سابق صوبائی وزیر جوہر علی راکی نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت دیامر کے عوام کے جائز مطالبات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے، عوام کو معاوضہ ادا کرے۔ ہم دیامر کے عوام کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق صوبائی وزیر جوہر علی راکی نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت دیامر کے عوام کے جائز مطالبات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے، عوام کو معاوضہ ادا کرے۔ ہم دیامر کے عوام کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، ان کو انکا جائز حق دیا جائے۔ علماء و عماٸدین دیامر سے گزارش ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے بھرپور احتجاج کریں لیکن یہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے، سی پیک کے اوپر یہ ڈیم بن رہا ہے، انتہائی حساس علاقہ ہے، کہیں اس احتجاج کی آڑ میں ملک دشمن عناصر عوام کو اشتعال نہ دلائیں، دیامر ڈیم گلگت بلتستان کا پراجیکٹ نہیں بلکہ ایک قومی نوعیت کا پراجیکٹ ہے، اس پراجیکٹ کا کامیاب ہونا قومی مفاد میں ہے، اس سے دیامر سمیت پورے پاکستان کا بھلا ہو گا، اس پراجیکٹ کے کام میں تعطل بالکل بھی قابل قبول نہیں، حکومت پرامن احتجاج کرنے والوں سے بات کرکے ان کے تحفظات کو دور کرے اور دیامر بھاشا ڈیم کے کام کو جنگی بنیادوں پہ مکمل کرے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دیامر کے عوام کے

پڑھیں:

ترس آتا ہے…

اپنی نصف صدی کی زندگی میں اس مملکت خداداد میں طرح طرح کی حکومتیں دیکھی ہیں۔ آغاز ضیاء الحق شہید کی مارشل لائی حکمرانی سے ہوا ، سویلین حکمرانی کا مشاہدہ بھی جاری رہا ،بفضل خدا زندگی رہی تو مزید حکومتیں بھی دیکھیں گے۔ ماضی کی ان حکومتوں میں سے کسی سے ہمدردی رہی تو کسی سے سرد مہری ۔ لیکن کوئی ایسا حکمران نہ دیکھا جس پر ترس کھایا جا سکے ۔

مارشل لائی حکمران کا عوامی تعلق نہیں ہوتا ہے، ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا، انھوں نے زور زبردستی سے حکومت حاصل کی ہوتی ہے لیکن سیاسی حکمران عوامی تعلق کا محتاج ہوتا ہے اور جب تک عوام سے اس کا رابطہ رہتا ہے، وہ کامیاب حکمران تصور کیا جاتا ہے ۔

حکمران کے عوامی رابطوں کے کئی ذرایع ہوتے ہیں جن میں وقت کے ساتھ اضافہ بھی ہوتا گیا اور آج تو یہ عالم ہے کہ اگر حکمران چاہے تو وہ اپنے موبائل فون سے ہی ہر وقت عوام سے رابطے میں رہ سکتا ہے۔ ماضی میں سیاسی جلسے جلوسوں کے علاوہ حکمرانوں کے عوام سے رابطے کے ذرایع اخبارات تک محدود تھے جو اب سوشل میڈیا کے طوفان تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے عوام کا حال احوال کسی بھی حکمران تک براہ راست پہنچ سکتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حکمرانوں کے مسائل عوام سے مختلف ہیں، ان کا مسئلہ روٹی کپڑا مکان نہیں ہے ۔

ہماری موجودہ حکومت کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ان کی حکمرانی عوامی نمایندگی کی ترجمان ہے یا بقول گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کے یہ حکومت عوام کا انتخاب نہیں ہے ،اس بات سے قطع نظرتابڑ توڑ مہنگائی کا جو طوفان برپا تھا، اس میں کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے اور ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کی یہ حتی المقدور کوشش ضرور رہی ہے کہ وہ عوام کے لیے کچھ اچھا کر سکیں ۔

وہ ملکوں ملکوں جارہے ہیں لیکن معلوم یہ ہوتاہے کہ سوائے چند ایک دوست ممالک سے قرضہ جات کے علاوہ کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری پر تیار نظر نہیں آتا ۔ نہ کوئی نیا کارخانہ لگ رہا ہے اور نہ ہی پہلے موجود کارخانوں کا پہیہ گھوم رہا ہے نہ سرمائے کی حرکت نظر آتی ہے البتہ اگر کوئی حرکت نظر آتی ہے تو وہ ملک سے باہر جانے کی حرکت ہے جسے دیکھیں جس سے بات کریں وہ رخت سفر باندھے بیٹھا ہے ۔ حکمرانوں نے ملکی قوانین میں ایسی ترامیم کر دی ہیں کہ مشہور ومقبول احتساب کا نعرہ دم توڑ چکا ہے اور آج اگر کسی کا احتساب ہورہا ہے تو وہ صرف سیاسی احتساب تک محدود ہو چکا ہے اور عوام یہ بات سمجھ چکے ہیں اور وہ حکمرانوں کے احتسابی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں ۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات بدل نہیں رہے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مشکلات ہیں۔

حکمران طبقہ اپنی فلاح کے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے ’’منتخب ‘‘نمایندے جو اسمبلیوں میں موجود ہیں ، انھوں نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر لیا ہے اور اس حمام میں چاہے وہ حکومت میں شامل نمایندے ہوں یا اپوزیشن کے اراکین سب نے ہاں میں ہاں میں ملاتے ہوئے اپنے لیے مراعاتی پیکیج منظور کر لیے ہیں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کو دیکھ کر عوام نہ صرف کڑھنے پر مجبور ہیں بلکہ ان میں اپنے نمایندوں کے خلاف غصہ مزید بڑھ گیاہے۔

بے حسی کی انتہاء یہ ہے کہ حکومت جب بھی کسی چیز کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو کہتی ہے کہ عوام متاثر نہیں ہوں گے ۔ ایسی بات کہنے والوں کے دل گردے کی داد دینی پڑتی ہے ۔ ہماری حکومت اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے اپنے عوام کی طرف نہیں بلکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں کی طرف دیکھتی ہے اور یہ نہیں سوچتی کہ یہ بڑی طاقتیں آپ کو اس وقت تک رکھیں گی جب تک ان کا اپنا دل اور مفاد چاہے گاکیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس حکومت کے قدم اپنی زمین اور اپنے عوام میں نہیں ہیں بلکہ گملے میں ایک اگا ہوا ایک پودا ہے جس کو پانی کہیں اور سے مل رہا ہے۔

یہ ان حالات کی ایک ہلکی اور سرسری سی جھلک ہے جس میں کسی حکمران کو حکومت چلانی ہے اور میاں شہباز شریف اس آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ اس ایک سالہ حکمرانی میں صوبائی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کی نمایندہ حکومتیں قائم ہیں ۔سندھ میں حسب معمول پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے، بلوچستان کے عوام ہمیشہ کی طرح ایک ملی جلی حکومت کے سپرد ہیں، رہی پنجاب کی حکومت تو پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز اپنے والد کی رہنمائی میں حکمرانی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔حکمرانی کے پہلے تجربے اور خدشات کے باوجود انھوں نے بلاشبہ نے اپنے تما م ناقدین کی امیدوں کے برعکس ایک اچھی حکمرانی کی کوشش کی ہے۔

وہ بہت زیادہ متحرک ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب کے عوام کے دل میں نرم گوشہ قائم کر سکیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے صوبہ بھر میں تجاوزات کے خلاف جاری مہم جوئی سے عام آدمی بہت متاثر ہو رہا ہے گو کہ اس مہم سے ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری آئے گی لیکن چھوٹے کاروبار جن میں خاص طور پر ریڑھی بان شامل ہیں۔

ان کا روزگار ختم ہو گیا ہے، اس ضمن میں وزیر اعلیٰ کو ذاتی طور پر مداخلت کرنی ہوگی تاکہ غریب کا چولہا جو کہ تجاوزات کی زد میں آکر بجھ چکا ہے، وہ جل پائے۔تجاوزات کے خلاف مہم سے براہ راست عام آدمی متاثر ہوا ہے جس کا لا محالہ اثر حکومت مخالف جذبات کی صورت میں نکلے گا ،بہر حال یہ تو حکمران جانیں اور ان کے افسران جو ایسی مہم جوئیوں کے مشورے دیتے ہیں، ہمارا کام تو زنجیر ہلانے کا ہے اور وہ ہم ہلاتے رہیں گے۔ ترس آتا ہے، ایسی حکمرانی پر ………

متعلقہ مضامین

  • سی ڈی اے ملازمین کے مطالبات ترجیحی بنیادوں پر حل کرینگے ، محمد علی رندھاوا
  • جمہوریت میں عوام بھی ہیں یا نہیں
  • ٹنڈو جام: آل پاکستان گورنمنٹ ملازمین کی یونین گرینڈ الائنس کے تحت مطالبات کی منظوری کیلیے احتجاج کیاجارہاہے
  • ٹنڈوجام آل سندھ ایگریکلچر کا مطالبات کی عدم منظوری پر احتجاج
  • ڈمپر ، بس کی ٹکر سے حاملہ خاتون سمیت 3افراد جاں بحق، عوام نے 4ہیوی گاڑیاں جلا دیں، ٹرانسپورٹرز کا احتجاج
  • ترس آتا ہے…
  • سندھ ہائیکورٹ کا اسپیشل جوڈیشل الاؤنس فوری طور پر غیر منجمد کرنے کا حکم
  • تحریک کے رہنمائوں کے خلاف درج مقدمات فوری واپس لیے جائیں ،تحریک تحفظ آئین وپاکستان
  • ٹنڈوجام:اساتذہ کا مطالبات کی عدم منظوری پر احتجاج