تعلیم، مہذب معاشرہ اور سماجی ذمے داریاں
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
تعلیم کا بنیادی تعلق فرد کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تبدیلی سے بھی جڑا ہوتا ہے۔کیونکہ تبدیلی کا عمل سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔آج کے جدید تعلیمی تصورات میں سماجی ہم آہنگی اور سماجی ذمے داریوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
یہ عمل معاشرے میں موجود پہلے سے تقسیم کو ختم کرتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ان میں سماجی ذمے داریوں کا احساس پیدا کرتا ہے۔ایک بکھرا ہوا سماج جو مختلف زاویوں میں تقسیم ہو اس میں سماجی ہم آہنگی اور سماجی ذمے داری کا عمل لوگوں میں احساس ذمے داری کو نمایاں کرنے کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح آج کے جدید تعلیمی تصورات میں سوک ایجوکیشن کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اس سے مراد معاشرے کی تعلیم و تربیت ہے تاکہ افراد انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کریں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔
اس طرز کے معاشرے صرف داخلی ہی نہیں بلکہ خارجی سطح پر بھی اپنی ساکھ کو قائم کرتے ہیں اور ایسے معاشروں کی قبولیت دنیا میں ایک معزز معاشرے کے طور پر کی جاتی ہے۔یعنی ایسے معاشرے جہاں تعلیم اور تربیت کا آپس میں باہمی تعلق ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے اندر بنیادی نوعیت کی سماجی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔
لوگوں میں انفرادی سطح پر یہ امنگ اور جوش پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں بنیادی سطح کی تبدیلیاں لائیں جو معاشرے سمیت عام لوگوں کی حالت کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔اسی طرح انفرادی سطح پر لوگ معاشروں کو بدلنے میں رضاکارانہ بنیادوں پر اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور ایسے سماجی کام کرتے ہیں جس سے معاشرے کے محروم اور کمزور طبقات کی محرومی پر مبنی زندگیوں میں اہم تبدیلیاں لائی جا سکیں۔
یہ جو ہمیں معاشرے میں محرومی کی سیاست غالب نظر آتی ہے یا معاشرے کے محروم طبقات کے بارے میں تعصبانہ رویے موجود ہیں ان کا خاتمہ بھی سماجی ذمے داریوں کے زمرے میں آتا ہے۔ تعلیم کی مدد سے سماجی تبدیلی کا یہ عمل معاشروں میں ایک مثبت تبدیلی کے عمل کو جنم دیتا ہے اور معاشروں میں ایک نکھار پیدا ہوتا ہے۔یہ ہی تعلیم کی خوبی ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر جدید تعلیمی تقاضوں کو معاشرے کی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ جو معاشروں میں سیاسی اور سماجی تبدیلی کا عمل ہوتا ہے یا سماجی شعور کا ارتقا ہوتا ہے اس کا بھی گہرا تعلق تعلیم کے نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ تعلیم میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں وقت کے ساتھ لائی جاتی ہیں تاکہ معاشروں کو جدیدیت کے ساتھ جوڑا جا سکے۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارا تعلیمی نظام محض ڈگریوں کا کاروبار کر رہا ہے اور سیاسی اور سماجی تبدیلی کا عمل ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ہمارے تعلیمی نصاب میں جدید بنیادوں پر تبدیلی کا عمل مکمل ہی نہیں کیا جا سکا اور ہم آج بھی روایتی طرز تعلیم کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں یا فرسودہ سوچ ہم پر غالب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو سیاسی اور سماجی شعور سے دور رکھنا بھی ہمارے نظام کی ترجیحات کا حصہ ہے۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو بس اس حد تک شعور دیا جائے جس سے حکمران طبقے کے مفادات کو تقویت مل سکے۔کیونکہ جہاں لوگوں میں سیاسی اور سماجی شعور آئے گا وہاں حکمرانوں کو چیلنج کرنے کے عمل کو تقویت ملتی ہے جو طاقتور طبقات کو قابل قبول نہیں۔اسی بنیاد پر تعلیمی نظام اور نصاب میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں سے گریز کیا جاتا ہے اور ایک روایتی طرز فکر کا غلبہ تعلیمی نظام پر غالب ہے۔
ریاست بنیادی طور پر طے کرتی ہے کہ اس کی تعلیمی ترجیحات کیا ہوں گی اور وہ معاشرے کو ان تعلیمی ترجیحات کی بنیاد پر کہاں لے کر جانا چاہتی ہے۔اگر اس کے سامنے ترجیحات میں تعلیم سے زیادہ سیاسی مفادات غالب ہوں گے تو پھر وہی کچھ دیکھنے کو ملے گا جو اس وقت ہم پاکستانی معاشرے میں تعلیم، سماج اور معاشرے کی تشکیل کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔یہ جو ہمیں بکھرتا ہوا سماج نظر آرہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی اور تعلیم کو بنیاد بنا کر سماجی نظام کو بہتر بنانا ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔سماجی سطح پر دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی یا عدم برداشت کے معاملات اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
رواداری پر مبنی معاشرہ محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس شدت پسندی سے کیسے نمٹا جائے اوراس سے کیسے نجات حاصل کی جائے اس کا بیانیہ یا اس سے نمٹنے کی حکمت عملی ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں کم دیکھنے کو مل رہی ہے۔تعلیم اور تحقیق کے ادارے اس بنیادی موضوع پر تحقیق کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ہمارے نظام میں ایسی کیا خرابیاں ہیں یا کون اس کا ذمے دار ہے جس کی وجہ سے شدت پسندی جنم لے رہی ہے۔ سماجی معاملات پر حکومتی نظام کی سرمایہ کاری اس حد تک کم ہے کہ ہم نہ تو نئے ادارے بنا رہے ہیں اور نہ ہی تحقیق کے لیے کوئی بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔محض زبانی باتیں کر کے یا لچھے دار گفتگو کر کے ہم لوگوں کا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔مسئلہ محض حکومتی نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتیں جو سماج کو بدلنے کا بہت دعوی کرتی ہیں۔
ان کے پاس بھی سماجی سطح پر کوئی کام نہیں ہے۔سوائے کچھ مذہبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی شامل ہے ان کا سماجی شعبے کا کام ہے لیکن وہ بھی سروس ڈیلیوری تک محدود ہے۔قومی سیاسی جماعتوں کے پاس سماجی شعبے میں کام کرنے کا نہ تو کوئی وسیع تجربہ ہے اور نہ ہی کوئی ایجنڈا۔ان کی زیادہ تر سیاست اقتدار کے کھیل تک محدود ہوتی ہے۔ایک اچھا تعلیمی نظام ایک اچھا طالب علم پیدا کرتا ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے ہمارے پاس اچھے طالب علم کے ساتھ ساتھ اچھے استاد بھی ہوں۔ایسے استاد جن کو نہ صرف تعلیم دینے کا شوق ہو بلکہ ان کا سماجی اور سیاسی ادراک بھی ہو اور ان میں سماجی ذمے داری کا احساس موجود ہو۔
بنیادی حقوق کا جو پہلا باب آئین پاکستان میں درج ہے اس سے آگاہی نہ ہونا یقینی طور پر طالب علموں میں سماجی ذمے داری کا احساس پیدا نہیں کر سکے گا۔ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی ضامن بنے اور شہریوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ریاستی قوانین کی پاسداری کریں۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا اول ایک دوسرے کو آگاہی ہو اور دوسرا اس پر عمل درآمد ہو۔کیونکہ اگر سماجی ذمے داری کے اس عمل میں حکومتی نظام میں شہریوں کے ساتھ تفریق کے پہلو ہوں گے یا ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دی جائے گی تو اس سے حکومت کے نظام کا عام شہریوں کے ساتھ ٹکراؤ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں جہاں اچھے پروفیشنل پیداکرنے ہیں وہاں اچھے انسان جو سماج کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سماجی تبدیلی کا سیاسی اور سماجی ترجیحات کا حصہ تبدیلی کا عمل تعلیمی نظام معاشرے کے کی تبدیلی معاشرے کی بنیاد پر رہے ہیں کے ساتھ ہوتا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
ابوظہبی کی معروف شاہراہ پر کم از کم سپیڈ لمٹ کا نظام ختم
ابوظہبی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 14 اپریل 2025ء ) ابوظہبی کی معروف شاہراہ پر کم از کم سپیڈ لمٹ کا نظام ختم کردیا گیا۔ خلیجی میڈیا کے مطابق یو اے ای حکام نے ابوظہبی میں شیخ محمد بن راشد روڈ (E311) پر 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی کم از کم رفتار کی حد کا نظام ختم کردیا ہے، جس کا مقصد ٹریفک کی حفاظت کو بہتر بنانا اور بھاری ٹرکوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانا ہے۔ ابوظہبی موبلٹی کے اعلان کے تحت اب اس شاہراہ پر گاڑی چلانے والوں کو کم از کم 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی، سڑک پر چلنے والے ڈرائیوروں نے پیر کی صبح یہ بھی دیکھا کہ سائن بورڈز سے کم از کم رفتار کی حد کو ہٹا دیا گیا ہے، اس سڑک پر زیادہ سے زیادہ رفتار کی حد 140 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ اپریل 2023ء میں ابوظہبی نے E311 پر 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی کم از کم رفتار کی حد متعارف کرائی، اس بڑی شاہراہ پر زیادہ سے زیادہ رفتار 140 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور بائیں جانب سے پہلی اور دوسری لین پر کم از کم 120 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی حد لاگو کی گئی تھی، کم از کم رفتار کی حد کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیوروں کو "سڑک کے لیے مقرر کردہ کم سے کم رفتار سے کم گاڑی چلانے پر جرمانہ عائد کیا گیا اور 400 درہم کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑا، تاہم دائیں طرف کی تیسری اور آخری لین جو بھاری گاڑیاں استعمال کرتی ہیں، وہ رفتار کے ضوابط کے تحت نہیں تھیں۔
ابوظہبی کے ایک رہائشی جی سہانی کو بائیں طرف سے دوسری لین میں آہستہ گاڑی چلانے پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ میں کم سے کم رفتار کے اصول سے واقف تھا لیکن آگے ایک فوجی قافلہ تھا جس نے ٹریفک کی رفتار کم کردی تھی، مجھے اپنی غلطی نہ ہونے کے باوجود جرمانہ بھرنا پڑا اور ابوظہبی پولیس کے ساتھ مسئلہ اٹھانے کے بعد بھی اسے منسوخ نہیں کیا گیا، مجھے خوشی ہے کہ اب وہ سپیڈ لمٹ کے اس اصول کو ختم کر رہے ہیں۔ ابوظہبی کے ایک اور رہائشی اے پی نے بتایا کہ سڑک انتہائی مصروف تھی اور میرے سامنے تمام گاڑیاں آہستہ چل رہی تھیں جس کی وجہ سے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، میں اس سڑک کو روزانہ کام پر جانے کے لیے استعمال کرتا ہوں اور میں 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی کم سے کم رفتار کے پیچھے منطق کو سمجھتا ہوں لیکن اس طرح جرمانہ کرنا غیر مناسب تھا، اب مجھے اطمینان ہے کہ انہوں نے قانون کو واپس لے لیا ہے۔