Jasarat News:
2025-02-19@00:03:20 GMT

حج واجبات کی ادائیگی کا آج آخری روز، وزارت مذہبی امور

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

اسلام آباد (اے پی پی) وزارت مذہبی امور نے سرکاری اسکیم کے حج درخواست گزاروں کو متنبہ کیا ہے کہ آج 14فروری تک حج واجبات کی عدم ادائیگی کی صورت میں حج درخواست منسوخ کردی جائے گی۔ وزارت مذہبی امورکے ترجمان کا کہنا ہے کہ سرکاری اسکیم کے حج درخواست گزاروں کے حج واجبات کی تیسری قسط کی ادائیگی اور پیکج کی تبدیلی کی حتمی تاریخ 14فروری مقرر کی گئی ہے، مقررہ تاریخ تک واجبات کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی حج درخواست منسوخ ہوسکتی ہے اس لئے تمام درخواستگ گزاروں کو چاہئے کہ وہ مقررہ تاریخ تک واجبات کی تیسری قسط
اپنے متعلقہ بینکوںمیں جمع کرادیں اور اگر وہ پیکج تبدیل کرانا چاہتے ہیں تو اس قسط کے ساتھ پیکج کی تبدیلی کی درخواست بھی دے سکتے ہیں،14 فروری کے بعد پیکج کی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حج درخواست واجبات کی

پڑھیں:

خواجہ علی کاظم کے تشییع جنازہ کا سماجیاتی مطالعہ

سوشیالوجی کے اصولوں کے مطابق، کسی معاشرے میں اگر کوئی ایک قدر سب سے زیادہ مؤثر ہو تو وہی اس سماج کے اجتماعی فیصلوں، اجتماعات اور رجحانات کو متعین کرتی ہے۔ بلتستان میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر کسی بھی دوسری قدر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ ایک کاروباری شخصیت، سیاسی رہنما یا کوئی اور غیر مذہبی شخصیت ہوتی تو شاید اتنا بڑا اجتماع ممکن نہ ہوتا۔ تحریر: روح اللہ صالحی

یہ حقیقت ہے کہ خواجہ علی کاظم جیسے کم عمر فرد کی ناگہانی وفات پر لاکھوں افراد کا اجتماع ہوا، کسی معمولی یا وقتی جذباتی لہر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی، نفسیاتی اور مذہبی رجحان کا عکاس ہے۔ یہ اجتماع ایک مخصوص نظریاتی قوت کے تابع ہے، وہ قوت جو انسانوں کے قلوب و اذہان پر حکمرانی کرتی ہے اور انہیں عمل پر ابھارتی ہے، یہ قوت عشق اہل بیت علیہم السلام ہے۔ علم نفسیات کے اصولوں کے مطابق، جب کوئی نظریہ یا جذبہ کسی سماج میں اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جائے تو وہ اس سماج کے افراد کے طرزِ فکر و عمل کو تشکیل دیتا ہے۔ عشق اہل بیتؑ، صدیوں سے بلتستانی سماج کے اجتماعی شعور میں رچا بسا ہے، اور یہی وہ بنیادی عنصر ہے جو افراد کو اپنے ذاتی مفادات سے ماورا کر کے کسی اجتماعی مقصد کے لیے متحرک کرتا ہے۔ 
  خواجہ علی کاظم کی اجتماعی پہچان ایک ایسا انسان جس کی زندگی اہل بیت کے عشق اور ان کی تعلیمات کی ترویج میں گزری، کے طور پر ہے، اور ان کی شہرت کسی مادی مقصد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر لوگوں نے ذاتی مصروفیات، کاروبار اور روزمرہ کی ضروریات کو ترک کر کے ایک مثالی اجتماع میں شرکت کی۔ سوشیالوجی کے اصولوں کے مطابق، کسی معاشرے میں اگر کوئی ایک قدر سب سے زیادہ مؤثر ہو تو وہی اس سماج کے اجتماعی فیصلوں، اجتماعات اور رجحانات کو متعین کرتی ہے۔ بلتستان میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر کسی بھی دوسری قدر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ ایک کاروباری شخصیت، سیاسی رہنما یا کوئی اور غیر مذہبی شخصیت ہوتی تو شاید اتنا بڑا اجتماع ممکن نہ ہوتا۔ لیکن چونکہ خواجہ علی کاظم کی پہچان اہل بیت سے وابستگی تھی، اس لیے یہ اجتماع محض کسی فرد کے لیے نہیں، بلکہ ایک نظریاتی وابستگی کا مظہر تھا۔   یہاں پر ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سیکولر یا لامذہب عناصر اس اجتماع میں بالکل نظر نہیں آئے، بلکہ کچھ نے اس پر تنقید اور توہین کی راہ اپنائی۔ یہ رویہ ان کے نظریاتی تعصب کا مظہر ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ جو مذہبی شعور رکھتا ہے، پوری شدت کے ساتھ اس اجتماع میں موجود تھا۔ یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلتستان میں مذہب ابھی بھی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور اجتماعی قوت ہے۔ یہاں تک کہ نوجوان نسل، جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مذہب سے دور ہوتی جا رہی ہے، وہ بھی اس اجتماع میں پیش پیش تھی۔ یہ اجتماع ثابت کرتا ہے کہ بلتستان اب بھی ایک مذہبی معاشرہ ہے، اور یہاں کی عوام کے لیے مذہب محض ایک ذاتی یا انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قدر ہے جو انہیں متحد کرتی ہے۔ جب کوئی مذہبی شخصیت دنیا سے رخصت ہوتی ہے، تو وہ اپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑ جاتی ہے جسے صرف عشق اہل بیت سے وابستہ لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ علی کاظم کی وفات نے لاکھوں انسانوں کے قلوب کو جھنجھوڑا اور انہیں یکجا کر دیا۔
  لہذا یہ لاکھوں افراد کا اجتماع محض کسی ذاتی عقیدت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہری فکری اور سماجی حقیقت کا مظہر ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی فرد اپنی زندگی کو اہل بیت کی محبت میں بسر کرتا ہے، تو اس کی موت بھی ایک ایسا انقلاب برپا کر سکتی ہے جو لاکھوں دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ یہ اجتماع ایک لمحاتی ہلچل نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوت کا عملی مظاہرہ تھا، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بلتستان میں مذہب محض ایک انفرادی عقیدہ نہیں بلکہ اجتماعی وحدت اور تحریک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ شہرت انسان کے سامنے کئی انحرافی راستے کھول سکتے ہیں۔ لیکن مذہب سے ملنے والی شہرت کو فسق و فجور کی ترویج کیلئے استعمال نہ کرنا الہی امتحان میں کامیابی کی علامت ہے۔ مخصوصا کچھ افراد جنہیں مذہبی امور نے شہرت تک پہنچایا، ذکر علی ع و ذکر اہل بیتؑ نے انہیں شہرت دی، لیکن وہ اس نعمت کا شکر ادا نہ کرسکے۔ وہ شہرت جو اسے ذکر علی ع نے دی ہے اسے فسق و فجور کی ترویج اور گانا وغیرہ گانے کیلئے استعمال کرے، بنی امیہ کی روش ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب کا پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر 10 کروڑ ڈالر کی ماہانہ پیٹرولیم مصنوعات فراہمی جاری رکھنے کا فیصلہ
  • ِ کماد کی کاشت کیلئی2 لاکھ26 ہزار ایکڑکے مقررہ ہدف میں سی67ہزارپر موڈھی کاشت مکمل ہوچکی
  • پاکستان آرمی کے عمیر اقبال نے ''مسٹر پاکستان'' کا ٹائٹل جیت لیا
  • میرپورماتھیلو ،ریجنل ڈائریکٹر محتسب گھوٹکی فضل محمد شیخ 2 ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے واجبات کی دستاویزات ان کے حوالے کررہے ہیں
  • پاکستان کا مجموعی قرضہ 88 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا
  • روسی قونصل خانے کا ویزا درخواست گزاروں کے لیے اہم پیغام
  • ماہ رمضان،خادم حرمین شریفین کی طرف سے مختلف ملکوں میں 700 ٹن کھجور تقسیم کرنے کی منظوری
  • بی جے پی بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے شعلے بھڑکا رہی ہے
  • ویمنز نیشنل بیس بال چیمپئن شپ :ٹائٹل پاکستان آرمی نے جیت لیا
  • خواجہ علی کاظم کے تشییع جنازہ کا سماجیاتی مطالعہ