Express News:
2025-02-13@22:56:53 GMT

خشیتِ الٰہی کے ثمرات

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

خشیت ِ الٰہی کا مطلب ہے اﷲ تعالیٰ کا خوف اور عاجزی کے ساتھ اس کی عظمت کا احساس۔ خالق ِ ارض و سما کی عظمت و جلالت اور کن فیکون کو وہی سمجھ پائے گا جس کا دل خوف ِ الٰہی سے معمور ہوگا۔

خشیت ِ الٰہی محض ڈرنے کا نام نہیں بل کہ ایسا خوف ہے جو اﷲ کی محبت، تعظیم اور فرماں برداری کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یہی کیفیت انسان کو گناہوں سے بچاتی ہے اور نیکی کی طرف راغب کرتی ہے۔ سورہ فاطر آیت 28 مفہوم پیش ِ خدمت ہے: ’’بلاشبہ! اﷲ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت کا علم رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی خالق ِ کائنات کی حقیقت اور موجوداتِ عالم کا علم پا لینے کے بعد اس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی عظمت و بزرگی کا احساس بیدار ہوگا اور پھر اﷲ کی نافرمانی سے خوف آئے گا۔

سورۃ الفاتحہ میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حمد و ثناء کے بعد انسان کو خود سیدھا راستہ دکھانے کی دعا سکھائی جس پر چل کر انسان کام یابی و کام رانی سے ہم کنار ہو جائے اس کے جواب میں سورۃ البقرہ کے آغاز میں ہی اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ ہدایت کا راستہ اور کام یابی کی منزل صرف انھی کو ملے گی جو متقی ہوں گے، اس کے بغیر صراطِ مستقیم نہیں ملے گا۔

رسول کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ کے سوال کرنے پر تقویٰ کی وضاحت اس مثال کے ذریعے بیان فرمائی جیسے کہ تم خاردار راستے کے درمیان سے گزرو گے تو اپنے دامن کو سمیٹ کر احتیاط سے گزرو گے، بالکل اسی طرح گناہوں اور اﷲ کی نافرمانی سے اور ناراضی سے بچتے ہوئے زندگی گزارو۔

سورۃ العمران آیت نمبر 102 مفہوم پیش ِ خدمت ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔‘‘ مندرجہ بالا آیت ِ مبارکہ میں اﷲ رب العزت کا فرمان ہے کہ ایمان والو ادنیٰ درجے کا تقویٰ اختیار کرنے پر اکتفا مت کرو، بل کہ اعلیٰ اور کامل درجے کا تقویٰ اختیار کرو کہ اخلاقی ممنوعات و منکرات سے دور رہ کر وہ کام کرو جس سے تمہارا رب راضی ہو۔ فکر ِ آخرت اور جواب دہی کے احساس کے ساتھ اﷲ سے ڈرو۔ خوف ِ الٰہی اور اﷲ سے ملاقات پر یقین اعمال ِ خیر کی تحریک کو محرک اور آسان بنا دیتی ہے جب کہ بے خوفی اور آخرت سے بے فکری انسان کو بے عمل بل کہ بدعمل بنا دیتی ہے۔

سورۃ الملک آیت12 مفہوم پیش ہے: ’’بے شک! وہ لوگ اپنے پروردگار سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔‘‘ مندرجہ بالا آیت ِ مبارکہ میں بھی اہل ِ ایمان کا طرز عمل بیان کیا ہے کہ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا تو نہیں لیکن پھر بھی ان کا ایمان اﷲ تعالیٰ پر اس قدر قوی ہے کہ وہ اﷲ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس کے مطیع و فرماں بردار بن کر زندگی گزارتے ہیں تو اﷲ نے بھی ان کے لیے بخشش اور انعامات کا وعدہ کیا ہے۔

سورۃ رحمن آیت46 مفہوم پیش ہے: ’’اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘ وہ مومنین جن کے خوف ِ الٰہی کا یہ عالم ہے کہ ان پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ان کے لیے اﷲ تعالیٰ نے بھی خاص انعام کا وعدہ کیا ہے کہ ان کے لیے دو جنتیں ہیں۔ تفسیر ابن کثیر کے مطابق ایک باغ سونے کا ہوگا جس میں برتن وغیرہ بھی سونے کے ہوں گے، یہ باغ خاص مومنین مقربین کے لیے ہوگا جب کہ دوسرا باغ چاندی کا ہوگا اس میں جو برتن وغیرہ ہوں گے وہ بھی چاندی کے ہوں گے، یہ باغ عام مومنین یعنی اصحاب الیمین کے لیے ہوگا۔ (تفسیر ابن ِ کثیر)

سورۃ الانفعال آیت نمبر2 کا مفہوم: ’’ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے اﷲ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں۔‘‘ اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمانِ الٰہی ہے کہ اﷲ کا ذکر سن کر اﷲ کی عظمت و جلالت سے ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور ان کا ایمان اور زیادہ قوی ہو جاتا ہے، پھر آگے ان صفات کے حاملین کے لیے اﷲ کی طرف سے مغفرت و رحمت ِ الٰہی اور رزق ِ کریم کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’اگر تم اﷲ سے ڈرو گے تو اﷲ تم کو امتیاز دے گا۔‘‘ خوف ِ الٰہی ایسا چراغ ہے جس سے خیر و شر کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انسان خیر کا طلب گار اور شر سے بے زار ہو جاتا ہے، پھر اﷲ تعالیٰ بھی خوف ِ الٰہی کی اس نعمت کے عوض ہدایت کا نور عطا فرما دیتا ہے اور اس کی شخصیت کو پُرنور بنا دیتا ہے۔

خشیت ِ الٰہی احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں۔

حضورِ انورؐ نے فرمایا: ’’دانائی کی بنیاد خوف ِ خدا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالقِ کائنات کی حقیقت اور موجودات ِ عالم کا علم پا لینے کے بعد اس کے دل میں اﷲ کی عظمت پیدا ہوگی اور اﷲ کی نافرمانی سے خوف آئے گا۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور ِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’جس مومن بندے کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کے خوف سے آنسو نکلیں اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے رخسار پر آ جائیں تو اﷲ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔‘‘

حضرت عباسؓ سے روایت ہے حضور اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب اﷲ کے خوف سے بندے کا بدن لرزنے لگے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے سوکھے ہوئے پتے درخت سے جھڑتے ہیں۔‘‘

ایک اور موقع پر فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کو دو قطرے بہت پسند ہیں، ایک شہید کے خون کا قطرہ دوسرا خوف الٰہی کی وجہ سے آنسو کا وہ قطرہ جو اس کے رخسار پر گرا ہو۔‘‘

خشیت ِ الٰہی اور صحابہ کرامؓ:

صحابہ کرامؓ خشیت ِ الٰہی میں بے مثال تھے جنت کی بشارت کے باوجود بھی ان کے دل خشیت ِ الٰہی سے معمور تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں حضورؐ کا فرمان ہے:

’’میری امت میں سب سے پہلے ابوبکر صدیقؓ جنّت میں داخل ہوں گے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ جب رات کو مصلے پر ہوتے تو بہت روتے کہ ان کا چہرہ زرد ہو جاتا، آپؓ پرندے کو دیکھ کر فرماتے: ’’اے پرندے! کاش میں تمہاری طرح ہوتا کہ مجھ سے کوئی حساب کتاب نہ ہوتا۔‘‘

حضرت عمرؓ فرماتے: ’’کاش میں تنکا ہوتا کہ مجھ سے کوئی باز پرس نہ ہوتی۔‘‘

حضرت ابوطلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی خشیت ِ الٰہی میں اپنی مثال آپ تھے۔ تمام صحابہ کرامؓ نیک اعمال کرتے، گناہوں سے اجتناب کرتے، دنیاوی معاملات میں کسی کو تکلیف نہ دیتے، اخلاقِ حسنہ اور عجز و انکساری کا پیکر تھے مگر اس کے باوجود خشیت ِ الٰہی کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔

خشیت ِ الٰہی کی فضیلت و اہمیت میں قرآنی آیات، احادیث ِ مبارکہ اور صحابہ کرام کی امثال کا اجمالی جائزہ لینے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ خشیت ِ الٰہی ایمان کا جز ہے جیسا کہ قرآن پاک میں آتا ہے، مفہوم پیش ہے: ’’تم ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو، اگر مومنین میں سے ہو۔‘‘ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خشیت ِ الٰہی کا جذبہ مومنین کے لیے بے حد ضروری ہے۔

خوف ِ الٰہی سے ایمان مضبوط تر ہوگا، اپنی تمام عبادات کو ادا کرنے میں خشیت ِ الٰہی کی بہت اہمیت ہے۔ سورۃ مومنین آیت2 میں ایمان والوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اﷲ نے ارشاد فرمایا، مفہوم درج ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نماز میں خشوع پیدا کرتے ہیں۔‘‘ نماز میں خشوع سے مراد قلب و جوارح کی یک سوئی اور انہماک ہے۔ اﷲ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی سعی کرنا ہے۔

خوف و خشیت اور عاجزی و فروتنی کی ایسی کیفیت طاری کرنی چاہیے جیسے عام طور پر کسی دنیاوی بادشاہ کے سامنے لوگوں کی ہو جاتی ہے اور ہمارا تو حقیقی مالک، خالق اور سارے جہاں کا بادشاہ حقیقی ہمارا رب اﷲ تعالی ہے، غرض یہ کہ خشیت ِالٰہی ماہ تاب کی کرنوں کی مانند ہے جس کی کرنیں چھن چھن کر لحظہ بہ لحظہ انسان کی عبادات اور کردار و افعال میں اپنا نور پھیلاتی ہیں اور قلب کو دنیا کی رنگینیوں اور فضولیات سے دور کرتی ہیں۔

عصر ِ حاضر میں معاشرتی بگاڑ کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ خوف ِ خدا اور جواب دہی کا دل سے نکل جانا بھی ہے۔ جب دل سے خوف ِ خدا نکل جاتا ہے تو انسان شیطان کے نرغے میں آسانی سے آ جاتا ہے، پھر ہمارے اندر تمام معاشرتی برائیاں آسانی سے سمو جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے، کیا ہمارا دل بھی خشیت ِ الٰہی کے سبب کانپتا ہے، کیا کوئی غلط کام کرتے وقت اﷲ کا خوف اور فکر ِ آخرت کا خیال آتا ہے۔۔۔ ؟

اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنا خوف پیدا کر دے کہ ہم اپنے افعال و کردار میں اﷲ کی رضا کو مقدم رکھیں۔ اﷲ سے دعا ہے کہ ہمیں خشیت ِ الٰہی کے اعلیٰ درجے پر فائز کر دے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہو جاتا ہے کی عظمت اﷲ تعالی ان کے لیے ال ہی کی ال ہی کے ہوں گے کے بعد

پڑھیں:

قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ (سورۃ الاحزاب:53)

سیدنا عبداللہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو شدید بخار تھا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو بہت تیز بخار ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں مجھے تنہا ایسا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں کے دو آدمیوں کو ہوتا ہے میں نے عرض کیا یہ اس لیے کہ آپ کا ثواب بھی دوگنا ہے؟ فرمایا کہ ہاں یہی بات ہے، مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے کاٹنا ہو یا اس سے زیادہ تکلیف دینے والی کوئی چیز تو جیسے درخت اپنے پتوں کو گراتا ہے اسی طرح اللہ پاک اس تکلیف کو اس (مسلمان) کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ (بخاری)

متعلقہ مضامین

  • اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار، بنی اسرائیل
  • جنت میں جانے کی شرط اور غامدی خیالات
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • بے ایمان لوگ
  • لیلۃ برأت کی عظمت و فضیلت
  • شب مغفرت و رحمت