عدالت عالیہ ایم ڈی کیٹ پالیسی نہ بنانے پر سندھ حکومت پر برہم
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
کراچی ( اسٹاف رپورٹر)یم ڈی کیٹ کے امیدواروں کی سوالنامے کے اجراء کی درخواست‘عدالت نے سندھ حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی۔سندھ ہائیکورٹ میں ایم ڈی کیٹ کے امیدواروں کی سوالنامے کے اجرا کی درخواست کی سماعت ہوئی جہاں سندھ حکومت کی جانب سے ایم ڈی کیٹ سے متعلق تاحال پالیسی نا بنانے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا ، پی ایم ڈی سی کی جانب سے جواب عدالت میں جمع کرایا گیا جس میں کہا گیا کہ ایم ڈی کیٹ امتحان میں پی ایم ڈی سی کا کوئی کردار نہیں ہے ،آئی بی اے سکھر اور سندھ حکومت کے درمیان معاہدے کی کاپی عدالت میں پیش کی گئی حکومت سندھ کے وکیل کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت نے تاحال اس حوالے سے کوئی پالیسی ہے،عدالت کاکہنا تھا کہ اگر قانون بنایا گیا ہے تو بچوں سے ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ کیسے لیا جائے گا، میکنزم کیوں نہیں بنایا گیا؟عدالت نے سندھ حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی ،درخواست گزار کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کو ریلیف سکھر آئی بی اے اور سندھ ٹیسٹنگ سروس نے فراہم کرنا ہے، ہم نے درخواست کے فیصلے تک نتائج جاری نا کرنے کی استدعا کی ہے، ایم ڈی کیٹ کے جوابات کی شیٹ فراہم کی گئی لیکن سوالنامہ فراہم نہیں کیا گیا، سوالنامہ کے بغیر سوالات کی جانچ ممکن نہیں ہے،ایم ڈی کیٹ میں غلطی یا سلیبس سے باہر کے سوالات کی موجودگی ممکن ہے، ایم ڈی کیٹ میں ہونے والی ماضی کی بے ضابطگیوں کے باعث امیدواروں کو خدشات ہیں، پنجاب، کے پی میں ایم ڈی کیٹ امیدواروں کو جوابات کی شیٹ کے ساتھ سوالنامے کی کاپی فراہم کی گئی،اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی سوالنامہ جاری کرنے کا حکم دیا ہے، سوالنامہ جاری کرنے اور تصدیق تک ایم ڈی کیٹ کے حتمی نتائج جاری کرنے سے روکا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ حکومت ایم ڈی کیٹ ڈی کیٹ کے
پڑھیں:
ملکی سالمیت کی پالیسی ایوانوں میں نہیں، بند کمروں میں بنائی جارہی ہے، مولانا فضل الرحمان
ملکی سالمیت کی پالیسی ایوانوں میں نہیں، بند کمروں میں بنائی جارہی ہے، مولانا فضل الرحمان WhatsAppFacebookTwitter 0 17 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی موجود نہیں، ملکی سالمیت کی پالیسی پالیسی ایوانوں میں نہیں بنائی جا رہی بلکہ بند کمروں میں بنائی جا رہی ہے، ملک میں خاص اسٹیبلشمنٹ جو چاہے فیصلہ کرلے، حکومت کو اس پر انگوٹھا لگانا ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایوان میں ایسی قانون سازی بھی دیکھی جو بغیر کاروائی منظور ہوئی، اس ایوان میں اضطراب اور ہنگامہ آرائی کو سال ہوگیا، ہمارا نکتہ نظر کوئی سننے کو تیار نہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت چاہے نہ چاہے ایوان کو احسن طریقے سے چلانا اسپیکر کی ذمہ داری ہے، پورا ملک اس وقت اضطراب میں مبتلا ہے، عام آدمی کے پاس روزگار نہیں، محکمہ اور ادارے ملیامیٹ کیے جارہے ہیں، لاکھوں لوگ بے روزگار ہورہے ہیں، حکومت عوام کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہے تو پارلیمنٹ میں بات ہوتی ہے، حکومت ایک سال سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ملکی سالمیت کا مسلہ ہے، بار بار بات کررہا ہوں، ہمیں ریاست کی بقا کی بات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہم ان سے لڑ رہے ہیں، ہمیں ادراک ہونا چاہیئے کہ 2 صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جو ہورہا ہے وزیراعظم شاید اس سے لاعلم ہیں، افغانستان ہمارے جرگے جاتے تھے اب حکومت کو کچھ علم نہیں، ملک میں کوئی سیاسی بات نہیں اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے بات کرتی ہے، ہم سے تو بس انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں، ہمیں پارلیمان میں فیصلے کرنے ہیں، میرے علاقے میں بعض مقامات کو پولیس تو چھوڑیں آرمی بھی خالی کرگئی، ان علاقوں میں کس کا راج ہے؟
مونالا فضل الرحمان نے کہا کہ بلوچستان کے اضلاع ابھی آزادی کا اعلان کریں تو اقوام متحدہ ان کی درخواست قبول کرلے، میری باتیں بڑی سنجیدہ ہیں،جنوبی خیبرپختونخوا میں کوئی حکومت نہیں، گلیاں سڑکیں مسلح لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
سربراہ جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ اللہ کو اونچی آواز میں بات پسند نہیں لیکن مظلوم کی اللہ بات سنتا ہے، پہلے ریاست اور حکومت کی رٹ کو تو مضبوط کریں، آپ کس کے لیے قانون بنارہے ہیں، صوبوں کی اسمبلیاں بھی عوام کی نمائندہ نہیں ہیں، کوئی پبلک نمائندہ عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، نظریاتی اور اتھارٹی کی جنگ ہے، میں نے 2018 کی پارلیمان کو تسلیم نہیں کیا تھا، 2024 کی پارلیمان کو بھی منتخب نہیں سمجھتا۔