WE News:
2025-04-15@06:24:52 GMT

افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان میں مشکلات کیوں بڑھ گئیں؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان میں مشکلات کیوں بڑھ گئیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے پناہ گزینوں کی دوبارہ امریکا میں آبادکاری کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس وقت افغان باشندے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ  تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن

صرف یہی نہیں بلکہ اب پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو 3 مراحل میں ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ پہلا مرحلے میں غیر دستاویزی مہاجرین شامل ہوں گے، دوسرے میں اے سی سی کارڈ رکھنے والے افغان شہری جبکہ تیسرے مرحلے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے مہاجرین شامل ہوں گے۔ پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان معاشی اعتبار سے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔

لیکن اس حوالے سے افغان مہاجرین کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے 31 مارچ تک کی مہلت دی گئی ہے اور وہ توقع کر رہے ہیں کہ اس وقت تک امریکا کی طرف سے ان کے لیے کوئی مثبت جواب سامنے آجائے گا۔

مزید پڑھیے: افغانستان: اربوں ڈالر امداد کے باوجود خواتین سمیت 4 کروڑ افراد سنگین صورتحال کا شکار، رپورٹ

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے اسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

افغان باشندوں کی مشکلات اور دیگر امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی شمیم شاہد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک امریکا نے افغانستان کے بارے میں خصوصی طور پر کسی خاص پالیسی کو واضح نہیں کیا ہے البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد غیر قانونی طور پر یا سرحدی گزرگاہوں سے آنے والوں کو اپنے اپنے وطن واپس بھجوانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

شمیم شاہد نے کہا کہ اس اعلان پر کسی نہ کسی حد تک عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے لیکن افغانستان سے امریکا پہنچنے والے زیادہ تر افغان باشندے قانونی طریقوں سے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی اصل وجہ طالبان کے افغان عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور معاشی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف طالبان سیاسی انتقام کے تحت مخالفین کو گرفتار کررہے ہیں اور بہت سوں کو جبری طور پر گمشدہ کرکے ماورائے قانون قتل بھی کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں پھنسے افغان مہاجرین کی کہانی، ’امریکا نے پالیسی نہ بدلی تو کہیں کے نہیں رہیں گے‘

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس بار حکومت پاکستان نے 31 مارچ تک افغان باشندوں کو نکلنے کا کہہ دیا ہے مگر ان کی پکڑ دھکڑ ابھی سے ہی جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں روزانہ افغان باشندوں بشمول خواتین اور بچوں کو گرفتار کرکے تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے اور ان کو بعد میں طورخم کے راستے زبردستی افغانستان بجھوایا جا رہا ہے۔

شمیم شاہد نے کہا کہ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ پاکستانی اداروں کے پاس وسائل نہیں ہیں اور گرفتار لوگوں کو کئی کئی دنوں تک قید میں رکھا جاتا ہے اور ان کو کھانے پینے کی اشیا بھاری رقوم  بلکہ بھاری رشوت کی ادائیگی پرفراہم کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی بے عزتی پاکستان میں افغان باشندوں کی ہو رہی ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں ہو رہی اور پاکستان کے اس ہتک آمیز رویے کی وجہ سے ہی افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے نفرت پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے لہٰذا افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے پر اس پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین یورپی یونین اور دیگر انسانی حقوق کی تحفظ کی تنظیمیں تو پہلے سے ہی پاکستان کے اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ حکم نامہ، پاکستان سے امریکا جانے کے منتظر ہزاروں افغانوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا

شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان کے موجودہ حالات پر زیادہ دیر تک خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس کے اس خطے میںاب بھی بہت سے مفادات ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکا افغانستان سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔

’کشتیاں جلا کر آئے ہیں، وہاں ہمارا کچھ نہیں بچا‘

اسلام آباد میں مقیم ایک افغان شہری نے وی نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک تو امریکی امیگریشن پالیسی میں افغان مہاجرین کے حوالے سے کچھ نرمی نظر نہیں آئی ہے لیکن امیدیں اب بھی قائم ہیں کیونکہ امریکا میں امیگرنٹ حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور کانگریس کے اراکین اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جس پر ہم پرامید ہیں کہ افغان مہاجرین کی مشکلات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے امریکا جانے کا ارادہ رکھنے والے افغان پناہ گزین کو اس وقت واحد پریشانی یہ لاحق ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے بس یہ نوبت نہ آئے کہ انہیں دوبارہ افغانستان جانا پڑے کیونکہ اب افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنی تمام کشتیاں جلا کر اس راستے پر نکلے تھے، افغانستان میں اب ان کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔

افغان شہری نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈلائن سے پہلے امریکا کی جانب سے کوئی اچھی خبر ضرور ملے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال پولیس کی جانب سے انہیں کسی قسم کی کوئی بھی پریشانی نہیں پہنچی ہے مگر بہت سے لوگ مشکلات کے باعث اسلام آباد سے پشاور کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو وہاں محفوظ سمجھ رہے ہیں۔

’خواتین افغانستان میں گھٹ گھٹ کر مرجائیں گی‘

ہگئی احمد ذئی اس وقت پشاور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کی ان خبروں کے بعد ان کا دل مزید مایوس ہو چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ہم کہاں جائیں گے اس حوالے سے انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا صرف طالبان حکومت ہی افغان بچیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی کہیں نہ کہیں امریکا سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ امریکا افغان پناہ گزینوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان واپس جانا ہمارے لیے اب نا ممکن ہے کیونکہ وہاں خواتین گھٹ گھٹ کر مر جائیں گی۔

ہمیں کم از کم امریکا کی جانب سے حتمی فیصلے تک تو مہلت ملنی چاہیے کیونکہ امریکا روانگی کے حوالے سے ہمارے تمام تر معاملات آخری مراحل میں تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا افغان مہاجرین کو 31 مارچ 2025 تک پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ اس کی ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر دستاویزی، بشمول افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا ہے۔ یہ منصوبہ اکتوبر 2023 میں سامنے آیا تھا جس میں غیر دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے یا جلاوطنی کا سامنا کرنے کے لیے 30 دن کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: امریکا افغانستان میں دوبارہ جنگ پر غور کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان

پاکستانی حکومت نے ان کی وجہ سے قومی سلامتی کے بارے میں خدشات ظاہر کیے ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تنظیموں نے اپنے مؤقف کے لیے دلیل دی ہے کہ اس فیصلے نے افغان مہاجرین کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی حکومت نے افغان مہاجرین کے لیے رجسٹریشن کے ثبوت (PoR) کارڈز کی توثیق 30 جون 2025 تک بڑھا دی ہے جس سے انہیں ایک سال تک ملک میں رہنے کی اجازت ہوگی لیکن اس توسیع کا اطلاق تمام افغان مہاجرین پر نہیں ہوتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان شہری افغان مہاجرین امریکا پاکستان سے افغانیوں کا انخلا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان شہری افغان مہاجرین امریکا پاکستان سے افغانیوں کا انخلا پاکستانی حکومت کی کہ پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کو انہوں نے کہا کہ افغانستان میں افغان باشندوں ہے کہ پاکستان امریکا افغان پناہ گزینوں پاکستان میں کہنا تھا کہ افغان پناہ افغان شہری پاکستان کے پاکستان سے کی جانب سے شمیم شاہد کہ امریکا اس فیصلے حوالے سے کا افغان رہے ہیں کا کہنا یہ بھی اور ان ہے اور ہیں کہ کے لیے کی وجہ

پڑھیں:

اپوزیشن اپنے لیڈر کیلیے امریکا میں لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیل کیخلاف لابنگ کیوں نہیں کرتی، حافظ نعیم

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل امریکا کی آشیرباد سے نسل کشی کررہا ہے اور اسلامی ممالک خاموش ہیں، اگر اسلامی ممالک ملکر پیش قدمی کا اعلان کریں تو پھر غزہ جنگ رک سکتی ہے۔

کراچی میں فلسطین سے متعلق مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ کراچی نے ایک بار پھر ثابت کہ جیتا جاگتا شہر ہے، اہل غزہ جس تکلیف مصیبت میں ہیں بیان سے باہر ہے، 60 سے 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے جس میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں بلکہ غزہ میں طاقت اور دہشت گردی کا راج ہے، اقوام متحدہ کا چارٹر ان طاقتوں نے پھاڑ کر پھینک دیا، مسلم حکمران سمجھتے ہیں کہ صیہونی عالم عرب کو چھوڑ دیں گے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ یہ یہودیوں کی تاریخ ہے احسان کرنے والوں کو نہیں چھوڑتے، نبیوں کو چھوڑنے والے عرب حکمرانوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے، عرب حکمران ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تو تاریخ میں ان کا نام ہوگا اور اگر یہودیوں کے سہولت کار بن کر خاموش رہے تو ان کی داستان بھی نہیں ہوگی داستانوں میں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم افواج کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل اور اس کی ٹیکنالوجی شکست کھا چکی ہے، اسرائیل اب بچوں سے انتقام لے رہا ہے، اسرائیل نسل کشی کررہا ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ اسرائیل آج بھی القسام برگیڈ کامقابلہ نہیں کرسکتا، اگر مسلمان حکومت کے ایٹمی ہتھیار اور میزائل سامنے آئیں تو بچوں کی شہادت رک جائیں گی، پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف عالمی کانفرنس مدعو کریں اور مشترکہ اعلامیہ جاری کریں کہ بہت ہوچکا اب پیش قدمی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جس روز یہ سب کچھ ہوا تو اسی دن جنگ بند ہو جائیگی اور ٹرمپ خود جنگ بند کروائے گا، اسرائیل اور امریکا سے نفرت کرنے والے باضمیر افراد پر جگہ سڑکوں پر ہیں۔

حافظ نعیم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سرکاری سطح پر اس پالیسی کا اعلان کرے کیونکہ اس کے ذریعے بھی فلسطینیوں کو کچھ ریلیف مل سکے گا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آج کی ریلی میں لاکھوں کی تعداد میں شرکا موجود ہیں جس سے اہل غزہ کو نیا جذبہ ملے گا، اسماعیل ہانیہ کا خاندان مسلسل قربانیاں دے رہا ہے اور حماس کی تحریک اب کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اہل فلسطین اور اہل غزہ سے اظہار یک جہتی کیا جارہا ہے، امریکا میں پچاس فیصد رائے دہندگان حماس کے حامی ہوچکے ہیں، حماس کی جدوجہد اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آئینی ہے  اور وہ ایک جمہوری قوت ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب کے فتوے پر تکلیف یہودیوں کے ایجنٹ کو ہورہی ہے، پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن سے پوچھتا ہوں امریکا کی مذمت کیوں نہیں کرتے اور اسرائیل کے خلاف کھل کر کیوں کھڑے نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپوزیشن (پی ٹی آئی) اپنے لیڈر کے لیے لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیلی کے خلاف امریکا میں لابنگ کیوں نہیں کرتی۔ حافظ نعیم نے دعویٰ کیا کہ لیاقت علی خان کو کہا گیا کہ اسرائیل کو مان لو بہت کچھ دیں گے مگر لیاقت علی خان نے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری روح قابل فروخت نہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کو عزت ملی تھی۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ مسلم لیگ پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے کہہ رہا ہوں اہل غزہ کے لیے آواز اٹھائیں اسرائیل کی مذمت کریں، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے کہتا ہوں جہاد کے فتوے اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک پر ان پارٹیوں کی اہم شخصیات نے اس کے خلاف  مہم شروع کردیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنی پارٹی پالیسی واضح کریں۔

اُن کا کہنا تھا کہ طاغوت کا ہتھیار ان کے خلاف استعمال کریں گے لیکن ان کی تجارت کا بائیکاٹ کریں گے، ان کی مصنوعات کی طاقت سے ہی یہ ہمارے بچوں کو شہید کررہے ہیں، جہاد کا فتویٰ مسلم ممالک اور افواج کے لیے دیا گیا، کروڑوں لوگ غزہ کے بچوں کے لیے جان دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جذبہ جہاد کو سازشوں سے کم نہیں کیا جاسکتا۔

حافظ نعیم نے کہا کہ عوام ایک بڑی جدوجہد کے لیے تیار رہیں، ہماری ترجمانی کرنے والی حکومتیں ہمارے پاس نہیں ہیں، ہمیں حق و انصاف کی بالا دستی کے لیے آواز اٹھانا ہوگئی۔

اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ اگلے مرحلے میں بچوں کا ایک الگ مارچ کیا جائے گا، 18 اپریل کو ملتان 20 اپریل کو اسلام آباد میں غزہ مارچ ہوگا، اسلام آباد میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی، جس کی فلسطینی قیادت سے بھی توثیق کرلی ہے۔ عالم اسلام کی دیگر تنظیموں سے بھی اس روز ہڑتال کی بات کریں گے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں کاروبار بند کرکے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ملکوں کے سربراہان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خطوط لکھ رہا ہوں، پوری دنیا میں امریکا کی غلاموں کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے غلاموں کے خلاف تحریک کی قیادت کراچی کرے گا اور ہم کامیابی حاصل کریں گے۔ حافظ نعیم نے آخر میں مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم افواج پاکستان کے سربراہان کا اجلاس بلائیں اور غزہ کے حوالے سے پالیسی بنائیں، پیشقدمی سے ہی محاصرے کو توڑ سکیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اب تک کتنے افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جا چکے؟
  • افغان پاکستان سے کس حال میں اپنے وطن جا رہے ہیں؟
  • جعفر ایکسپریس حملے میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا، امریکی اخبار نے تصدیق کردی
  • پاکستانی ہیڈ آف مشن کی افغان وزیر خارجہ سے ملاقات، مہاجرین کی واپسی پر گفتگو
  • اپوزیشن اپنے لیڈر کیلیے امریکا میں لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیل کیخلاف لابنگ کیوں نہیں کرتی، حافظ نعیم
  • افغان حکومت اپنی سرزمین سے آپریٹ ہونے والی دہشتگرد تنظیموں کو لگام ڈالے، وزیراعظم شہباز شریف
  • ٹرمپ نے افغان باشندوں کی عارضی پناہ گاہوں کی حیثیت ختم کردی
  • صدر ٹرمپ نے ہزاروں افغانوں کا ’تحفظاتی اسٹیٹس‘ ختم کر دیا
  • مدھوبالا اور مینا کماری: پکی سہیلیاں ایک دوسرے کی بدترین دشمن کیوں بن گئیں؟
  • پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات