Jasarat News:
2025-04-15@09:02:58 GMT

کراچی کے طلبہ کے ساتھ ناانصافی: ایک لمحہ فکر!

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

کراچی کے طلبہ کے ساتھ ناانصافی: ایک لمحہ فکر!

سید راشد علی ترمذی
کراچی جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور ترقی کا مرکز ہے، آج ظلم و زیادتی کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں کے باسیوں، خصوصاً اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی انہیں روزگار کے مواقع سے محروم کیا جاتا ہے، تو کبھی ان کے تعلیمی حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر ہر ذی شعور شخص کو سوچنا چاہیے۔

کسی بھی قوم کی ترقی کا دارو مدار اس کے نوجوانوں کی تعلیم پر ہوتا ہے، لیکن کراچی کے طلبہ کو اس بنیادی حق سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئے روز ایسی شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ امتحانات میں ان کے نمبروں میں دانستہ رد و بدل کیا جاتا ہے تاکہ ان کی تعلیمی کارکردگی کو کمزور ثابت کر کے انہیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے سے روکا جا سکے۔ دوسری طرف، اندرون سندھ کے طلبہ کو غیر معمولی نمبر دے کر انہیں کراچی کے پروفیشنل کالجز میں داخل کرایا جاتا ہے، جبکہ مقامی طلبہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ یہ تعلیمی نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟ کراچی کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف ناانصافی بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، تاکہ ایک مخصوص طبقے کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ یہ ناانصافی ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب دنیا بھر میں میرٹ اور قابلیت کو بنیاد بنایا جا رہا ہے، مگر یہاں جان بوجھ کر کراچی کے طلبہ کو پسماندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر ادارے، جو ہر مسئلے پر اپنی رائے دینے میں دیر نہیں کرتے، اس سنگین مسئلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وہ جو قانون کی بالادستی اور انصاف کی بات کرتے ہیں، کراچی کے طلبہ کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر کیوں لب نہیں کھول رہے؟ کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ایک منظم طریقے سے اردو بولنے والے نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو تباہ کیا جا رہا ہے؟
یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیں، بلکہ آواز بلند کرنے کا ہے۔ اگر کراچی کے لوگ اب بھی خاموش رہے تو ان کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے جائیں گے۔

یہ شہر، جو پاکستان کو 70 فی صد سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے، اس کے شہریوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کب تک جاری رہے گا؟ ہم تمام مقتدر اداروں، حکومتی نمائندوں اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ناانصافی کا فوری نوٹس لیا جائے۔ کراچی کے طلبہ کو ان کا تعلیمی حق دیا جائے، امتحانی نمبروں میں کی جانے والی جانبداری کا خاتمہ کیا جائے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کا عمل مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے۔ اگر آج اس ظلم کے خلاف آواز نہ اُٹھائی گئی تو کل کو کراچی کا نوجوان اپنی تعلیم، مستقبل اور حق سے مکمل طور پر محروم ہو جائے گا۔ یہ شہر ہمارا ہے، اس کے بچوں کا حق بھی ہمارا ہے! کراچی کے طلبہ کے ساتھ ناانصافی بند کرو!

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کراچی کے طلبہ کی جا رہی ہے کے طلبہ کو کے ساتھ کیا جا

پڑھیں:

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون کی بیٹری جلد ختم ہو جاتی تھی‘ میں چارج کرتا تھا اور یہ گھنٹہ بھر میں دوبارہ ختم ہو جاتی تھی اور میں اٹھ کر چارجر کی تلاش شروع کر دیتا تھا‘ میں تنگ آکر فون مکینک کے پاس چلا گیا‘ اس نے فون دیکھا اور کہا ’’سر بیٹری کیوں نہ ختم ہو آپ نے سوا سو پیجز کھولے ہوئے ہیں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’آپ ایپس اور پیجز کھولنے کے بعد انھیں بند نہیں کرتے‘ یہ چلتے رہتے ہیں اور آپ کے فون کی 81 فیصد انرجی کھا جاتے ہیں یوں آپ کے پاس صرف 19فیصد انرجی بچ جاتی ہے اور یہ تین چار کالز کے بعد ختم ہو جاتی ہے‘‘ اس نے اس کے بعد تمام غیر ضروری ایپس اور پیجز ڈیلیٹ کر دیے‘ میری بیٹری اس کے بعد کبھی ختم نہیں ہوئی‘ میں رات کو فون چارج کرتا ہوں اور یہ سارا دن چلتا رہتا ہے۔

میں نے اس کے بعد اپنی زندگی کا جائزہ لیا تو پتا چلا جاپان کے ہیرو اور مجھ میں ایپس کا فرق ہے‘ میری زندگی میں اسٹریس کی بے شمار ایپس کھلی ہوئی ہیں‘ میری توانائی کا زیادہ تر حصہ یہ کھا جاتی ہیں اور یوں میرے پاس کام کے لیے بہت معمولی انرجی بچتی ہے مثلاً میں ڈرائیو نہیں کرتا‘ کیوں؟کیوں کہ شہر کی ٹریفک بے ہنگم ہے‘ دائیں بائیں دونوں جانب سے گاڑیاں نکلتی ہیں۔

 اووراسپیڈنگ معمول ہے‘ سگنل توڑنا اور ہارن بجانا ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے اور کس وقت کس چوک پر ٹریفک بند ہو جائے یا کس راستے پر کس وقت کون کنٹینر لگا دے یا کون کس وقت کس شاہراہ پر لاش رکھ کر اسے بند کر دے یا پھر کون کس وقت گاڑیوں پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دے کوئی نہیں جانتا لہٰذا میرے ذہن میں ہر وقت ٹریفک کے خوف کی ایپ کھلی رہتی ہے‘ دوسرا مجھے خطرہ ہوتا ہے میں جہاں جاؤں گا مجھے وہاں پارکنگ نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو وہاں میری گاڑی محفوظ نہیں ہو گی‘ کوئی نہ کوئی گاڑی چوری کر لے گا یا کھڑی گاڑی کو ٹھوک جائے گا یا پھر اسے چھیل جائے گاچناں چہ میں ڈرائیور کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتا لیکن یہاں میرے ذہن میں ڈرائیور کی ایک ایپ بھی موجود ہے۔

 میرا ڈرائیور میری گاڑی وقت پر صاف کرے گا یا نہیں‘ یہ اس کا آئل بھی ٹھیک تبدیل کرے گا یا نہیں اور یہ کہیں کھڑی گاڑی کا اے سی چلا کر تو نہیں سویا رہے گا یا یہ اسے لاوارث چھوڑ کر چائے پینے یا دہی بھلے کھانے تو نہیں چلا جائے گا‘ میرے ذہن میں ہر وقت یہ ایپ بھی کھلی رہتی ہے اور یہ میری انرجی کا بہت سا حصہ بھی ضایع کرتی رہتی ہے جب کہ میرے مقابلے میں جاپان کے ہیرو کی زندگی میں یہ ایپ نہیں ہے‘ یہ اپنے فلیٹ سے چل کر دو منٹ میں ٹرین اسٹیشن پہنچ جاتا ہے‘ فون ٹچ کر کے پلیٹ فارم پر آ جاتا ہے۔

 وقت پر ٹرین آتی ہے اور یہ مزے سے اس میں سوار ہو کر وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور اگر کبھی اسے اپنی گاڑی پر دفتر جانا پڑے تو اسے سارا راستہ رواں ٹریفک ملتی ہے‘ کوئی سڑک بند نہیں ہوتی‘ کسی چوک میں کنٹینر نہیں ہوتا‘ کوئی شخص رش ڈرائیونگ نہیں کرتا اور یہ جب دفتر پہنچتا ہے تو وہاں پارکنگ بھی ہوتی ہے اور اس پارکنگ میں اس کی گاڑی سو فیصد محفوظ ہوتی ہے‘ اس پر سکریچ پڑتے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی ٹھوک جاتا ہے اور اگر کبھی خدانخواستہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو انشورنس کمپنی اسے گاڑی ٹھیک کرا دیتی ہے یا پھر اسے نئی گاڑی دے دیتی ہے اور یوں اس کا نقصان‘ نقصان نہیں رہتا چناں چہ اس کے ذہن میں ’’میری گاڑی کا کیا بنے گا؟‘‘ کی ایپ کبھی نہیں کھلتی اور یہ اپنی ساری بیٹری کام پر خرچ کرتا ہے۔

ہیرو کی زندگی بے شمار دوسری ایپس سے بھی آزاد ہے‘ مثلاً اس کے ذہن کے کسی کونے میں ذرا سا بھی یہ خیال نہیں آتا میں جو دودھ پی رہا ہوں یہ ناخالص ہو سکتا ہے‘ یہ کیمیکل سے بنا ہو گا یا اس میں جوہڑ کا گندا پانی ہوگا‘ اس کی میز پر رکھا منرل واٹر منرل نہیں ہے‘ اس کا شہد اصلی نہیں ہوگا‘ اس کی دوائیں جعلی ہوں گی یا ڈاکٹر اس کا غلط گردہ نکال دے گا یا ڈاکٹر کی ڈگری اصلی نہیں ہو گی یا یہ اسے سٹیرائیڈ دے دے گا یا بلاوجہ دس دوائیں لکھ دے گا یا کیمسٹ کی دکان سے اسے جعلی یا ایکسپائرڈ دوا ملے گی۔یہ سوچ بھی نہیں سکتا اس کی براؤن بریڈ اصل میں وائیٹ ہے اور اسے رنگ ڈال کر براؤن کیا ہو گا‘ اس کی چائے‘ چائے نہیں کیکر کی چھال کا برادہ ہے‘ اس کا  بسکٹ پرانا ہے اور اس میں سے کیڑے نکل آئیں گے۔

 یہ فائیو اسٹار ہوٹل میں جو آملیٹ کھا رہا ہے وہ گندے انڈے کا بنا ہوگا یا اس کی پلیٹ کا گوشت مری ہوئی مرغی یا ٹھنڈی مرغی کا ہوگا اور اس میں سے بو بھی آئے گی اور کیڑے بھی نکل آئیں گے یا اسے جس کام کے لیے ہائر کیا جائے گایہ وہ کام سرے سے نہیں جانتا ہو گا یا یہ سوچتا ہو گا میں نے اگر اے سی یا ٹی وی لگوانا ہے تو پھر مجھے لگانے والے کے سر پر کھڑا ہونا پڑے گا کیوں کہ یہ جاتے جاتے میری کوئی اور چیز توڑ جائے گا یا دیوار گندی کر جائے گا‘ اسے یہ خطرہ بھی نہیں ہوگا اس کا پلمبر اصل میں پلمبر نہیں یا اس کا الیکٹریشن‘ الیکٹریشن اور پینٹر اصل میں پینٹر نہیں یا اس کی گاڑی میںائیر بیگز نہیں ہوں گے یا گاڑی کا مکینک مکمل نالائق اور ان پڑھ ہو گا یا اس کے گھر کی بجلی اچانک چلی جائے گی یا یہ دس پندرہ بیس کے وی کے سولر پینلز لگا لے گا تو گورنمنٹ اچانک پالیسی بدل لے گی۔

حکومت اس کے اکاؤنٹس سے پیسے نکال لے گی یا اس کی نوکری اچانک چلی جائے گی یا اس کے سامنے موجود شخص کا سی وی غلط ہو گا اور یہ ایم بی اے کے باوجود بزنس سے مکمل نابلد ہو گا اور یہ کسی بھی وقت جاب چھوڑ کر چلا جائے گا یا کمپنی سے ایڈوانس لے کر غائب ہو جائے گا یا یہ دفتر کے اوقات میں سارا دن موبائل فون پر لگا رہے گا یا کوئی شخص ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی لے کر سڑک پر آ جائے گا یا ’’ون ویلنگ‘‘ کرے گا یا اووراسپیڈ ہو گا۔

ہیرو یہ بھی نہیں سوچ سکتا اس کے گھر کی گیس اچانک غائب ہو جائے گی یا پٹرول پمپس سے پٹرول اچانک ختم ہو جائے گا یا ملک میں اچانک چینی مہنگی ہو جائے گی یا آٹا غائب ہو جائے گا یا پولیس اسے اچانک اٹھا لے جائے گی یا یہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ جائے گا اور مکمل طور پر مسنگ ہو جائے گا یا ریاست اسے سڑکوں پر ذلیل کرے گی یا اس کا ووٹ کسی دوسرے امیدوار کے باکس سے نکل آئے گا یا مالک مکان اسے کسی بھی وقت مکان سے نکال دے گا یا اس کی پراپرٹی پر کوئی دوسرا شخص قبضہ کر لے گا یا اس کا بچہ میدان میں کھیلتا ہوا اغواء ہو جائے گا اور اسے تاوان ادا کرنا پڑے گا یا پولیس اس کی عزت نفس کچل کر رکھ دے گی یا اسے عدالت سے انصاف نہیں ملے گا یا پھر حکومت عدالتوں میں اپنی مرضی کے جج تعینات کر کے مرضی کے فیصلے لے لے گی یا کوئی سیاسی جماعت کسی بھی وقت سرکاری املاک توڑ دے گی یا سوشل میڈیا پر کسی بھی وقت ہیرو کی ٹرولنگ شروع ہو جائے گی یا کسی بس‘ ٹرین یا ریستوران سے اس کا بیگ یا موبائل فون چوری ہو جائے گا یا کسی گلی میں کوئی پستول دکھا کر اس سے موبائل اور پرس چھین لے گا یا اس کے ٹیمپل یا مسجد میں بم دھماکا ہو جائے گا یا اس کا مولوی اسے کسی دوسرے فرقے کے خلاف اکسا دے گا یا اس پر گستاخی کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیا جائے گا یا یہ بے گناہی کے باوجود جیلیں بھگتے گا یا اس کی گھر کی ٹونٹی سے پانی نہیں آئے گا یا اسے کسی پبلک پلیس پر واش روم نہیں ملے گا  یا اس کی فلائیٹ وقت پر نہیں اڑے گی یا درزی اس کے کپڑے خراب کر دے گا یا پھر ڈرائی کلین کے دوران اس کے کپڑوں پر استری کا نشان پڑ جائے گا‘ ہیرو کے ذہن پر ٹینشن کی کوئی ایپ نہیں کھلتی‘ اس پر کوئی اسٹریس نہیں آتا‘یہ ذہنی طور پر مکمل آزاد رہتا ہے۔

 فری مائینڈ‘ یہ کام کرتا ہے اور اپنی گھریلو زندگی کو انجوائے کرتا ہے جب کہ میرے ذہن میں خوف‘ غیر یقینی‘ عدم استحکام اور انہونی کے ہزاروں پیجز اور درجنوں ایپس کھلی ہوئی ہیں اور یہ دن میں میری 81 فیصد بیٹری کھا جاتی ہیں‘ میرے پاس صرف 19 فیصد توانائی بچتی ہے اور اس میں سے بھی 18 فیصد’’ میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ میں انھیں جلد سے جلد کیسے سیٹل کر سکتا ہوں اور کیا یہ میری دکان‘ میری فیکٹری‘ میرا بزنس یا میری جائیداد سنبھال سکیں گے وغیرہ وغیرہ‘‘ جیسے خوف میں ضایع ہو جاتی ہے یوں میرے پاس باقی صرف ایک فیصد بیٹری بچتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے میں اس ایک فیصد سے کیا اکھاڑ لوں گا‘ کیا توڑ لوں گا اور میں کیا تبدیل کر لوں گا لہٰذا اگر ریاست مجھ سے کام لینا چاہتی ہے تو اسے پہلے خوف کی یہ ساری ایپس اور غیریقینی کے یہ تمام پیجز بند کرنا ہوں گے تاکہ میرا مائینڈ فری ہو سکے اور میں جاپان کے ہیرو کی طرح پرفارم کر سکوں ورنہ میں روزانہ یہ سوچ سوچ کر مر جاؤں گا ’’میرا شہد اصلی ہے یا جعلی اور میری میز پر پڑا دودھ کیا واقعی بھینس نے دیا تھا؟‘‘۔

متعلقہ مضامین

  • 81فیصد
  • کراچی حیدرآباد موٹر وے نئے راستے پر بنائی جائے گی، احسن اقبال
  • حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
  • بہارہ کہو میں نجی سکول کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات غزہ کے مظلوم بچوں کے نام
  • اونیجا کا پاکستانی بوائے فرینڈ پہلی بار منظر عام پر، انکشافات سے بھرا انٹرویو
  • سمرقند اسٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی میں سپورٹس فیسٹیول 2025 کا کامیاب آغاز
  • سیکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے پرکراچی سے کوئٹہ جانیوالی بولان میل کو جیکب آباد اسٹیشن پر روک لیا گیا
  • امریکا میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا کے لیے خطرے کی گھنٹی، 122 کی امیگریشن حیثیت منسوخ
  • چیئرمین ثانوی تعلیمی بورڈ کا مختلف امتحانی مراکز کا دورہ، نقل کرتے طلبہ پکڑے گئے
  • لاہور میں اے آئی یونیورسٹی کا قیام، مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے، مریم نواز