Express News:
2025-02-14@00:05:16 GMT

غالب پر کچھ گفتگو

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

اردو ادب میں تین شعرا نے اپنے آپ کو خوب منوایا ہے۔ان میں سب سے پہلے میر تقی میر ہیں۔ میر اپنے عہد کے تمام شعراء سے بڑے اور قادرالکلام شاعر تھے۔ان کی عظمت کے خود غالب بھی معترف تھے۔

اسد اﷲ خان غالب تو اسم ِ با مسمیٰ اپنے عہد میں بھی سب پر بھاری تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا شاعرانہ قد بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔اردو ادب کے تیسرے بڑے شاعر حضرت علامہ محمد اقبال ہیں۔وہ دورِحاضر کے بجا طور پر سب سے بڑے شاعر ہیں۔ان تینوں میں سے دو یعنی غالب اور اقبال اردو کے ساتھ فارسی کے بھی بہت بڑے شاعر تھے۔ان دونوں کے کلام کا بڑا حصہ فارسی میں ہے۔چونکہ ہم فارسی سے ناطہ توڑ بیٹھے ہیں اس لیے ان دونوں شعرا کا بہت جاندار فارسی کلام عام طور پر سامنے نہیں آتا۔ حال ہی میں کراچی میں غالب پر ایک نشست ہوئی جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

 میں چراغِ سحر ہوں یا آفتابِ سرِ کوہسار،غالب ہر چیز میں انفرادیت پیدا کر لیتے تھے۔غالب نے یہ جو کہا ہے کہ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی، چمن زنگار ہے آئینہء بادِ بہاری کا۔اس شعر میں غالب نے ایک بڑی پتے کی بات کی ہے۔عام طور پر لطیف اور خالص ہی کی مانگ ہوتی ہے لیکن لطافت کوئی بڑا تاثر پیدا نہیں کر سکتی۔ہاں اس میں تھوڑی سی کثافت ملا لی جائے تو بہت اعلیٰ نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔لطافت بے کثافتEthereal(غیر مرئی،لطیف) ہوتی ہے۔

آپ برگِ گل پر پڑے شبنم کے قطرے کو دیکھئے ،اس کے سحر میں کھو جائیے لیکن آپ اسے چھو نہیں سکتے۔  جونہی آپ نے اسے چھوا،یہ تحلیل ہو کر اپنی ہستی فنا کر بیٹھتا ہے۔جناب میر تقی میر کے بہت اعلیٰ اشعار اسی Etherealنوعیت کے ہیں۔میر کے بارے میں خود غالب نے کہا ہے کہ،آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں،اور غالب کا میر کی استادی کے بارے میں یہ شعر تو ہر ایک کی زبان پر ہے۔ریختے کہ تمہیں استاد نہیں ہو غالب،کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا۔اس سب کے باوجود میر کے بہت اعلیٰ اشعار آپ کو چپ لگا دیتے ہیں،جھنجھوڑتے نہیں۔غالب کے اشعار اپنے باڈی آئیڈیاCrustکی وجہ سے سب سے زیادہ اقتباسیت کے حامل ہوتے ہیں،سب سے زیادہ ان کے حوالے دیے جاتے ہیں۔

غالب کے اشعار کا ایک خارجی اورٹھوس پیکر بھی ہوتا ہے اور یہی خارجی پیکر ان کے اشعار کو ایک جسم دیتا ہے۔رنگِ گل،بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں،کیا قافلہ جاتا،تو ہی تو چلا جائے۔یہ شعر اتنا لطیف ہے کہ اس کی تشریح ممکن نہیں جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا،اس کو سمجھایا نہیں جا سکتا۔یہ وہ لطافت ہے جس میں کثافت بالکل نہیں۔البتہ غالب کے خیال میں لطافت میں ہلکی سی کثافت ڈال دی جائے تو شعر بہتر طور پر وصول ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے کہ میر کا شعر اگربرگِ گل پر شبنم کا قطرہ ہے تو غالب کا شعر ایک چمکدار موتی کی مانند ہے اور اقبال کے اشعار ان خوبصورت موتیوں کو لڑی میں پرو کر ایک خوبصورت اور قیمتی مالا ہیں۔

غالب کے اشعار کے لفظی درو بست میں کئی رعائیتیں چھپی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی قادرالکلامی انتہا درجے کی ہے ۔ وہ ایک کلاسیکی شاعر ہیں۔یوں تو کلاسیک کی کئی تعریفیں ہیں لیکن ان میں سے ایک بہت اہم ہے ۔کلاسیکی ادب وہ ادب ہے جو اپنے آپ کو منوا کر مقام پیدا کر چکا ہو۔وہ بیان جو بچپن سے بڑھاپے تک یکساں ساتھ دے اور عمر کے ہر حصے میں نئے پہلو دریافت کروائے۔لڑکپن اور نوجوانی میں غالب کے اشعار کا بیرونی ظاہری پیکر بہت اپیل کرتا ہے۔

ان کے اشعار کے اندر چھپے معانی دریافت کیے بغیر قاری سحر میں گم ہوجاتا ہے لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ان کے اشعار کا لفظی درو بست اور اس میں پنہاں رعائیتیں آشکار ہوتی جاتی ہیں۔مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں،اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہلِ دہر کا،سمجھتا ہوں دل پذیر متاعِ ہنر کو میں۔ان مصروں میں تخلیق کارکا درد چھپا ہے کہ اسے بہت دیر سے پہچانا جاتا ہے۔اپنے دور میں جو عزت و شرف اور قدر ہونیچاہییوہ نہیں ہوتی لیکن بعد کی نسلوں میں نام ابھرتا چلا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ غالب ابھی بھی پورے پہچانے نہیں گئے۔

غالب کے ابتدائی زمانے کے اشعار میں انتہائی مشکل اسلوب ہے۔ایسے مشکل اسلوب کے حامل اشعار میں اردو کے ایک دو لفظ کے علاوہ باقی سارا شعر فارسی میں ہوگا۔اپنے ایک خط میں غالب نے لکھا کہ ابتدائی دور میں ایسے اشعار بھی کہے کہ ان میں بعض تو اب اپنی سمجھ میں بھی آنے مشکل ہیں۔بہر حال بڑھتی عمر کے ساتھ ان کا اسلوب سادہ ہونے لگا اور آخری دور میں غالب سہلِ ممتنع کی طرف چلے گئے۔

سہلِ ممتنع کی تعریف ایک عربی شاعر نے یوں کی ہے کہ جب کوئی شاعر ایسا شعر کہتا ہے تو ہر کوئی کہتا ہے کہ میں بھی ایسا کہتا ہوں لیکن جب کوئی ایسا کہنے کا قصد کرتا ہے تو عاجز محسوس کرتا ہے۔دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے،آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود،پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔غالب کے ایسے اشعار ان کی بڑی عمر کے اشعار ہیں اور سہلِ ممتنع کی بہت عمدہ مثال ہیں۔

یہ اسلوب غالب نے زندگی بھر کی پیچیدہ بیانی کے بعد اختیار کیا۔اس بارے میں بھی انھوں نے خود لکھا ہے کہ دہلی والوں کی جو رواں زبان ہے،اسی میں شعر کہناچاہیے، اب تو ہمارا یہی خیال ہو گیا ہے۔ایک زمانے میں میرزا بیدل ، غالب کے لیے ایک نمونہ تھے اور بیدل بہت پیچیدہ بیان شاعر تھے۔غالب کو بیدل بہت پسند تھے،اسد ہر جا سخن طرح باغِ تازہ ڈالی ہے ،مجھے رنگِ بہاری جادیء بیدل پسند آیا۔اسی لیے غالب نے کہا ،طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا،اسد اﷲ خان قیامت ہے۔بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ روزمرہ زبان میں ہی بیان کرنا اچھا اور مفید ہے۔

غالب کو اپنی فارسی پر بہت ناز تھا۔وہ کہا کرتے تھے کہ فارسی کا ترازو میرے اپنے ہاتھ میں ہے۔فارسی میری طبیعت میں یوں جا گزین ہے جیسے فولاد میں جوہر ہوتا ہے۔ان کے پسندیدہ فارسی شعراء میں طالب،عرفی،نذیری اور ظہوری ہیں۔انھوں نے اپنے فارسی دیوان پر بہت توجہ دی۔کہا جاتا ہے کہ اردو دیوان کی طرف انھوں نے توجہ ہی نہیں کی۔دوسروں نے انتخاب کر کے اردو دیوان چھاپ دیا۔دیوان وہ ہوتا ہے جس میں الف سے لے کر ،ی،تک ہر ردیف پر اور شاعری کی ہر صنف میں اشعار ہوں۔غالب کا فارسی دیوان ایسا ہی ہے۔غالب کی اردو شاعری میں ہجو نہیں ملے گی لیکن فارسی دیوان میں دیوان کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ہجو کے کچھ اشعار بھی ہیں۔

غالب نے اپنے فارسی دیوان میں کہا ہے کہ میں نے اپنے اشعار میں کئی مے خانے پنہاں کر دئے ہیں۔میرے دور میں خریداروں کی کمی کی وجہ سے،میرے اشعار کا بھاؤ نہیں لیکن وقت آئے گا جب میرے کلام کی پذیرائی ہوگی۔غالب نے اردو نثر اس مرحلۂ زندگی میں لکھی جب وہ پیرانہ سالی اور نقاہت کے سبب بہت محنت و مشقت نہیں کر سکتے تھے۔ان کی نثر فطری انداز میں لکھی گئی ہے۔اردو میں اتنی اعلیٰ نثر موجود نہیں۔اپنی نقاہت و بیماری کے بارے میں یوں لکھا،میں اب اتنی دیر میں اُٹھتا ہوں جتنی دیر میں ایک قدِ آدم دیوار اٹھے۔شاعر اور ادیب صرف اور صرف اس صورت میں بڑا بنتا اور آفاقی طرزِ بیان کا حامل ٹھہرتا ہے جب وہ دکھ، درد اور غم و اندوہ کو مزاح میں یعنی Pathos کو Humourمیں ملفوف سامنے لائے۔

جب وہ اپنے درد و کرب پر پہلے خود ہنسے، اور پھر اپنے سامع و قاری کو اسی واردات سے گزارے۔ غالب کے فن کا ایک پہلو یہ ہے اور یہ سب سے اہم پہلو ہے کہ وہ درد و الم کو ہنستے ہنستے کہہ جاتے ہیں۔دہلی کے اجڑنے اور چھوڑے کا دکھ یوں بیان کرتے ہیں۔خاکِ دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی۔آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار۔اپنے بچے مرے اور پھر لے پالک بھی مر گیا تو نوحہ کناں ہوتے ہوئے کہا۔ناداں ہو جو کہتے ہو کیوں جیتے ہو غالب،قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کچھ دن اور۔باقی آیندہ۔انشاء اﷲ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غالب کے اشعار فارسی دیوان اشعار کا انھوں نے میں غالب جاتا ہے نے اپنے میں بھی غالب نے ہوتا ہے کے ساتھ ہے کہ ا نہیں ا اپنے ا

پڑھیں:

عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی آئی سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت نے خاموشی توڑ دی

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہدایت پر گزشتہ روز پارٹی سے نکالے جانے پر رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے خاموشی توڑ دی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے ایک طویل بیان میں انہوں نے لکھا کہ ہمشہ پی ٹی آئی اور خان صاحب کے ساتھ وفادار رہا اور اپنے اصولوں پر کھڑا رہوں گا۔

اپنی پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ مجھے حالیہ فیصلے سے سخت دکھ ہوا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ ان افراد نے کرایا جنہوں نے مجھے پارٹی میں قبول ہی نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’تاہم میں نے کبھی ذاتی تنازعات میں پڑنے کی کوشش نہیں کی اور پارٹی کے اندر کسی گروپ کے بجائے ہمیشہ عمران خان کے وژن کے ساتھ کھڑا ہوا۔

شیر افضل مروت نے کہا کہ میں معلومات کی محدود رسائی اور ان لوگوں کی موجودگی کہ جن کے اقدامات پارٹی کے لیے مفید نہیں سمیت خان صاحب کو درپیش چیلنجز کو سمجھتا ہوں، میں اپنی پوزیشن قومی میڈیا پر آج واضح کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز جو انصاف کے لیے میرے ساتھ کھڑے ہو ہوئے، وہ ٹھیک بات کے لیے آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔

شیر افضل مروت کا کہنا تھا پارٹی اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرتی تو میں اس کا احترام قبول کروں گا، لیکن مشکل حالات میں ڈٹے رہنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں سے کہوں گا کہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان میرے لیڈر ہیں اور رہیں گے، میری جد و جہد کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں ہے، میری جد وجہد پی ٹی آئی کے وقار اور ہم سب کے مشترکہ وژن کے لیے ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی خط نہیں ملا،یہ سب چالیں ہیں،اگر ملا تو وزیر اعظم کوبھیجوا دوں گا:آرمی چیف کی غیر رسمی گفتگو
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب پوٹن سے رابط
  • عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی آئی سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت نے خاموشی توڑ دی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • بُک شیلف
  • ہفتہ بارہ بجے کے بعد
  • حکومت کے پاس سب کچھ خود کرنے کی گنجائش نہیں: وفاقی وزیر خزانہ
  • خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو
  • ترس آتا ہے…