Jasarat News:
2025-04-13@19:27:30 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

بحر الکاہل کو دنیا کا سب سے بڑا سمندری خطہ سمجھا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے آج تک یہ خطہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بحر الکاہل جس میں شنگھائی اور سنگاپور کے علاوہ ٹوکیو، یوکوہاما، لاس اینجلس اور بوسان جیسی اہم ترین تجارتی بندرگاہیں شامل ہیں۔ ان بندرگاہوں کے علاوہ شپنگ روٹس جن میں ٹرانس پیسیفک روٹ شامل ہے ایشیا کے اہم ترین ممالک جاپان، چین اور کوریا کو امریکا سے جوڑتا ہے۔ مزید برآں آبنائے ملا کا، پاناما کینال (بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان مختصر ترین راستہ) کے علاوہ آسٹریلیا۔ چین شپنگ روٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بندرگاہیں اور روٹس عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور بحر الکاہل کو دنیا کاسب سے اہم سمندری خطہ بناتے ہیں۔ بحر الکاہل کی تجارتی اور جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر اس سمندری خطے کو ہر دور میں ناصرف تجارتی بلکہ تزویراتی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل رہی ہے اور آج بھی یہ عالمی طاقتوں کے درمیان وسائل اور مفادات کی کشمکش کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں نہ صرف جاپان اور چین شامل ہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور بھارت بھی اس خطے پر بالادستی کی جنگ میں براہ راست شریک ہیں۔

بحر الکاہل کے اسٹیک ہولڈرز میں ایک اہم ملک جاپان بھی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد، ایک امن پسند قوم کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اپنی دفاعی پالیسیوں کو بہت محدود رکھا۔ جاپانی آئین کا آرٹیکل 9 چونکہ واضح طور پر جنگ مخالف اور کسی بھی قسم کی جارحیت میں حصہ نہ لینے کا عہد کرتا ہے لہٰذا جاپان نے اس کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ معاشی ترقی اور سفارتی تعلقات پر مرکوز رکھی تاہم، سرد جنگ اور اس کے بعد بحر الکاہل میں سیکورٹی کے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے جنوبی بحیرہ چین میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور شمالی کوریا کی جوہری پالیسی کو جاپان نے اپنی سمندری سیکورٹی کے حوالے سے نئے چیلنج کے طور پر دیکھا اور بدلتے ہوئے ماحول میں جاپان کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اپنی بحری حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے۔

چین نے جو گزشتہ چند دہائیوں میں ایک بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھرا ہے، بحر جنوبی چین اور دیگر سمندری علاقوں میں اپنی موجودگی کو وسعت دی ہے، اس ضمن میں چین کے متعدد اقدامات کو جاپان اور دیگر علاقائی طاقتوں نے ایک چیلنج کے طور لینا شروع کردیا جن میں چین کی جانب سے اپنی بحری فوج کی تعداد اور استعداد میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چین ان اقدامات کو ساؤتھ چائنا سی میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل حرکت کے جواب اور اپنے دفاع کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ دوطرفہ تزویراتی اقدامات نے خطے میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا جس کی آنچ دونوں جانب محسوس کی گئی۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جاپان کا مؤقف مسائل کے سفارتی حل، قانونی فریم ورک، اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری پر مبنی رہا ہے۔ جاپان کا بیانیہ ہے کہ خطے کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ممالک کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق متنازع امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان یہ موقف بھی پیش کرتا ہے کہ امن کے لیے خطے میں موجود چھوٹے ممالک کو سمندری حقوق کے تحفظ کے لیے مدد فراہم کی جائے جس کے لیے علاقائی تعاون کے مضبوط پلیٹ فارمز قائم کرنے ضروری ہیں۔ جاپان کے مطابق خطے میں فلپائن، ملائیشیا، ویتنام، برونائی اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے مفادات کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ (واضح رہے کہ ساؤتھ چائنا سی میں ایک اصطلاح نائن ڈیش لائن ہے جس سے مراد 900 کلومیٹر پر محیط ایک سمندری علاقہ ہے جس کی ملکیت پر مزکورہ ممالک اور چین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور چین اس پورے علاقے کو اپنی سمندری حدود کا حصہ بتاتا ہے)

دوسری جانب چین کی رائے میں بات اتنی سادہ نہیں جتنا اسے بیان کیا جاتا ہے۔ چین کے مطابق بحر الکاہل میں مسائل کی سب سے بڑی وجہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل وحرکت ہے۔ جاپان کی جانب سے پیش کردہ ’’فری اینڈ اوپن انڈو پیسیفک‘‘ (FOIP) کے تصور کو چین اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے طور پر لیتا ہے اور ساؤتھ چائنا سی میں اسے اپنی خودمختاری کے خلاف ایک بڑا چیلنج تصور کرتا ہے۔ خصوصاً کواڈ معاہدہ جس میں امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں چین کی حساسیت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ جبکہ جاپان کے مطابق انڈو پیسیفک تجارتی نظام کو آزاد اور منصفانہ بنانے کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی تجارتی اصولوں اور سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق اس کی حکمت عملی کسی خاص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی استحکام اور ترقی کے اصولوں پر مبنی ہے چنانچہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنازعات کو سفارت کاری کے ذریعے حل کریں، عالمی قوانین کا احترام کریں، اور ترقی اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ بحر الکاہل میں چین کی بے چینی کی دوسری بڑی وجہ جاپان کا امریکا کے ساتھ دفاعی اتحاد بتایا جاتا ہے جس کے تحت بحرالکاہل میں تعینات 55 ہزار امریکی فوجی جاپان کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ چونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جاپان نے اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر انحصار کیا، چنانچہ اس اتحاد کے تحت امریکا نے بحر الکاہل میں فوجی اڈے بنائے ہیں، اور چین یہاں جاپان اور امریکا کی مشترکہ بحری مشقوں کو دفاعی زاویے سے دیکھتا ہے۔ جبکہ جاپان امریکا کے ساتھ اتحاد کو اپنے دفاع اور خطے میں سیکورٹی بیلنس کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری بتاتا ہے۔

بحر الکاہل میں بے چینی کی ایک اور وجہ سینکاکو جزائر (چین کے مطابق دیواؤ) کا قضیہ بھی ہے جن پر جاپان اور چین دونوں کا ملکیتی دعویٰ ہے اور دونوں ممالک اس پر دعوے کے ثبوت میں تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور چین کے بحری دستے گشت بھی کرتے ہیں اور اس وجہ سے تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے کے مطابق اب یہ ضروری ہوچکا ہے کہ بحر الکاہل میں موجود تنازعات کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل کیا جائے اور امکانی عسکری تصادم سے گریز کرتے ہوئے سفارت کاری کو فروغ دیا جائے۔ بحر الکاہل میں استحکام نہ صرف جاپان بلکہ خود چین سمیت پورے خطے کے لیے ضروری ہے اور اس استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام فریقین کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے سمندری وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ چین اور جاپان جو خطے کے دو اہم ممالک ہیں کے درمیان اس قضیے کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مشترکہ استحکام کے فارمولے پر مبنی حل نہ صرف جاپان اور چین بلکہ پورے بحر الکاہل اور ایشیا میں قیام امن کی ضمانت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جاپان اور چین بین الاقوامی کے لیے ضروری کے درمیان کے طور پر کے مطابق شامل ہیں جاپان کے کے ساتھ چین اور کرتا ہے جاتا ہے خطے کے اور اس چین کی چین کے ہے اور

پڑھیں:

آرمی چیف سے امریکی کانگریس کے وفد کی ملاقات، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار کو سراہا

راولپنڈی:  چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیرسے امریکی کانگریس کے ایک وفد نے ملاقات کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے کلیدی کردار کو سراہا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی آیس پی آر) کے مطابق کانگریس کے وفد نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف سے ملاقات کی، وفد کی قیادت جیک برگمین کر رہے تھے، جبکہ تھامس سوزی اور معزز جوناتھن جیکسن بھی وفد میں شامل تھے۔
ملاقات میں باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر تبادلہ خیال جبکہ علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون پر زور دیا گیا۔ دونوں فریقین نے باہمی احترام، مشترکہ اقدار اور اسٹریٹجک مفادات کی بنیاد پر مسلسل رابطے کی اہمیت کو دہرایا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی ارکانِ کانگریس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے کلیدی کردار کو سراہا اور علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کی مسلسل کوششوں کا اعتراف بھی کیا۔
امریکی کانگریس کے وفد نے پاکستانی قوم کی ثابت قدمی اور اس کے اسٹریٹجک پوٹینشل کی بھی تعریف کی۔
امریکی وفد نے پاکستان کی خودمختاری کے لیے اپنے احترام کا اظہار کرتے ہوئے سیکیورٹی، تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے شعبوں میں وسیع البنیاد دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اعلامیے کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے وفد کے دورے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ دیرینہ شراکت داری کو مزید مستحکم اور متنوع بنانے کا خواہاں ہے۔ یہ تعلقات باہمی مفادات اور قومی خودمختاری کے احترام پر مبنی ہوں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیتی تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • آرمی چیف سے امریکی کانگریس کے وفد کی ملاقات، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار کو سراہا
  • نواز شریف سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، اسحاق ڈار
  •   امریکا میں موجود 54 پاکستانی طلبا ایکسچینج پروگرام کے تحت اپنی تعلیم مکمل کریں گے، طے شدہ الانس اور مراعات بھی ملتی رہیں گی،امریکہ کی وضاحت
  • عالمی ردعمل سے ثابت ہواامریکا اب سپرپاور نہیں رہا، شہباز رانا
  • عالمی تجارتی جنگ اور پاکستان کے لیے مواقع
  • عالمی معاشی ترقی میں ایشیا الکاہل ممالک کا حصہ 60 فیصد، رپورٹ
  • ڈارما ’م سے محبت‘ کے اختتام پر کاسٹ کا انوکھا الوداع
  • اداکار پرتھ سمتھان نے اے سی پی پردیومن کا کردار ادا کرنے سے انکار کیوں کیا تھا؟
  • کرش 4: پریانکا چوپڑا سالوں بعد دوبارہ ہریتک کے ساتھ نظر آئیں گی
  • تبو وجے سیتھوپتی کیساتھ جلد نئی فلم میں جلوہ گر ہونے کو تیار