یہود کے پشت پناہ عیسائی سربراہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
امریکا کے صدر ٹرمپ کی غزہ پر قبضے کی دھمکی اور عرب ممالک پر دھونس کہ وارثین غزہ کو اپنے ممالک میں جگہ دو ورنہ دھما دھم ہوگا نے پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑا دی اور عالم تمام میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ یہ دھمکی کوئی جذباتی نہیں بلکہ سوچی سمجھی گریٹر اسرائیل کی تشکیل اور تکمیل کا پلان ہے۔ ماہرین کے مطابق شام پر بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ روس کو قابو کرنے اور شام کی جنگ سے دور رکھنے کے لیے لانگ رینج میزائل کا استعمال کیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ بشارالاسد اسرائیل کو روک نہیں رہے تھے لیکن ایران کے میزائل کا اسرائیل تک پہنچنے کا ایک راستہ ضرور تھا جو اب ختم ہوگیا۔ ٹرمپ کی دھمکی کیا تیسری عالم جنگ پر منتج ہوگی۔ ایک حدیث یوں آتی ہے، بادشاہ اسلام شہید ہوجائے گا۔ عیسائی ملک شام پر قبضہ کرلیں گے اور آپس میں ان دونوں عیسائی قوموں کی صلح ہوجائے گی۔ بقیہ السیف مجاہدین مدینہ منورہ چلے آئیں گے، عیسائیوں کی حکومت خیبر تک (جو مدینہ سے قریب ہے) پھیل جائے گی، مسلمان امام مہدی کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے تا کہ ان مصائب کے دفعیہ کے موجب ہوں اور دشمن کے پنجے سے نجات دلائیں۔ ایک اور حدیث اس کی خوب وضاحت کرتی ہے۔ سیدنا ثوبانؓ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جس میں کفار ایک دوسرے کو ممالک اسلامیہ پر قابض ہونے کے لیے اس طرح مدعو کریں گے جیسے دستر خوان پر کھانے کو ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اس وقت ہماری تعداد قلیل ہوگی، فرمایا نہیں بلکہ اس وقت تم کثرت سے ہو گے، لیکن ایسے بے بنیاد جیسے رو کے سامنے خش و خاشاک اور تمہارا رعب داب دشمنوں کے دلوں سے اُٹھ جائے گا اور تمہارے دلوں میں وہن پڑ جائے گا۔ ایک صحابی نے عرض کیا حضورؐ وہن کیا چیز ہے۔ آپؐ نے فرمایا تم دنیا کو دوست رکھو گے اور موت سے خوف کرو گے۔ (ابودائود، امام احمد بہقی) آپ اس میں کوئی دورائے ہرگز نہیں کہ مسلم حکمرانوں میں عیش و عشرت نے موت کا خوف غالب کردیا ہے۔ اور اس وقت دنیا میں مسلم ریاستوں اور مسلمانوں کی تعداد اتنی کثرت سے ہے کہ شاید کبھی نہ تھی۔ مگر ان کا رعب داب جو ماضی میں کفر پر لرزہ طاری کرتا تھا اب وہ مغلوب کفر ہوگیا ہے۔ مسلم جن کی ٹھوکر سے دو نیم صحرا و دریا ہوا کرتے تھے اب مسلکوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو کر نوالہ تر بن چکے ہیں اور کفر کی سہولت کاری پر فخر کررہے ہیں۔
شام میں پراسرار تبدیلی اور اب عرب ممالک کی بھاگ دوڑ اس معرکہ کی خبر دے رہی ہے کہ امام مہدی کی آمد آمد ہے۔ جن کی قیادت باسعادت میں افواج عرب کا اجتماع ہوگا اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق عیسائی دنیا بھر سے فوج کو جمع کرکے امام مہدی سے مقابلہ میں شام کو مرکز بنائیں گے اور امام مہدی مکہ سے کوچ فرما کر مدینہ پہنچیں گے اور زیارت رسولؐ کی زیارت کے بعد شام کی جانب روانہ ہوں گے۔ دمشق کے قریب و جوار میں عیسائیوں کی فوج سے آمنا سامنا ہوگا اور اس وقت امام مہدی کی فوج کے تین گروہ ہوجائیں گے ایک گروہ نصاریٰ کے خوف سے بھاگ جائے گا، اللہ ان کی توبہ ہرگز قبول نہ فرمائے گا۔ باقی ماندہ فوج میں سے کچھ تو شہید ہو کر بدر واحد کے شہید کے مراتب کو پہنچیں گے اور کچھ بتوفیق ایزدی فتح یاب ہو کر ہمیشہ کے لیے گمراہی اور انجام بد سے چھٹکارہ پالیں گے۔ امام مہدی دوسرے روز پھر عیسائیوں (نصاریٰ) کے مقابلے میں نکلیں گے اس روز مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت عہد کرے گی کہ بغیر فتح یا شہادت کے میدان جنگ سے نہ پلیٹیں گے پس یہ کل کے کل شہید ہوجائیں گے۔ یوں ہی تیسرے دن ایک اور جمعیت مسلمانوں کی قسم کھا کر شہید ہوجائے گی۔ چوتھے روز امام مہدی رسد گاہ کی محافظ جماعت کو لے کر جو تعداد میں بہت کم ہوگی۔ دشمن سے نبرد آزما ہوں اور اللہ ان کو فتح مبین عطا کرے گا۔ عیسائی اس قدر قتل و غارت ہوں گے کہ باقیوں کے دماغ سے حکومت کی بُو تک نکل جانے وہ ذلت رسوائی سے بھاگیں گے مسلمان ان کا تعاقب کرکے اکثر کو واصل جہنم کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جائے گا شہید ہو گے اور
پڑھیں:
یہود دشمنی پر معافی مانگو یا مراعات چھوڑو، ہارورڈ یونیورسٹی کو ٹرمپ کا الٹی میٹم
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معروف تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہارورڈ کو وفاقی قوانین پر مکمل عمل کرنا ہوگا، ورنہ اسے اپنے مخصوص مراعات سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کو یہود دشمنی کے واقعات پر معافی مانگنی چاہیے، خاص طور پر ان واقعات پر جو امریکی یہودی طلبہ کے خلاف کیمپس میں پیش آئے ہیں۔
واضح رہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے متعدد مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد حکومت نے یونیورسٹی کی وفاقی امداد منجمد کر دی ہے۔
یہ تازہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب ٹرمپ حکومت نے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر وفاقی قوانین کی مکمل پابندی کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ بڑھایا، خاص طور پر مذہبی اور نسلی تعصب سے متعلق شکایات پر۔