Jasarat News:
2025-02-19@01:56:52 GMT

سیّد المحدّثین امام بخاریؒ

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

قبل از رمضان شعبان المعظم کے مہینے میں ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے مدارس دینیہ میں نئے علما کرام بننے والوں کے اعزاز میں تکمیل بخاری شریف کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں درس نظامی، علوم نبویؐ کے فارغ التحصیل طلبا علمائے کرام کی صف میں شامل ہوتے ہیں اور ملک کے جید علما و مشائخ الحدیث صحیح بخاری کی آخری حدیث پر عالمانہ درس ارشاد فرماتے ہیں، فارغ ہونے والے طلبہ کی دستار بندی کی جاتی ہے، جس سے ایک جانب دینی علوم میں درس حدیث کی اہمیت، کتب حدیث میں امام بخاریؒ کی صحیح بخاری اور خود امام بخاری کی عظمت و جلالت کو بیان کیا جاتا ہے۔

امام المسلمین، امیر المومنین فی الحدیث، امام بخاریؒ اپنے زمانے میں حفظ و اتقان، معانی کتاب و سنت کے فہم، حافظے کی عمدگی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام محمد، ولدیت اسماعیل اور کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کے والدِ ماجد جلیل القدر عالم اور محدث تھے۔ انہیں امام مالکؒ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل تھا۔ آپ محمد اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزیہ ہیں۔ علامہ ابن حجرؒ نے بروزیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ آتش پرست تھے۔ اس سے آپ کا فارسی النسل ہونا ظاہر ہے۔ آپ کے پَردادا مغیرہ، حاکم بخارا، یمان الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد شہرِِ بخارا میں سکونت پذیر ہوئے۔ اسی وجہ سے امام بخاری کو الجعفی البخاری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والدِ ماجد اسماعیل اکابرِ محدثین میں سے ہیں۔ امّت میں یہ شرف کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ، بیٹے دونوں محدث ہوں۔ امام بخاریؒ بخارا میں پیدا ہوئے۔ کم سِنی ہی میں والد ماجد داغِ مفارقت دے گئے، تو آپ کی تربیت کی ذمّے داری والدہ محترمہ کے سر پر آگئی، جو نہایت ہی عبادت گزار اور شب بیدار خاتون تھیں۔ والدین کی علمی شان دین داری کے پیشِ نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاریؒ کی تعلیم و تربیت کس انداز سے ہوئی ہوگی۔ امام بخاری کو بچپن ہی سے قرآن و حدیث سے بے انتہا شغف تھا۔ احادیث کے حوالے سے ان کی عرق ریزی اور یادداشت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا، گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کی تخلیق صرف حدیث ِ رسول ہی کے لیے کی ہے۔ گیارہ برس کی عمر میں آپ کو متنِ حدیث اور اس کی سند پر پورا عبور حاصل ہوچکا تھا۔ جب کہ سولہ سال کی عمر میں عبد اللہ بن مبارک اور وکیع کے مجموعۂ احادیث کی تمام حدیثیں زبانی یاد ہوگئیں۔

امام بخاری نے والدہ محترمہ کی اجازت سے تحصیل علم کے لیے مکے میں سکونت اختیار کرلی اور وہاں دو برس تک ظاہری اور باطنی کمالاتِ علمی حاصل کیے۔ مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے مشاہیر محدثین کرام، مطرف بن عبداللہ، ابراہیم بن منذر، ابوثابت محمد بن عبیداللہ اور ابراہیم بن حمزہ جیسے بزرگوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ بلادِ حجاز میں چھے برس قیام کے بعد آپ نے بصرہ کا رخ فرمایا اور پھر کوفہ تشریف لے گئے۔ بغداد چونکہ عباسی حکومت کا پایۂ تخت رہا ہے۔ اس لیے اسے علوم و فنون کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ جیّد اکابرِ عصر بغداد میں جمع تھے۔ اس لیے امام بخاری نے متعدد بار وہاں کا سفر فرمایا۔ وہاں کے مشائخِ حدیث میں امام احمد بن حنبلؒ کا نام خصوصیت کا حامل ہے۔ امام بخاری نے روایتِ حدیث کے سلسلے میں دور دراز کے شہروں کا بھی سفر کیا۔ طلبِ حدیث کے لیے مصر، شام، بصرہ حجاز مقدّس، کوفہ اور بغداد بھی گئے۔ آپ کو جہاں سے بھی روایت ملتی اخذ کرلیتے۔

امام بخاریؒ نے صرف اپنی ذاتی تحقیق پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس زمانے کے بلند پایہ محدثین عظام اور ائمہ کرام سے اس کی صحت کاملہ کا مزید یقین محکم اورتصدیق کرواتے۔ لہٰذا ’’ھدی الساری‘‘ میں امام ابو جعفر عقیلی فرماتے ہیں،’’امام بخاری نے صحیح بخاری لکھ کر امام علی بن المدینی، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اور دیگر محدثین کرام کو پیش کیا، تو سب نے اسے پسند کیا اور علاوہ چار احادیث کے، اس کے درست اور مستند ہونے کی شہادت دی۔ امام عقیلی فرماتے ہیں کہ ان چار احادیث کے بارے میں امام بخاری کی بات ہی درست ہے۔ اس میں سب احادیث صحیح ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ، منہاج السنہ میں فرماتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم سے پہلے اور بعد کے جیّد نقادِ ائمہ نے بخاری و مسلم کی احادیث کو پرکھا اور جانچا ہے اور بے شمار لوگوں نے انہیں روایت کیا ہے۔ لہٰذا کسی حدیث کے روایت اور صحیح کہنے میں امام بخاری اور امام مسلم اکیلے نہ رہے، بلکہ پوری امّت کے علمائے محدثین، متقدمین اور متاخرین نے ان کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’امام بخاری اور امام مسلم کی تمام احادیث کی صحت، تصدیق اور تلقی بالقبول پر تمام علمائے محدثین کا اتفاق ہے اور اس میں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں۔ امام بدر الدین عینی حنفی، عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید کے بعد بخاری و مسلم سے زیادہ صحیح کتاب کوئی نہیں ہے۔ مقدمہ نووی میں امام نووی فرماتے ہیں: ’’تمام علمائے امّت اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتابیں بخاری و مسلم ہیں اور امّت نے انہیں شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ بلاشبہ، جب کبھی اختلاف ہوگا، تو بخاری و مسلم کی روایت محض اس لیے قوی تر اور مقدم سمجھی جائیں گی کہ وہ صحیحین کی روایت ہیں۔

امام بخاریؒ نے بیس سال کی عمر میں بخاری شریف کی ترتیب و تدوین کا آغازکیا۔ آپ نے اس ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، ذکاوت اور حفظ ہی کا سرمایہ خرچ نہیں کیا، بلکہ اس شان سے آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ فرماتے، تو پہلے غسل فرماتے اور دو رکعت نفل پڑھتے، جب آپ کو اس کی صحت کا یقین ہوجاتا، تو وہ حدیث بخاری شریف میں تحریر فرماتے۔ غالباً اس بزم آب و گل میں آج تک اس انداز سے کسی مصنّف نے تصنیف و تالیف نہ کی ہوگی۔ آپ نے چھے لاکھ احادیث میں سے صحیح اور مستند احادیث منتخب فرمائیں۔ سخت محنت اور عرق ریزی کے سولہ برسوں میں یہ کتاب تکمیل سے آراستہ ہوئی اور ایک ایسی کتاب عالمِ وجود میں آگئی، جس کا لقب بلا کم و کاست قرآن مجید کے بعد دنیا میں سب کتابوں میں مستند ترین قرار پائی۔ امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام ’’جامع الصحیح‘‘ رکھا، لیکن جلد ہی یہ کتاب صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہوگئی۔

امام بخاری کے شاگرد خاص محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب فرماتے تھے کہ ’’میں اس وقت تک درسِ حدیث کے لیے نہیں بیٹھا، جب تک کہ میں صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے ممتاز اور اہل الرائے کی کتابوں کے مطالعے کے ساتھ ساتھ متن حدیث پر پوری طرح عبور حاصل نہ کرلیتا۔ آپ کی مجالس، عرب، ایران اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں، جہاں امام بخاری کے تلامذہ سلسلہ بہ سلسلہ نہ پہنچے ہوں۔ آپ کے درس کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ حضورؐ کے ارشادات سننے کے لیے میلوں پیدل چل کر امام بخاری کی مجلس میں شریک ہوتے۔

امام بخاری کی زندگی کا اکثر حصہ احادیث کی تلاش میں شہر در شہر سفر میں گزرا اور انہیں کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کام کرنے کا بہت کم موقع میسّر آیا۔ اس کے باوجود صحیح بخاری کے علاوہ آپ کی بائیس تصانیف ہیں، جن میں سے کئی مستند علمی ذخیرے کا درجہ رکھتی ہیں۔ امام بخاری کے والد انتہائی امیر شخص تھے اور آپ کو والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی، لیکن اس آسودہ حالی سے آپ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا۔ جو آمدنی ہوتی، اس سے غریب و نادار طلبا کی امداد کرتے۔ غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنا سرمایہ مضاربت پر دے رکھا تھا۔ کاروبار سے علیٰحدہ رہتے، تاکہ سکونِ قلب سے خدمت حدیث نبوی کرسکیں۔ باوجود اس کے ایّام طالب علمی میں آپ نے بے انتہا مشقّتیں برداشت کیں اور کسی مرحلے پر بھی صبر و شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

ایک دفعہ کسی نے آپ کے آٹھ ہزار درہم دبالیے، جب ملاقات ہوئی، تو شاگردوں نے کہا کہ ’’وہ شخص آپہنچا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’قرض دار کو پریشانی میں ڈالنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ آپ کے پاس تجارت کا سامان پہنچا، تاجروں کو پتا چلا تو وہ سامان خریدنے کے لیے آپ کے پاس پہنچ گئے اور پانچ ہزار درہم کی پیش کش کی۔ آپ نے فرمایا کہ رات کو آنا۔ شام کو دوسرے تاجر آگئے، انہوں نے وہ سامان خریدنے کے لیے دس ہزار درہم کی پیش کش کردی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میں پہلے گروہ کے ساتھ فروخت کی نیّت کرچکا ہوں، اب پانچ ہزار کی خاطر اپنی نیّت بدلنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد آپ نے وہ مال پہلے تاجروں کے گروہ کو فروخت کردیا۔

جب اہل بخارا کو معلوم ہوا کہ امام بخاری واپس بخارا لوٹ آئے ہیں تو انہیں بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے بڑے اہتمام اور شان و شوکت سے آپ کا استقبال کیا۔ امام بخاری نے وہاں حلقہ درس قائم کیا اور اطمینان سے درس و تدریس میں مصروف ہوگئے، لیکن حاسدین نے یہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ خلافتِ عباسیہ کے نائب خالد احمد ذیلی، والی بخارا کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ’’امام بخاری سے کہیے کہ وہ آپ کے صاحب زادوں کو گھر آکر پڑھایا کریں۔ والی بخارا نے آپ سے یہ فرمائش کی، تو آپ نے فرمایا ’’میں علم کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل کرنا نہیں چاہتا، جسے پڑھنا ہو، وہ میرے درس میں آجائے۔ اس پر والی بخارا نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے، اگر میرا بیٹا آپ کے درس میں آئے، تو وہ عام طلبا کے ساتھ نہیں بیٹھے گا، اْسے علیحدہ پڑھانا ہوگا۔ امام بخاری نے فرمایا: ’’میں کسی شخص کو احادیثِ رسول سننے سے نہیں روک سکتا‘‘۔ دنیا کے مختلف شہروں اور علوم و فنون کے مراکز میں احادیثِ رسول اور علوم نبوی کی ترویج و اشاعت میں زندگی گزارنے والے حدیث کا امام اور آفتابِ حدیث خرتنگ کی زمین میں اترگیا۔ عید کی شب آپ انتقال فرما گئے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امام بخاری کی ا پ نے فرمایا فرماتے ہیں بخاری اور بخاری کے کہ امام حدیث کے کے بعد ہیں کہ کی صحت اور ام کے لیے

پڑھیں:

آئینہ انکو دکھایا تو برا مان گئے، عظمی ٰبخاری کا شرجیل میمن کی پریس کانفرنس پر ردعمل

وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئینہ انکو دکھایا تو برا مان گئے، صوبائیت کارڈ کھیلنا آپکی پرانی عادت ہے۔

اپنے ایک بیان میں عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سندھ میں تمام بڑے پروجیکٹ وفاق کی مدد سے چل رہے ہیں، مسلسل شعلہ انگیزیاں آپ اور آپکے لوگ دے رہے ہیں، ہمیں تو کبھی کبھی جواب دینا پڑ جاتا ہے تو آپ خفا ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں ہم نے کبھی سیاست نہیں کی، کیا ہر معاملے میں چچا بھتیجی کا ذکر کرنا سیاست نہیں؟ ہماری مجبوری ہے کھل کر آپکو جواب بھی نہیں دے سکتے، ورنہ سندھ کے بلدیاتی الیکشن سے لے کر بہت ساری کہانیاں ہمارے پاس بھی موجود ہیں۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں کوئی منصوبہ ایک سال میں مکمل ہوجائے تو آپ تڑپنا شروع کردیتے ہیں، سندھ میں جانور بندھے سکولوں اور ٹرانسپورٹ کا رونا سالوں سے لوگ رو رہے ہیں، اپنی حکومت کی 16 سال کی کارکردگی اور مریم نواز کی 1 سال کی کارکردگی کا جب دل چاہے معائنہ کرلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو جماعت 16 سال سے کراچی کا کچرا نہیں اٹھا سکی وہ ہمیں لیکچر نہ دے، اگر اپ کو کبھی صفائی اور خوبصورت سڑکیں دیکھنے کا شوق ہو تو لاہور لازمی چکر لگائیں۔

متعلقہ مضامین

  • جیل کاٹنے والوں کو کندن بنا کر رکھ دیتی ہے، خواجہ سعد رفیق
  • امام بخاریؒ ایک نابغہ روز گار محدث
  • امام ترمذی ایک منفرد محدث و محقق
  • شرجیل میمن اور عظمیٰ بخاری آمنے سامنے آگئے
  • شرجیل میمن کی پریس کانفرنس پر عظمیٰ بخاری کا شدید ردعمل
  •  آئینہ انکو دکھایا تو برا مان گئے، عظمی بخاری کا شرجیل میمن کی پریس کانفرنس پر ردعمل
  • آئینہ انکو دکھایا تو برا مان گئے، عظمی بخاری کا شرجیل میمن کی پریس کانفرنس پر ردعمل
  • آئینہ انکو دکھایا تو برا مان گئے، عظمی ٰبخاری کا شرجیل میمن کی پریس کانفرنس پر ردعمل
  • ملک میں صحیح جمہوریت اور فلاحی ریاست کی ضرورت ہے
  • ڈمپرز روزانہ کراچی کے شہریوں کو مار رہے ہیں کیا وہ بھی وفاق کا مسئلہ ہے؟ عظمیٰ بخاری