زکوٰۃ کے چند اہم مسائل
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
سوال: ایک ہی چیز پر زکوٰۃ ہر سال اور بار بار ادا کرنا کیوں ضروری ہے؟
جواب: عبادات میں سے کچھ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہیں، جیسے حج۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’لوگوں پر یہ اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ (آل عمران: 97) ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، اس لیے حج کرو۔ ایک شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہر سال ؟ آپ نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دوں تو ہر سال فرض ہو جائے گا، لیکن پھر تم ہر سال نہیں کر سکو گے‘‘۔ ( مسلم)
لیکن کچھ عبادات وقت اور زمانے کے ساتھ فرض کی گئی ہیں، مثلاً نمازوں کی فرضیت مخصوص اوقات کے ساتھ ہے۔ جب بھی وہ اوقات آئیں گے، نماز فرض ہوگی۔ روزے کی فرضیت ماہِ رمضان کے ساتھ ہے۔ جب بھی رمضان آئے گا، روزہ رکھنا فرض ہوگا۔
اسی طرح زکوٰۃ کی فرضیت اس مال پر ہے جو مالک کے پاس ایک برس تک رہا ہو۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسولؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’مال میں اس وقت زکوٰۃ ہے جب اس پر ایک برس گزر جائے‘‘۔ (ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کسی مال پر ایک برس گزرے گا، اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
٭…٭…٭
سوال:کیا کسی غریب سید کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟
جواب: حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’صدقہ (یعنی زکوٰۃ) آل محمدؐ کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ لوگوں کا میل کچیل ہے‘‘۔ (مسلم)
اس سے فقہا نے یہ استنباط کیا ہے کہ سادات (یعنی خاندان بنو ہاشم) کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حرمت بنو ہاشم کے اعزاز و اکرام کی وجہ سے ہے۔
البتہ بعض فقہا کا خیال ہے کہ سادات (بنو ہاشم) کو زکوٰۃ دینے کی حرمت صرف عہدِ نبوی کے لیے تھی، جب مالِ غنیمت میں ’خْمس‘ یعنی پانچواں حصہ اللہ کے رسولؐ اور آپ کے خاندان والوں کے لیے خاص تھا۔ لیکن جب یہ حصہ ختم ہوگیا تو اب دوسرے غریب مسلمانوں کی طرح غریب سادات کو بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔
٭…٭…٭
سوال: کیا قرض دار کو بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟
جواب: قرآن مجید میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک ’غارمین‘ ہے۔ اس سے مراد قرض دار لوگ ہیں، یعنی وہ لوگ جو قرض کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں۔
قرض چاہے جس مقصد سے لیا گیا ہو، مکان بنانے کے لیے، یا تجارت کے لیے، یا علاج معالجہ کے لیے، یا بیٹی کی شادی کے لیے، یا کسی اور کام کے لیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی شخص پر بھاری قرض ہو، کوشش کے باوجود وہ اسے ادا نہ کرپا رہا ہو، تو اسلام کی نظر میں وہ اس بات کا مستحق ہے کہ دوسرے مال دار مسلمان اس کی مدد کریں۔ ایسے شخص کی مدد زکوٰۃ سے بھی کی جا سکتی ہے۔
٭…٭…٭
سوال: کیا زکوٰۃ کسی ضرورت مند کی شادی کے لیے دی جاسکتی ہے؟
جواب: زکوٰۃ کسی غریب کو اس کی کسی بھی ضرورت کے لیے دی جا سکتی ہے۔ اس کے گھر والے فاقے سے دوچار ہوں تو انھیں کھانے پینے کی چیزیں دی جا سکتی ہیں۔ اس کے پاس روزی کمانے کے لیے کچھ نہ ہو تو اسے کچھ مال دے کر روزگار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس کی لڑکی سیانی ہو رہی ہو اور بہت زیادہ غربت کی وجہ سے اس کی شادی نہ ہوپارہی ہو تو اس میں مدد کے لیے بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔
شادی میں مدد کے لیے زکوٰۃ نقد رقم کی صورت میں دی جا سکتی ہے اور کوئی سامان خرید کر بھی دیا جا سکتا ہے۔
آج کل شادیوں میں بہت زیادہ فضول خرچی کی جانے لگی ہے۔ مُسرفانہ رسوم و روایات پر عمل کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی ان رسوم سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسروں کو ان سے اجتناب کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ لیکن ان رسوم کی انجام دہی کے لیے زکوٰۃ دینی مناسب نہیں ہے۔ ہاں شادی کے ضروری مصارف کے لیے زکوٰۃ کے ذریعے تعاون کیا جا سکتا ہے۔
٭…٭…٭
سوال: کیا زکوٰۃ کی رقم کسی کو بغیر بتائے کہ یہ زکوٰۃ ہے، دی جاسکتی ہے؟
جواب: جس شخص کو زکوٰۃ دی جائے اسے بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے، بلکہ نہ بتانا بہتر ہے۔ زکوٰۃ کسی بھی نام سے دی جا سکتی ہے، جیسے ہدیہ،عیدی، بچوں کی ٹیوشن فیس۔
البتہ جو شخص زکوٰۃ دے رہا ہے اس کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے وقت اس کی نیت کرنی ضروری ہے۔
کوئی شخص کسی کو کچھ مال دے دے، پھر بعد میں اسے زکوٰۃ میں شمار کرنے لگے توایسا کرنا درست نہ ہوگا۔ اس سے اس کے ذمّے لازم زکوٰۃ ادا نہ سمجھی جائے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: زکو ۃ دی جا سکتی ہے اللہ کے رسول کے لیے زکو ۃ کو زکو ۃ ہر سال فرض ہو
پڑھیں:
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
سٹی 42 : پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دہائیوں کے اتحاد نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا بلکہ پاکستان کے 90فیصد مسائل کی وجہ یہی اتحاد ہے۔
اپنے بیان میں مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جو حکومت میں ہیں وہی ملک اور عوام کے مسائل کا سبب ہیں اور اچنبھے کی بات ہے عوام کو یہ امید دلائی جارہی ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے ،ملک اور عوام کی گھمبیر مشکلات کو اگر کوئی لیڈر حل کر سکتا ہے تو وہ صرف بانی پی ٹی آئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جب کسی تقریب میں پاکستان کے مسائل پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں تو عوام ان کے بہکاوے میں نہیں آتے بلکہ جھولیاں اٹھا کر دہائیوں سے حکومتیں کرنے والوں کو کوستے ہیں ۔
لاہور پریس کلب ہاؤسنگ سکیم ایف بلاک میں بجلی کی تنصیب کا افتتاح
انہوں نے کہا کہ عوام کا موجودہ حکمرانوں سے سوال ہے ملک کی ابتر صورتحال اور بد حالی کے ذمہ دار کون ہیں اور جب آپ سے بار بار یہ سوال پوچھا جائے تو آپ پیکا ایکٹ کا سہارا لے لیتے ہیں ،آج ساری قو م آپ سے اپنی بد حالی کا سوال پوچھ رہی ہے ۔
مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں،ان کے حل کیلئے دور اندیشی کے ساتھ دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جو موجودہ حکمرانوں کی بس کی بات نہیں ہے ۔
سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے: وزیر اطلاعات پنجاب