے علاوہ شپنگ روٹس جن میں ٹرانس پیسیفک روٹ شامل ہے ایشیا کے اہم ترین ممالک جاپان، چین اور کوریا کو امریکا سے جوڑتا ہے۔ مزید برآں آبنائے ملا کا، پاناما کینال (بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان مختصر ترین راستہ) کے علاوہ آسٹریلیا۔ چین شپنگ روٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بندرگاہیں اور روٹس عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور بحر الکاہل کو دنیا کاسب سے اہم سمندری خطہ بناتے ہیں۔ بحر الکاہل کی تجارتی اور جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر اس سمندری خطے کو ہر دور میں ناصرف تجارتی بلکہ تزویراتی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل رہی ہے اور آج بھی یہ عالمی طاقتوں کے درمیان وسائل اور مفادات کی کشمکش کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں نہ صرف جاپان اور چین شامل ہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور بھارت بھی اس خطے پر بالادستی کی جنگ میں براہ راست شریک ہیں۔
بحر الکاہل کے اسٹیک ہولڈرز میں ایک اہم ملک جاپان بھی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد، ایک امن پسند قوم کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اپنی دفاعی پالیسیوں کو بہت محدود رکھا۔ جاپانی آئین کا آرٹیکل 9 چونکہ واضح طور پر جنگ مخالف اور کسی بھی قسم کی جارحیت میں حصہ نہ لینے کا عہد کرتا ہے لہٰذا جاپان نے اس کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ معاشی ترقی اور سفارتی تعلقات پر مرکوز رکھی تاہم، سرد جنگ اور اس کے بعد بحر الکاہل میں سیکورٹی کے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے جنوبی بحیرہ چین میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور شمالی کوریا کی جوہری پالیسی کو جاپان نے اپنی سمندری سیکورٹی کے حوالے سے نئے چیلنج کے طور پر دیکھا اور بدلتے ہوئے ماحول میں جاپان کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اپنی بحری حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے۔
چین نے جو گزشتہ چند دہائیوں میں ایک بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھرا ہے، بحر جنوبی چین اور دیگر سمندری علاقوں میں اپنی موجودگی کو وسعت دی ہے، اس ضمن میں چین کے متعدد اقدامات کو جاپان اور دیگر علاقائی طاقتوں نے ایک چیلنج کے طور لینا شروع کردیا جن میں چین کی جانب سے اپنی بحری فوج کی تعداد اور استعداد میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چین ان اقدامات کو ساؤتھ چائنا سی میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل حرکت کے جواب اور اپنے دفاع کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ دوطرفہ تزویراتی اقدامات نے خطے میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا جس کی آنچ دونوں جانب محسوس کی گئی۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جاپان کا مؤقف مسائل کے سفارتی حل، قانونی فریم ورک، اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری پر مبنی رہا ہے۔ جاپان کا بیانیہ ہے کہ خطے کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ممالک کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق متنازع امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان یہ موقف بھی پیش کرتا ہے کہ امن کے لیے خطے میں موجود چھوٹے ممالک کو سمندری حقوق کے تحفظ کے لیے مدد فراہم کی جائے جس کے لیے علاقائی تعاون کے مضبوط پلیٹ فارمز قائم کرنے ضروری ہیں۔ جاپان کے مطابق خطے میں فلپائن، ملائیشیا، ویتنام، برونائی اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے مفادات کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ (واضح رہے کہ ساؤتھ چائنا سی میں ایک اصطلاح نائن ڈیش لائن ہے جس سے مراد 900 کلومیٹر پر محیط ایک سمندری علاقہ ہے جس کی ملکیت پر مزکورہ ممالک اور چین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور چین اس پورے علاقے کو اپنی سمندری حدود کا حصہ بتاتا ہے)
دوسری جانب چین کی رائے میں بات اتنی سادہ نہیں جتنا اسے بیان کیا جاتا ہے۔ چین کے مطابق بحر الکاہل میں مسائل کی سب سے بڑی وجہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل وحرکت ہے۔ جاپان کی جانب سے پیش کردہ ’’فری اینڈ اوپن انڈو پیسیفک‘‘ (FOIP) کے تصور کو چین اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے طور پر لیتا ہے اور ساؤتھ چائنا سی میں اسے اپنی خودمختاری کے خلاف ایک بڑا چیلنج تصور کرتا ہے۔ خصوصاً کواڈ معاہدہ جس میں امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں چین کی حساسیت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ جبکہ جاپان کے مطابق انڈو پیسیفک تجارتی نظام کو آزاد اور منصفانہ بنانے کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی تجارتی اصولوں اور سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق اس کی حکمت عملی کسی خاص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی استحکام اور ترقی کے اصولوں پر مبنی ہے چنانچہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنازعات کو سفارت کاری کے ذریعے حل کریں، عالمی قوانین کا احترام کریں، اور ترقی اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ بحر الکاہل میں چین کی بے چینی کی دوسری بڑی وجہ جاپان کا امریکا کے ساتھ دفاعی اتحاد بتایا جاتا ہے جس کے تحت بحرالکاہل میں تعینات 55 ہزار امریکی فوجی جاپان کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ چونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جاپان نے اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر انحصار کیا، چنانچہ اس اتحاد کے تحت امریکا نے بحر الکاہل میں فوجی اڈے بنائے ہیں، اور چین یہاں جاپان اور امریکا کی مشترکہ بحری مشقوں کو دفاعی زاویے سے دیکھتا ہے۔ جبکہ جاپان امریکا کے ساتھ اتحاد کو اپنے دفاع اور خطے میں سیکورٹی بیلنس کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری بتاتا ہے۔
بحر الکاہل میں بے چینی کی ایک اور وجہ سینکاکو جزائر (چین کے مطابق دیواؤ) کا قضیہ بھی ہے جن پر جاپان اور چین دونوں کا ملکیتی دعویٰ ہے اور دونوں ممالک اس پر دعوے کے ثبوت میں تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور چین کے بحری دستے گشت بھی کرتے ہیں اور اس وجہ سے تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے کے مطابق اب یہ ضروری ہوچکا ہے کہ بحر الکاہل میں موجود تنازعات کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل کیا جائے اور امکانی عسکری تصادم سے گریز کرتے ہوئے سفارت کاری کو فروغ دیا جائے۔ بحر الکاہل میں استحکام نہ صرف جاپان بلکہ خود چین سمیت پورے خطے کے لیے ضروری ہے اور اس استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام فریقین کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے سمندری وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ چین اور جاپان جو خطے کے دو اہم ممالک ہیں کے درمیان اس قضیے کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مشترکہ استحکام کے فارمولے پر مبنی حل نہ صرف جاپان اور چین بلکہ پورے بحر الکاہل اور ایشیا میں قیام امن کی ضمانت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جاپان اور چین بین الاقوامی کے لیے ضروری کے درمیان کے طور پر کے مطابق شامل ہیں جاپان کے کے ساتھ چین اور کرتا ہے جاتا ہے خطے کے اور اس چین کی چین کے ہے اور
پڑھیں:
سعودی عرب میں امریکا اور روس کے درمیان اہم مذاکرات شروع
سعودی وزارت خارجہ کے مطابق، سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی ہدایات پر، مملکت سعودی عرب آج بروز منگل، 18 فروری 2025 کو دار الحکومت ریاض میں روس اور امریکا کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے۔
یہ مذاکرات بین الاقوامی امن و استحکام کو فروغ دینے کی مملکت کی کاوشوں کا حصہ ہیں، جن کے ذریعے سعودی عرب عالمی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں مختلف علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال متوقع ہے، جن میں سیکیورٹی، اقتصادی تعاون اور جیوپولیٹیکل چیلنجز شامل ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سعودی عرب کا یہ اقدام اس کے عالمی سفارتی اثر و رسوخ اور مصالحتی کردار کو مزید تقویت دے گا۔ اس سے قبل بھی مملکت مشرق وسطیٰ اور عالمی سطح پر کشیدگی کم کرنے کے لیے مختلف فریقوں کے درمیان ثالثی کر چکا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اس اہم پیش رفت کو مملکت کی مستقل پالیسی کا تسلسل قرار دیا، جس کے تحت عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تعمیری مکالمے اور سفارتی کوششوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا روس روس امریکا مذاکرات ریاض سعودی عرب