Jasarat News:
2025-04-16@22:45:59 GMT

سیّد المحدّثین امام بخاریؒ

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

قبل از رمضان شعبان المعظم کے مہینے میں ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے مدارس دینیہ میں نئے علما کرام بننے والوں کے اعزاز میں تکمیل بخاری شریف کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں درس نظامی، علوم نبویؐ کے فارغ التحصیل طلبا علمائے کرام کی صف میں شامل ہوتے ہیں اور ملک کے جید علما و مشائخ الحدیث صحیح بخاری کی آخری حدیث پر عالمانہ درس ارشاد فرماتے ہیں، فارغ ہونے والے طلبہ کی دستار بندی کی جاتی ہے، جس سے ایک جانب دینی علوم میں درس حدیث کی اہمیت، کتب حدیث میں امام بخاریؒ کی صحیح بخاری اور خود امام بخاری کی عظمت و جلالت کو بیان کیا جاتا ہے۔

امام المسلمین، امیر المومنین فی الحدیث، امام بخاریؒ اپنے زمانے میں حفظ و اتقان، معانی کتاب و سنت کے فہم، حافظے کی عمدگی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام محمد، ولدیت اسماعیل اور کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کے والدِ ماجد جلیل القدر عالم اور محدث تھے۔ انہیں امام مالکؒ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل تھا۔ آپ محمد اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزیہ ہیں۔ علامہ ابن حجرؒ نے بروزیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ آتش پرست تھے۔ اس سے آپ کا فارسی النسل ہونا ظاہر ہے۔ آپ کے پَردادا مغیرہ، حاکم بخارا، یمان الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد شہرِِ بخارا میں سکونت پذیر ہوئے۔ اسی وجہ سے امام بخاری کو الجعفی البخاری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والدِ ماجد اسماعیل اکابرِ محدثین میں سے ہیں۔ امّت میں یہ شرف کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ، بیٹے دونوں محدث ہوں۔ امام بخاریؒ بخارا میں پیدا ہوئے۔ کم سِنی ہی میں والد ماجد داغِ مفارقت دے گئے، تو آپ کی تربیت کی ذمّے داری والدہ محترمہ کے سر پر آگئی، جو نہایت ہی عبادت گزار اور شب بیدار خاتون تھیں۔ والدین کی علمی شان دین داری کے پیشِ نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاریؒ کی تعلیم و تربیت کس انداز سے ہوئی ہوگی۔ امام بخاری کو بچپن ہی سے قرآن و حدیث سے بے انتہا شغف تھا۔ احادیث کے حوالے سے ان کی عرق ریزی اور یادداشت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا، گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کی تخلیق صرف حدیث ِ رسول ہی کے لیے کی ہے۔ گیارہ برس کی عمر میں آپ کو متنِ حدیث اور اس کی سند پر پورا عبور حاصل ہوچکا تھا۔ جب کہ سولہ سال کی عمر میں عبد اللہ بن مبارک اور وکیع کے مجموعۂ احادیث کی تمام حدیثیں زبانی یاد ہوگئیں۔

امام بخاری نے والدہ محترمہ کی اجازت سے تحصیل علم کے لیے مکے میں سکونت اختیار کرلی اور وہاں دو برس تک ظاہری اور باطنی کمالاتِ علمی حاصل کیے۔ مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے مشاہیر محدثین کرام، مطرف بن عبداللہ، ابراہیم بن منذر، ابوثابت محمد بن عبیداللہ اور ابراہیم بن حمزہ جیسے بزرگوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ بلادِ حجاز میں چھے برس قیام کے بعد آپ نے بصرہ کا رخ فرمایا اور پھر کوفہ تشریف لے گئے۔ بغداد چونکہ عباسی حکومت کا پایۂ تخت رہا ہے۔ اس لیے اسے علوم و فنون کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ جیّد اکابرِ عصر بغداد میں جمع تھے۔ اس لیے امام بخاری نے متعدد بار وہاں کا سفر فرمایا۔ وہاں کے مشائخِ حدیث میں امام احمد بن حنبلؒ کا نام خصوصیت کا حامل ہے۔ امام بخاری نے روایتِ حدیث کے سلسلے میں دور دراز کے شہروں کا بھی سفر کیا۔ طلبِ حدیث کے لیے مصر، شام، بصرہ حجاز مقدّس، کوفہ اور بغداد بھی گئے۔ آپ کو جہاں سے بھی روایت ملتی اخذ کرلیتے۔

امام بخاریؒ نے صرف اپنی ذاتی تحقیق پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس زمانے کے بلند پایہ محدثین عظام اور ائمہ کرام سے اس کی صحت کاملہ کا مزید یقین محکم اورتصدیق کرواتے۔ لہٰذا ’’ھدی الساری‘‘ میں امام ابو جعفر عقیلی فرماتے ہیں،’’امام بخاری نے صحیح بخاری لکھ کر امام علی بن المدینی، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اور دیگر محدثین کرام کو پیش کیا، تو سب نے اسے پسند کیا اور علاوہ چار احادیث کے، اس کے درست اور مستند ہونے کی شہادت دی۔ امام عقیلی فرماتے ہیں کہ ان چار احادیث کے بارے میں امام بخاری کی بات ہی درست ہے۔ اس میں سب احادیث صحیح ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ، منہاج السنہ میں فرماتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم سے پہلے اور بعد کے جیّد نقادِ ائمہ نے بخاری و مسلم کی احادیث کو پرکھا اور جانچا ہے اور بے شمار لوگوں نے انہیں روایت کیا ہے۔ لہٰذا کسی حدیث کے روایت اور صحیح کہنے میں امام بخاری اور امام مسلم اکیلے نہ رہے، بلکہ پوری امّت کے علمائے محدثین، متقدمین اور متاخرین نے ان کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’امام بخاری اور امام مسلم کی تمام احادیث کی صحت، تصدیق اور تلقی بالقبول پر تمام علمائے محدثین کا اتفاق ہے اور اس میں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں۔ امام بدر الدین عینی حنفی، عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید کے بعد بخاری و مسلم سے زیادہ صحیح کتاب کوئی نہیں ہے۔ مقدمہ نووی میں امام نووی فرماتے ہیں: ’’تمام علمائے امّت اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتابیں بخاری و مسلم ہیں اور امّت نے انہیں شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ بلاشبہ، جب کبھی اختلاف ہوگا، تو بخاری و مسلم کی روایت محض اس لیے قوی تر اور مقدم سمجھی جائیں گی کہ وہ صحیحین کی روایت ہیں۔

امام بخاریؒ نے بیس سال کی عمر میں بخاری شریف کی ترتیب و تدوین کا آغازکیا۔ آپ نے اس ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، ذکاوت اور حفظ ہی کا سرمایہ خرچ نہیں کیا، بلکہ اس شان سے آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ فرماتے، تو پہلے غسل فرماتے اور دو رکعت نفل پڑھتے، جب آپ کو اس کی صحت کا یقین ہوجاتا، تو وہ حدیث بخاری شریف میں تحریر فرماتے۔ غالباً اس بزم آب و گل میں آج تک اس انداز سے کسی مصنّف نے تصنیف و تالیف نہ کی ہوگی۔ آپ نے چھے لاکھ احادیث میں سے صحیح اور مستند احادیث منتخب فرمائیں۔ سخت محنت اور عرق ریزی کے سولہ برسوں میں یہ کتاب تکمیل سے آراستہ ہوئی اور ایک ایسی کتاب عالمِ وجود میں آگئی، جس کا لقب بلا کم و کاست قرآن مجید کے بعد دنیا میں سب کتابوں میں مستند ترین قرار پائی۔ امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام ’’جامع الصحیح‘‘ رکھا، لیکن جلد ہی یہ کتاب صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہوگئی۔

امام بخاری کے شاگرد خاص محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب فرماتے تھے کہ ’’میں اس وقت تک درسِ حدیث کے لیے نہیں بیٹھا، جب تک کہ میں صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے ممتاز اور اہل الرائے کی کتابوں کے مطالعے کے ساتھ ساتھ متن حدیث پر پوری طرح عبور حاصل نہ کرلیتا۔ آپ کی مجالس، عرب، ایران اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں، جہاں امام بخاری کے تلامذہ سلسلہ بہ سلسلہ نہ پہنچے ہوں۔ آپ کے درس کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ حضورؐ کے ارشادات سننے کے لیے میلوں پیدل چل کر امام بخاری کی مجلس میں شریک ہوتے۔

امام بخاری کی زندگی کا اکثر حصہ احادیث کی تلاش میں شہر در شہر سفر میں گزرا اور انہیں کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کام کرنے کا بہت کم موقع میسّر آیا۔ اس کے باوجود صحیح بخاری کے علاوہ آپ کی بائیس تصانیف ہیں، جن میں سے کئی مستند علمی ذخیرے کا درجہ رکھتی ہیں۔ امام بخاری کے والد انتہائی امیر شخص تھے اور آپ کو والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی، لیکن اس آسودہ حالی سے آپ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا۔ جو آمدنی ہوتی، اس سے غریب و نادار طلبا کی امداد کرتے۔ غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنا سرمایہ مضاربت پر دے رکھا تھا۔ کاروبار سے علیٰحدہ رہتے، تاکہ سکونِ قلب سے خدمت حدیث نبوی کرسکیں۔ باوجود اس کے ایّام طالب علمی میں آپ نے بے انتہا مشقّتیں برداشت کیں اور کسی مرحلے پر بھی صبر و شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

ایک دفعہ کسی نے آپ کے آٹھ ہزار درہم دبالیے، جب ملاقات ہوئی، تو شاگردوں نے کہا کہ ’’وہ شخص آپہنچا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’قرض دار کو پریشانی میں ڈالنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ آپ کے پاس تجارت کا سامان پہنچا، تاجروں کو پتا چلا تو وہ سامان خریدنے کے لیے آپ کے پاس پہنچ گئے اور پانچ ہزار درہم کی پیش کش کی۔ آپ نے فرمایا کہ رات کو آنا۔ شام کو دوسرے تاجر آگئے، انہوں نے وہ سامان خریدنے کے لیے دس ہزار درہم کی پیش کش کردی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میں پہلے گروہ کے ساتھ فروخت کی نیّت کرچکا ہوں، اب پانچ ہزار کی خاطر اپنی نیّت بدلنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد آپ نے وہ مال پہلے تاجروں کے گروہ کو فروخت کردیا۔

جب اہل بخارا کو معلوم ہوا کہ امام بخاری واپس بخارا لوٹ آئے ہیں تو انہیں بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے بڑے اہتمام اور شان و شوکت سے آپ کا استقبال کیا۔ امام بخاری نے وہاں حلقہ درس قائم کیا اور اطمینان سے درس و تدریس میں مصروف ہوگئے، لیکن حاسدین نے یہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ خلافتِ عباسیہ کے نائب خالد احمد ذیلی، والی بخارا کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ’’امام بخاری سے کہیے کہ وہ آپ کے صاحب زادوں کو گھر آکر پڑھایا کریں۔ والی بخارا نے آپ سے یہ فرمائش کی، تو آپ نے فرمایا ’’میں علم کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل کرنا نہیں چاہتا، جسے پڑھنا ہو، وہ میرے درس میں آجائے۔ اس پر والی بخارا نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے، اگر میرا بیٹا آپ کے درس میں آئے، تو وہ عام طلبا کے ساتھ نہیں بیٹھے گا، اْسے علیحدہ پڑھانا ہوگا۔ امام بخاری نے فرمایا: ’’میں کسی شخص کو احادیثِ رسول سننے سے نہیں روک سکتا‘‘۔ دنیا کے مختلف شہروں اور علوم و فنون کے مراکز میں احادیثِ رسول اور علوم نبوی کی ترویج و اشاعت میں زندگی گزارنے والے حدیث کا امام اور آفتابِ حدیث خرتنگ کی زمین میں اترگیا۔ عید کی شب آپ انتقال فرما گئے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امام بخاری کی ا پ نے فرمایا فرماتے ہیں بخاری اور بخاری کے کہ امام حدیث کے کے بعد ہیں کہ کی صحت اور ام کے لیے

پڑھیں:

ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔

عظیم کامیڈین کی 13 ویں برسی پر تحریر

‘ دوست چھوڑ گئے، حکومت کی طرف سے وعدے اور باتیں ہیں، بس موت کے دن گن رہا ہوں’ یہ الفاظ تھےآبدیدہ ہوتے ببو برال کے جو انہوں نے اپنی موت سے چند ماہ قبل ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔ دل برداشتہ ببو برال کا کہنا تھا کہ چند مخیر سینئر فنکار ان کا علاج کراسکتے ہیں لیکن لوگ مرنا بھول گئے ہیں۔

جوکمایا خرچ کردیا، علاج کے لیے رقم نہیں، کیا دکھڑا سناؤں، مجھ سے زیادہ دکھی روتے پھرتے ہیں۔ آنکھیں اشکبار ہوئیں تو یہ گنگناتےہوئے دل کا حال بیان کیا کہ ” جب بھی چاہیں ایک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ “۔ عظیم کامیڈین کا دل ریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔

کبھی کبھار کوئی ٹی وی چینل یہ خبر شامل کرلیتا کہ اسٹیج کی دنیا کے ہرفن مولا کامیڈین ببوبرال کی صحت میں بہتری آنے لگی۔ پرستاروں سے دعائے صحت کی اپیل کی ہے۔ ایسے میں لاغر، کمزور اور نحیف ببو برال کی بستر علالت سے ایک ہنستی مسکراتی تصویر تو نشرکی جاتی لیکن اس ایک تصویر کے اندر چھپے ان گنت درد اور تکلیف کی جھلک نمایاں رہتی۔

ابھی ببو برال نے عمر کی پچاس بہاریں بھی نہیں دیکھی تھیں کہ پہلے جگر کےکینسر اور پھر گردوں اور شوگر کے امراض سے جنگ لڑنے لگے۔ اس علالت کے باوجود جہاں انہیں صحت اور وقت اجازت دیتا وہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر اپنے فن کا اظہار کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے۔

یہ بھی اپنی جگہ منفرد اعزاز ہی ہوگا کہ ایک ایسا فنکار جو کئی بیماریوں میں گھرا ہوا تھا جب جب پرستاروں کے لیے منظر عام پر آتا تو طنز و مزاح ایسے کرتا کہ ہنستی مسکراتی آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے۔ پل بھر کو ببو برال بھی اپنی بیماریاں بھول بیٹھتے اور بچوں کی طرح داد ملنے پرچہرے کی خوشی اور مسرت دیکھنے سے تعلق رکھتی۔

بھلا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ گوجرانوالہ کے چھوٹے سے قصبے گکھڑ منڈی میں جنم لینے والا یہ باہمت نوجوان اپنے اصل نام ایوب اختر کی بجائے ببو برال سے کامیڈی کے افق پر جھلمائے گا۔ حس مزاح اور برجستہ مکالمہ بازی ایسی کہ ایک جملے پر آپ مسکراتے تو اگلا جملہ اس سے زیادہ کھکھلانے پر مجبور کردیتا۔

ببوبرال ابتدا سے حاضرجوابی اور شگوفہ بیانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ 1982 میں گوجرانوالہ سے ہی اپنے سفر کی شروعات کی لیکن پھر احساس ہوا کہ اگر اپنے شہر تک محدود رہیں گے تو ممکن ہے کہ شہرت اور کامیابی سے کوسوں دور رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قسمت اور نام بنانے کے لیے لاہور کا رخ کیا۔ خوش نصیبی یہ ٹھہری کہ جمیل فخری سے ملاقات ہوگئی۔ جنہیں اس نوجوان کی برجستگی بھاگئی جبھی انہوں نے سب سے پہلے ببو برال کو اسٹیج پر موقع دیا۔

دیکھا جائے تو ببو برال نے اس ملنے والے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسٹیج ڈراموں میں مستانہ، امان اللہ، خالد عباس ڈار اور سہیل احمد کی موجودگی کے باوجود اپنی جگہ خودبنائی۔ اسٹیج ڈراموں میں تماشائی ان لمحات کا بے چینی اور بے صبری سے انتظار کرتے جب ببو برال کی انٹری ہوتی۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا۔ ان کے ایک ایک جملے پر قہقہے ہی قہقہے ملتے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ ببو برال تن تنہا اسٹیج ڈراموں کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی جوڑی مستانہ کے ساتھ خوب جچی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر ڈراموں میں مستانہ کی موجودگی ہوتی تو دونوں کے درمیان ایسی برجستہ جملے بازی ہوتی کہ گھنٹوں ہال میں بس تالیاں ہی تالیاں بج رہی ہوتیں۔

یہ ہنرببو برال میں تھا کہ وہ ایک بہترین کامیڈین ہی نہیں گلوکار، ہدایتکار اور لکھاری بھی تھے۔

جس طرح عمر شریف کی زندگی میں ” بکرا قسطوں پے” سنگ میل بن گیا تھا۔ اسی طرح ببو برال کے لیے ” شرطیہ مٹھے ” وہ اسٹیج ڈرامہ ثابت ہوا جس نے ان کے کیرئیر کو ایک نئی شناخت دی۔

صرف یہی ڈرامہ کیا ان کا ” ٹوپی ڈرامہ، بیوی نمبر ون اور عاشقوں غم نہ کرنا” نے جیسے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ کردیا۔ یہی وجہ ہے اسٹیج ڈراموں کی شہرت انہیں فلموں تک کھینچ لائی۔ کوئی پچاس کے قریب فلمیں ہیں جن میں ببو برال بطور کامیڈین شامل ہوئے۔ ان میں مجھے چاند چاہیے، نو پیسہ نو پرابلم، کڑیوں کو ڈالے دانا، نکی جئی ہاں سمیت کئی ہٹ فلمیں شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم 2010 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم” چناں سچی مچی” تھی۔

ہنستا مسکراتا یہ فن کار پاکستان ہی نہیں سرحد کے اس پار یعنی بھارت میں ہی مقبول رہا۔ جہاں کے کئی کامیڈی اسٹیج شوز میں انہوں نے اپنے فن کا اظہار کیا۔ ببوبرال نے بطور گلوکار اپنی آڈیو البم ’’بیتیاں رتاں‘‘ بھی ریلیز کی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ہرفن مولا فنکار ہیں۔

دیکھا جائے تو ببو برال کا فنی سفر تین دہائیوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے 30 سال تک سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اپنے غم اور دکھ درد کو بھلا کر ہر چہرے پر مسکان لانے کا سبب بنے۔ ببو برال کی خوبی یہ بھی تھی کہ اسٹیج پر قوالی بھی بہت اچھے انداز میں پیش کرتے اور اگر ان کے ساتھ انور علی، شوکی خان اور دوسرے فنکار ہوتے تو جیسے اس قوال میں رنگ بھر آتا۔

ببو برال کا یہ فنی سفر جاری تھا کہ 2009 کے آس پاس وہ کئی بیماریوں کا شکار ہونے لگے۔ شوگر ہوئی پھر گردے کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ اور کینسر بھی حملہ آور ہوا۔ ان بیماریوں نے اس ہنس مکھ فنکار کو جیسے مرجھا دیا۔ ڈاکٹروں نے گینگرین کی وجہ سے اُن کے بائیں پاؤں کی تین انگلیاں آپریشن کے ذریعے کاٹ دیں تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں چلنے پھرنے میں مشکل آتی۔ ڈاکٹروں نے اُن کی ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن غنودگی کی وجہ سے یہ آپریشن نہیں کیا جا سکا۔

ببو برال کے علاج کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات تو بہت ہوئے لیکن اپنے اخباری انٹرویو میں انہوں نے بتادیا کہ یہ صرف ‘اعلانات’ کی حد تک محدود تھے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ فنکاروں کے حلقہ احباب نے بھی ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ روایتی بے حسی کی وجہ سے ببو برال 16 اپریل 2011 کو خاموشی سے اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔

یہ المناک داستان کا اختتام نہیں بلکہ ببو برال کی موت کے 8 سال بعد بعد ان کی صاحبزادی مریم پر بھی دکھوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جنہوں نے لاہور کے مقامی تھانے میں یہ رپورٹ درج کرائی کہ شوہر ساقی خان مار پیٹ کرتا ہے، تشدد کے باعث وہ اپنا نومولود بیٹا بھی گنوا بیٹھی ہےجبکہ تشدد سے چہرے اور بازو پر نشانات بھی آئے ہیں۔ اور پھر رواں برس ببو برال کے بیٹے نبیل برال نے مالی امداد کے لیے حکومت سے اپیل کردی۔ مرحوم اداکار ببو برال کے بیٹے نبیل برال کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس میں نبیل برال کا ایک بازو نہیں اور دونوں ٹانگیں بھی زخمی ہیں۔ نبیل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے کمانے والے اکلوتے مرد ہیں۔ والدہ اور بہنیں بھی ہیں۔ حکومتی اتھارٹی، این جی او یا کوئی اور مدد کرے۔ کیونکہ ان کا ایک بازو حادثے میں کٹ گیا تھا توہ وہ معزوری کا سامنا کررہے ہیں۔ دونوں ٹانگیں جلی ہوئی ہیں۔ چل پھر بھی نہیں سکتے۔ اب اسے بےحسی ہی کہیے کہ اب تک نبیل برال کی مدد کے لیے کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ببوبرال ساری عمر خود بھی دکھوں اور بیماریوں سے گھمسان کی جنگ لڑتے رہے اور اب ان کی اولاد بھی پریشانی اور مالی دشواریوں سے دوچار ہے۔ کامیڈین ببو برال کو گزرے کم و بیش تیرہ سال بیت گئے ہیں اور ان برسوں میں کوئی ایسا فنکار نہیں جو ان کا متبادل ثابت ہوسکے۔ آخر کسی فنکار کا کوئی متبادل ہو سکتا ہے، بھلا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اگر آپ بچیں گے تو
  • جمعرات کو پنجاب میں 3 روزہ ثقافت دیہاڑ منایا جا رہا ہے، عظمیٰ بخاری
  • ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔
  • تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نیا تھیٹر ایکٹ لانا چاہتے ہیں: عظمیٰ بخاری
  • علامہ شبیر حسن میثمی کا دورہ راجن پور
  • علامہ شبیر حسن میثمی کا دورہ راجن پور، مختلف علاقوں میں مساجد و امام بارگاہوں کا افتتاح 
  • امام جعفر صادق (ع) کی حیات طیبہ عالم بشریت کیلئے مشعل راہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • عظمی بخاری نے آفرین خان کو معاف کر دیا
  • اگر وقف اراضی کا صحیح استعمال کیا جاتا تو مسلم نوجوان پنکچر نہ بناتے، نریندر مودی
  • فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی