Jasarat News:
2025-04-15@09:55:56 GMT

اسٹپ فائونڈیشن کا مقصد غریب عوام کی خدمت کرنا ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

اسٹپ فائونڈیشن کا مقصد غریب عوام کی خدمت کرنا ہے

شہدادپور،اسٹپ فائونڈیشن کے نئے دفتر کے افتتاح کے موقع پر شائستہ بلوچ ودیگر کاگروپ

سنجھورو/شہدادپور(نمائندگان جسارت) اسٹپ فائونڈیشن کا مقصد غریب و مستحق لوگوں کی بلاامتیاز خدمت کرنا ہے میڈم شائستہ بلوچ کا اسٹپ فاؤنڈیشن سنجھورو کے آفس کے افتتاح کے بعد صحافیوں سے گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق اسٹپ فاؤنڈیشن سنجھورو آفس کی شاندار افتتاحی تقریب ہوئی جس میں اسٹپ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن میڈم شائستہ بلوچ نے خصوصی شرکت کی۔ اسٹپ فاؤنڈیشن سنجھورو کی جانب سے مرکزی چیئرپرسن میڈم شائستہ بلوچ کا سنجھورو پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئی اور سندھ کی ثقافت اجرک پیش کی گئی۔ اس موقع پر آفس کے افتتاح کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹپ فاؤنڈیشن بے یارومددگار لوگوں کی مدد کررہی ہے اور ان کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے اسٹپ فاؤنڈیشن کا مقصد غریب اور مستحق لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسٹپ فاؤنڈیشن سندھ بھر میں بھرپور طریقے سے کام کررہی ہے اور ہماری تنظیم کی جانب سے اجتماعی شادیوں کی تقریب بھی گئی ہیں جس میں ان جوڑوں کو مکمل جہیز بھی دیا گیا جبکہ معذور افراد کو وہیل چیئر اور مستحق خاندانوں کو راشن بھی دیا گیا اور جلد ہی سنجھورو میں اسٹپ فاؤنڈیشن کی جانب سے اجتماعی شادیوں کا بڑا پروگرام کیا جائے گا جس میں جوڑوں کو جہیز کا مکمل سامان بھی دیا جائے گا جبکہ اسٹپ فاؤنڈیشن سنجھورو کی جانب سے میڈم شائستہ بلوچ کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔ اس موقع پر اسٹپ سنجھورو کے صدر سروپ ساگر،لیڈیز ونگ تعلقہ سنجھورو کی صدر امبردعا جمالی،عاطف پٹھان، قربان لغاری،راجا حاجانو،جیوت کمار،ہارون ابڑو، زاہدعلی رند،خان لنڈاوراحسان شیخ ودیگر بھی موجود تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی جانب سے

پڑھیں:

بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے لکپاس میں جاری احتجاجی دھرنے کے خاتمے کو گرفتار خواتین کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے، جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سکیورٹی خدشات اور خواتین پر عائد الزامات کی بنیاد پر ان کی رہائی سے انکار کر دیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی اور صوبائی حکومت کے درمیان اب تک مذاکرات کے چار دور ہوئے ہیں، جن میں تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔ گرفتار بلوچ خواتین اور الزامات

بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر خواتین کو کوئٹہ کی مقامی جیل میں '3 ایم پی او‘ کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ان پر سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں، جن میں دہشت گردوں سے رابطوں اور جعفر ایکسپریس حملے میں ہلاک عسکریت پسندوں کی لاشیں لے جانے کی کوشش شامل ہیں۔

بی وائی سی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومتی دباؤ کا ایک حربہ ہے۔ سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت ان خواتین کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ وہ ان پر عائد الزامات کو سنجیدہ سمجھتی ہے۔

انہوں نے کہا، ''حکومت مذاکرات تو کر رہی ہے، لیکن دھرنا ختم کرنے کا دباؤ ڈال رہی ہے۔‘‘ احتجاج اور حکومتی اقدامات

دریں اثنا بی وائی سی نے گرفتار خواتین کی رہائی نہ ہونے کے خلاف 13 اپریل کو بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب، بی این پی 14 اپریل کو لکپاس میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے جا رہی ہے، جس میں 'تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کی قیادت بھی شریک ہو گی۔

بی این پی کے رہنما ثناء اللہ بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''حکومت مذاکراتی عمل میں غیر سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ واضح ہے کہ گرفتار خواتین کو رہا کیا جائے۔ سندھ میں سمی دین بلوچ اور دیگر خواتین کو رہا کیا گیا، لیکن بلوچستان حکومت اس قانون کے استعمال میں بے اختیار کیوں ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کشیدگی کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا، جب تک صوبائی اور مرکزی حکومت بلوچستان کے زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرتی۔

‘‘

آغا حسن بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے قومی شاہراہوں کو خندقیں کھود کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر رکھا ہے، جس سے صوبے بھر میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''بی این پی کارکنوں کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے عوام کو مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔‘‘

حکومتی موقف کیا ہے؟

صوبائی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما علی مدد جتک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بی این پی احتجاج کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ''احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جا سکتا ہے، لیکن بی این پی صوبے کو شورش کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کے خلاف الزامات کا دفاع عدالتوں میں ہونا چاہیے، سڑکوں پر نہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے سکیورٹی انتظامات سخت کیے گئے ہیں اور دفعہ 144 نافذ ہے، جس کی بی این پی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

جے یو آئی (ف) کی ثالثی کی کوشش

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی بصیرت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم نے سردار اختر مینگل اور وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو۔ اختر مینگل کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ حل نہ ہو سکے۔‘‘

انہوں نے زور دیا کہ طاقت کے بجائے دانشمندی اور دور اندیشی سے حالات بہتر کیے جائیں، کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دیگر حصے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان ہائیکورٹ: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کیخلاف آئینی درخواست مسترد
  • حکمران عوام کے زندہ بیدار ایمان پروَر جذبات کی قدر کریں، لیاقت بلوچ
  • حکومت کا مقصد پائیدار سرمایہ کاری پر مبنی، برآمدات کو فروغ دینے والی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا ہے؛ وزیر خزانہ 
  • پارٹی رہنما عوام کی خدمت میں دن رات ایک کردیں، چوہدری شجاعت
  • سیاسی جدوجہد کا مقصد مذاکرات ہی ہوتے ہیں، سلمان اکرم راجا
  • ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
  • ’ڈیڑھ سال بعد میرا بیٹا واپس آرہا تھا مگر ظالموں نے میرے غریب بیٹے کو مار ڈالا‘
  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)
  • بلوچستان نیشنل پارٹی کے دھرنے کا سترھواں روز
  • بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار