محبت کا کوئی ایک راستہ نہیں
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 فروری 2025ء) محبت کے سچا ہونے کا پتہ کیسے لگایا جائے؟ یہ سوال انسان کے جذباتی پہلوؤں میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ مگر کیا حقیقت میں ''سچی محبت‘‘ نام کی کوئی چیز موجود بھی ہوتی ہے؟ انسان کی سماجی زندگی میں سچ وہ ہے، جس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ جہاں تک محبت کا تعلق ہے، تو اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔
کیونکہ محبت ایک احساس ہے اور احساسات کی کہانیاں تو ہو سکتی ہیں لیکن ان کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا رومیو اور جولیٹ کا خودکشی کرنا ایک سانحہ تو ہو سکتا ہے، لیکن محبت کا ثبوت نہیں بن سکتا۔ کیا ان کے اس فیصلے میں محبت کو تلاش کرنا درست ہے؟لیو ٹالسٹائی کا کہنا ہے، ''اگر یہ سچ ہے کہ جتنے دماغ ہیں، اتنے ہی مختلف سوچوں کے زاویے ہوتے ہیں، تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنے دل ہیں، اتنی ہی محبت کی مختلف اقسام ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘ یہ جملہ بظاہر سادہ سا لگتا ہے، مگر اس میں ایک گہری حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت نہ صرف انسان کے تجربات کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتی ہے بلکہ انسان کی انفرادیت کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ تو لیو ٹالسٹائی کے مطابق ہر انسان کا محبت کرنے کا طریقہ مختلف ہے اور ان کے مطابق محبت کی کوئی ایک مخصوص شکل نہیں ہے، جس کے ذریعے یہ یقین دہانی کرائی جا سکے کہ فلاں تعلق محبت ہے اور فلاں محبت نہیں۔محبت کی ایک اور قسم بھی ہے جو بہت دلچسپ ہے۔ وہ ہے ''پاک محبت‘‘ کا تصور۔ میں اس جگہ پر کھڑی تھی جہاں سے کبھی سسی گزری ہوگی۔ دوستوں کے ساتھ وہ جگہ گھومتے ہوئے ہنسی مذاق میں مصروف تھی اور یوں میرے منہ سے نکلا، ''میں بھی اپنے محبوب کے لیے اتنا پیدل سفر کر سکتی ہوں۔‘‘ یہ بات ہمارے ٹور گائیڈ کے کانوں تک پہنچی تو اس نے پلٹ کر کہا، ''سسی کی محبت کوئی عام محبت نہیں تھی۔
وہ پاک محبت تھی۔‘‘ پاک محبت کیا ہوتی ہے؟ اس کا پتہ نہ تب تھا اور نہ آج تک چلا۔ اگر ہم سوہنی مہینوال کی لوک داستان کا جائزہ لیں، تو سوہنی رات کے اندھیرے میں دریا میں اترتے وقت اپنی محبت کے پاک ہونے پر بھلا خود سے کوئی سوال کرتی رہی ہوگی؟ میرے خیال میں اس بات جواب ہے: ''نہیں،‘‘ کیونکہ جب ہم ''پاک محبت‘‘ کی بات کرتے ہیں، تو یہ ایک ایسا تصور ہے جو حقیقت سے زیادہ ایک افسانہ یا پھر سماجی دباؤ کا عکاس ہوتا ہے۔سوہنی کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ رات کے اندھیرے میں دریا میں اترنا محض پاک محبت کی علامت تھی، شاید ایک جزوی حقیقت ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ محبت کا مفہوم صرف دکھ یا قربانی تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو دو افراد کے درمیان پیدا ہوتا ہے اور جہاں دونوں کی خواہشات، چاہے وہ روحانی ہوں یا جسمانی، ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو جاتی ہیں۔
محبت کا کوئی صحیح یا غلط طریقہ نہیں ہوتا۔ شاید یہی سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ بات ہو۔ ہر انسان کا محبت کا تجربہ مختلف ہو سکتا ہے اور اس کی شدت، نوعیت اور اظہار کا انحصار اس کی ذاتی شخصیت اور حالات پر ہوتا ہے۔ محبت کو سمجھنا اور اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا ایک ذاتی عمل ہے جو ہر فرد کی سطح پر مختلف ہوتا ہے۔
شاید ہم اس سوال کا کوئی مکمل جواب کبھی حاصل نہ کر پائیں۔ لیکن یہ سوال ہماری زندگی کا حصہ تو ہے اور یہی تلاش ہمیں محبت کے مختلف تجربات کی طرف لے جاتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاک محبت ہوتا ہے ہوتی ہے محبت کا کا کوئی محبت کی ہے اور
پڑھیں:
بیساکھی میلہ: 7 ہزار سے زیادہ سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، محبت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا شاندار مظاہرہ
سکھ مذہب کے اہم ترین تہوار بیساکھی میلہ میں شرکت کے لیے بھارت سمیت دنیا بھر سے قریباً 7 ہزار سکھ یاتری 10 اپریل کو پاکستان پہنچے۔ واہگہ بارڈر سے انڈین یاتریوں کو سخت سیکیورٹی حصار میں گوردوارہ سری پنجہ صاحب حسن ابدال پہنچایا گیا۔
’شاندار استقبال، مکمل مذہبی آزادی‘تین ہزار سے زیادہ بھارتی سکھ یاتری حسن ابدال پہنچے، جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر راﺅ عاطف رضا، ڈی پی او سردار غیاث گل اور اسسٹنٹ کمشنر عارف قریشی سمیت دیگر ضلعی افسران نے یاتریوں کو پھولوں کے ہار پہنائے اور گلدستے بھی پیش کیے۔
یہ بھی پڑھیں بابا گرو نانک کا 555واں جنم دن:پاکستان میں سکھ یاتریوں کی سیکیورٹی کےلیے فول پروف انتظامات
’مذہبی رسومات کی مکمل آزادی‘انڈین یاتریوں نے گوردوارہ پنجہ صاحب میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات ادا کیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے کیے گئے کھانے پینے، رہائش، سیکیورٹی اور دیگر انتظامات کو سراہا۔
یاتریوں کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف مذہبی لحاظ سے مطمئن ہیں بلکہ پاکستان میں ملنے والے احترام اور محبت سے بے حد خوش ہیں۔
بھارت سے آئے سکھ یاتری دلجیت سنگھ اور دیگر نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہماری خواہش ہے دونوں ملکوں کی عوام میں یہ پیار، محبت اور احترام کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہے۔ انہوں نے بہترین انتظامات پر حکومت پاکستان اور ضلعی انتظامیہ کا شکریہ بھی ادا کیا۔
’پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہش‘مہمان یاتریوں نے اس موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری اور دوستانہ ماحول کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیساکھی میلہ صرف ایک مذہبی تقریب نہیں بلکہ یہ پاکستان کی بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری اور محبت کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔
’سیکیورٹی کے سخت انتظامات‘بیساکھی میلہ کے موقع پر گوردوارہ پنجہ صاحب کو خوبصورت برقی قمقموں سے سجایا گیا ہے، یاتریوں کی حفاظت کے لیے 1500 سے زیادہ پولیس اہلکار اور 26 سیکشنز پر مشتمل ایلیٹ کمانڈوز تعینات کیے گئے ہیں تاکہ ہر ممکن تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں ’وساکھی میلہ‘: دنیا بھر سے سے 45 ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد متوقع
اگلا پڑاؤ: ننکانہ صاحبدو روزہ قیام کے بعد سکھ یاتری ننکانہ صاحب روانہ ہو چکے ہیں، جہاں وہ 14 اپریل کو بیساکھی میلہ کی مرکزی تقریب میں شرکت کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بیساکھی میلہ بین المذاہب ہم آہنگی پاکستان آمد سکھ یاتری وی نیوز