راولپنڈی (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 13 فروری 2025ء ) عمران خان نے آرمی چیف کے نام پیغام میں کہا ہے کہ بار بار یہ کہنا کہ ادارہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتا، قوم کی عقل کی توہین ہے ، انتخابات میں دھاندلی ہو ، عدلیہ کی تباہی ہو یا کالے قانون، ناصرف ہماری باشعور قوم،عالمی برادری کو بھی معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون سے "نامعلوم” ہاتھ کارفرما ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل سے آرمی چیف کے نام تیسرا کھلا خط لکھا گیا ہے۔ اپنے خط میں عمران خان کا کہنا ہے کہ " میں اپنی ذات کے لیے کوئی ڈیل یا اپنی جماعت کے لیے کسی سے کوئی رعایت نہیں مانگ رہا- بطور سابق وزیراعظم اور محب وطن پاکستانی مجھے صرف اپنی فوج کی ساکھ کی بحالی اور وطن عزیز کا مفاد مقصود ہے۔

(جاری ہے)

اس امر کے باوجود کہ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اورروزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے باعث عوام اور فوج کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ میں آئی ایس پی آر سے کہتا ہوں کہ جھوٹا بیانیہ نہ دیا کریں۔ بار بار یہ کہنا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی، قوم کی عقل کی توہین ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی چیز نہیں چھپ سکتی، ملک کا بچہ بچہ واقف ہے کہ آرمی چیف ہی اس ملک کا نظام چلاتے ہیں۔

انتخابات میں دھاندلی ہو یا اراکین پارلیمینٹ کی خرید و فروخت، عدلیہ کی تباہی ہو یا عوامی رائے دہی پر قدغن کے کالے قانون، ناصرف ہماری باشعور قوم بلکہ عالمی برادری کو بھی معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون سے "نامعلوم” ہاتھ کارفرما ہیں۔ لہذا میری ان سے گزارش ہے کہ غلط بیانی سے گریز کیا کریں کیونکہ یہ صرف من حیث الادارہ فوج کی بدنامی کا سبب بنتی ہے۔

میں پانچ نکات پر روشنی ڈالوں گا جس کی وجہ سے پاکستان آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے: ۱- دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے قوم کی جانب سے مسترد شدہ چہروں کو ملک پر مسلط کرنا: اسٹیبلشمنٹ کی اس پالیسی کی وجہ سے ملک کا شدید نقصان ہو رہا ہے۔ ابھی چند سال قبل تک جن کی سرے محل اور مے فئیر فلیٹس جیسی بے شمار کرپشن کی داستانیں قوم کو سنائی جا رہی تھیں، انہی کے لیے پوری ریاستی مشینری اور ایجینسیز کو استعمال کر کے ناصرف قبل از انتخابات بدترین دھاندلی کی گئی بلکہ پولنگ ڈے اور اس کے بعد بھی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ ڈالا گیا اور ان کو قوم پر مسلط کر دیا گیا۔

یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شریف خاندان اور زرداری پر کیسز سیاسی نوعیت کے تھے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دور میں نیب کے کوئی کیسز نہیں بنائے گئے- انٹیلی جنس ایجینسیوں نے انکی کرپشن کے ثبوت اکٹھے کئے- جنرل احتشام ضمیر اور فاروق لغاری نے ان کے اربوں روپے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ڈوزئیر دئیے تھے کہ یہ لوگ کتنے کرپٹ ہیں- نیب تو ہمارے کنٹرول میں بھی نہیں تھا، جنرل باجوہ نیب کو کنٹرول کرتا تھا- انکے خلاف تمام کیسز ہمارے دور سے پہلے بنائے گئے- ہمارے دور میں صرف شہباز شریف کے خلاف مقصود چپڑاسی والا رمضان شوگر مل کیس بنا- اس کیس کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

قوم نے دیکھا کہ انھی نیب زدہ چہروں کو ڈیل کی ڈرائی کلین مشین سے گزار کر دوبارہ پاکستان پر مسلط کر دیا گیا۔ نیب ترامیم کے ذریعے این آر او دینے کے اس عمل سے ملکی معیشت کو ۱۱۰۰ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس فراڈ کے تانے بانے ملائیں تو تمام کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ایک ہی ہاتھ کی طرف جاتی ہیں اور اسکا سارا نزلہ فوج پر گر رہا ہے- ۲ - جمہوریت کا خاتمہ: جمہوریت اخلاقیات پر چلتی ہے- حکومت کے پاس اخلاقی قوت ہو تو ہی جمہوریت چل سکتی ہے- 30 سال لگا کر پاکستان میں رفتہ رفتہ جمہوریت کی کچھ بحالی ہوئی تھی، عدلیہ مسلسل جدوجہد سے خودمختار ہوئی تھی اور میڈیا کچھ آزاد ہوا تھا اور ملک بہتری کی طرف جا رہا تھا۔

لیکن پہلے سازش سے ہماری حکومت کو ہٹایا گیا، پھر ناصرف ایک جعلی حکومت کو مسلط کیا گیا بلکہ ان کو دوبارہ ملک پر مسلط کرنے کے لیے آئین توڑا گیا، انتخابات ملتوی کیے گئے، الیکشن سے پہلے ہر حربہ آزمایا گیا، قاضی فائز عیسٰی کے ذریعے ہمارا نشان چھینا گیا، ہمارے ترجیحی امیدواروں کو میدان سے ہٹوایا گیا، حتیٰ کہ الیکشن کمپین تک نہیں کرنے دی گئی- یہ سب کرنے کے باوجود جب الیکشن میں پاکستانی عوام نے ہمیں دو تہائی سے بھی زیادہ نشستوں پر کامیاب کیا تو فارم 47 کے ذریعے رزلٹ تبدیل کر کے صرف 17 سیٹیں جیتنے والی پارٹی کو ملک پر مسلط کر دیا- اور اس انتخابی فراڈ کو چھپائے رکھنے کے لیے اور تحریک انصاف کو کچلنے کی کوشش میں جمہوریت کو مکمل طور پر پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔

الیکشن آڈٹ کے خودمختار ادارے “پتن” کی رپورٹ اس سلسلے میں سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ کیسے اس ملک میں جمہوریت کا نقصان کر کے دھاندلی کے 64 نئے طریقے اپنائے گئے۔ میڈیا پر بدترین قدغنیں لگا کر اور انسانی حقوق کو پامال کر کے جمہوریت کے تمام ستونوں کو برباد کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو ان کے نمائندگان چننے کا حق نہیں ہے۔ الغرض جمہوریت کے تمام بنیادی ستون بشمول خودمختار عدلیہ، حق آزادئ رائے، آزاد میڈیا اور انسانی حقوق ختم کر دئیے گئے ہیں۔

اس سب کے پیچھے بنیادی طور پر تحریک انصاف کو کچلنے اور الیکشن ڈاکے پر پردہ ڈالنے کی قبیح کوشش کارفرما ہے۔ ‏۳- ترجیحات کی غلط سمت: ساری دنیا آگے کی جانب سفر کرتی ہے مگر ہم مخالف سمت میں گامزن ہیں۔ پاکستان کو Deep Structural Reforms ( بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات) کی ضرورت ہے، جس میں اداروں کی مضبوطی، قانون کی حکمرانی، اقتصادی ترقی، آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کمی، بڑھتی آبادی کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، سماجی تحفظ، امن و امان اور ملک میں نئی سرمایہ کاری لانا شامل ہیں۔

اداروں کی مضبوطی میں ہی ملکی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ کام مشکل ہے اور صرف وہی حکومت کر سکتی ہے جس کے پاس عوامی مینڈیٹ ہو اور جس کے پاس اخلاقی طاقت (moral authority) ہو- اصلاحات کرنا این آر او اور جعلسازی سے اقتدار لینے والوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں جعلی پارلیمنٹ ہے، جعلی ایم این ایز ہیں، جعلی وزیر اور جعلی صدر ہے!! ان کا ایجنڈا صرف (reign of terror) خوف و ہراس پھیلا کر اپنے تسلط کو برقرار رکھنا ہے۔

ملک میں استحکام تب آتا ہے جب قانون کی حکمرانی ہو اور جمہور کو آزادی حاصل ہو۔ یہاں تو اکیسیوں صدی میں یہ حال ہے کہ انٹرنیٹ تک بندش کا شکار ہے۔ آئی ٹی کے اس دور میں لوگ نہ صرف تعلیمی و سماجی بلکہ معاشی طور پر بھی انٹرنیٹ پر منحصر ہیں۔ اس کے منقطع ہو جانے سے پہلے سے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت کو مزید زد پہنچ رہی ہے۔ “ورلڈ جسٹس پراجیکٹ” کے رول آف لأ انڈیکس میں ہم چھبیسویں ترمیم کے بعد صرف گنتی کے چند ممالک سے آگے ہیں۔

“دی اکانومسٹ” کے انٹیلیجنس یونٹ کے “Democracy Index” میں ہم ہائبرڈ نظام سے آمرانہ/ استبدانہ نظام کی جانب گامزن ہیں۔ اسی طرح ملک میں امن صرف تب آئے گا جب اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات کی پالیسیوں کو بہتر کریں گے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائیں گے۔ ہماری افغانستان کو لے کر پالیسی سنجیدہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں دہشتگردی کے بڑھتے ناسور کا سامنا ہے۔

۴- ہنرمند پاکستانیوں اور سرمائے کی ملک سے باہر منتقلی: پاکستان میں جاری ظلم و جبر کے ماحول اور لاقانونیت سے عوام شدید مایوس ہے۔ سرمایہ کار اور ہنرمند افراد جوق در جوق بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ دو سال کے عرصے میں تقریباً 17 لاکھ افراد کے بیرون ملک منتقل ہونے سے ملکی معیشت کو اندازاً 15 سے 20 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے۔

گروتھ ریٹ صفر ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں غربت اور بےروزگاری عروج پر ہے- لوگ ہر حال میں ملک سے باہر جا رہے ہیں، آئے روز لوگوں کے ڈوبنے کی خبر آتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں مایوسی کس قدر عروج پر ہے۔ ۵- ملک میں انسانی حقوق کی پامالیاں: ملک میں ہر جانب فسطائیت کا بازار گرم ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی معطلی، اور حرمتوں کی پامالی سمیت وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو مشرقی پاکستان میں کیا گیا تھا اور سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔

آٹھ فروری کو ایک بار پھر ہمارے احتجاج کو ناکام بنانے کی کوشش میں ملک بھر میں چھاپے مار کر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پنجاب پولیس شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بن کر بدمعاشی پر اتری ہوئی ہے۔ وزیرآباد میں پولیس نے ہمارے ایک کارکن کا جنازہ تک نہیں پڑھنے دیا۔ نو مئی اور 26 نومبر جیسے سانحات میں ریاست کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر بھی کوئی ایکشن نہیں ہوتا تو اس ملک میں کسی کو انصاف ملنا ممکن نہیں ہے۔

9 مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے، جمہوریت پسند کارکنان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلا کر شہید کیا گیا۔ سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سال میں ایک لاکھ سے زائد مرتبہ شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ہمارے 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کو گرفتار کیا گیا اور سینکڑوں کو اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں بےگناہ لوگوں کو کئی کئی ماہ جھوٹے کیسز میں جیلوں میں رکھا گیا- لوگوں سے سیاست کرنے کا حق چھینا گیا۔

سویلنز کو ملٹری حراست میں دے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں جو انسانی حقوق کا حال تھا اب پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔ میرے کیسز کے لیے “پاکٹ ججز” بھرتی کیے جا رہے ہیں- میرے وکلاء کو جیل ٹرائل میں جانے نہیں دیا جاتا اور صحافیوں کو بھی اپنی من مرضی سے اندر بھیجا جاتا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد نظام عدل کا مکمل طور پر جنازہ نکل چکا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چل رہا ہے۔

لوگوں سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس دلدل سے جب تک پاکستان کو نہیں نکالا جائے گا تب تک ملک آگے نہیں بڑھے گا- ‏مندرجہ بالا نکات پر غور و خوض اور ان کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ کا اپنی پالیسیوں کو فوری تبدیلی کرنا، وقت کی ضرورت ہے تاکہ بطور ادارہ فوج کی بدنامی کا عمل رک سکے۔ ملکی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک ڈھیر لگانے والی اشرافیہ کا کیا ہے، وہ تو اگلی پرواز سے ملک سے نکل جاتے ہیں۔

پورا نظام اور اس کی توانائیاں اس ٹولے کو بچانے پر صرف کرنے کی بجائے اپنی ترجیحات درست کرنے اور ان 24 کروڑ پاکستانیوں کا سوچنے کی ضرورت ہے، جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اور اپنی غلطیوں سے سیکھ کر تمام اقدامات اور پالیسیز کو آئین و قانون کے دائرے میں لانا پاکستان کی بقاء اور ترقی کا واحد راستہ ہے- سیاسی و معاشی استحکام اور ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج کم ہو، اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا، اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصطلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔

".

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان میں کر دیا گیا کے ذریعے کیا گیا ملک میں نہیں ہے کی جانب ہے اور اور اس گیا ہے قوم کی اور ان کے لیے سے ملک رہا ہے کو بھی

پڑھیں:

سیاسی بیانات دینے والے جج کو بینچ چھوڑ کر سیاست میں آنا چاہیے، رہنما ن لیگ

اسلام آباد:

مسلم لیگ (ن) کے رہنما بلال  اظہر کیانی  نے کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی  ایاز صادق نے  جج کی جانب سے  پارلیمان کولیپس  کرنے سے متعلق  ریمارکس پر رولنگ دے کر درست کیا، اگر کوئی جج ایسے بیانات دیتا ہے تو اسے بینچ چھوڑ کر سیاست میں آنا چاہیے۔

 رہنما ن لیگ  بلال  اظہر کیانی  نے  پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے  کہا ہے کہ پی ٹی آئی  کی آئی ایم  ایف کو  یہ پہلی چٹھی نہیں ہے،  پہلے  بھی وزیر خزانہ  خیبرپختونخوا  کی جانب سے خط لکھا گیا تھا  جبکہ الیکشن کے قریب بھی بانی پی ٹی آئی نے  آئی ایم  ایف کو ایک اور خط لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بار بار ایسے خطوط لکھ کر ملکی معیشت کو ڈیفالٹ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ انہوں نے  پی ٹی آئی  کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کو بھی  علم ہے کہ یہ سستی شہرت کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔

بلال اظہر کیانی نے کہا کہ پی ٹی آئی والے اپنی سستی سیاست کرنا چاہ رہے ہیں،   پی ٹی آئی اپنا شوق پورا کر لے، میرے نزدیک  ایسے ڈوزئیر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف وفد سب اسٹیک ہولڈر سے مل رہا ہے ،اس میں کوئی ہرج نہیں ہے، چیف جسٹس نے حامی بھری تو آئی ایم ایف وفد سے میٹنگ ہوئی، آئی ایم ایف وفد ملاقاتوں سے مذاکراتی بینچ مارک جیسی چیز طے نہیں ہو گی۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے  ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر  کو خط کے معاملے  پر میڈیا میں آ رمی چیف کا بیان بھی سامنے آیا ، بانی پی ٹی آئی کو چٹھیاں لکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا وہ چٹھیاں لکھتے رہیں، پی ٹی آئی نے  سارے حربے استعمال کر لیے ہیں۔   

رہنما ن لیگ  بلال  اظہر کیانی نے یہ بھی کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی  ایاز صادق نے  ایک جج کے پارلیمان کولیپس کرنے سے متعلق  ریمارکس پر رولنگ دے کر درست کیا ۔ پارلیمان  سپرمیسی  کو مدنظر رکھتے ہوئے   اسپیکر صاحب  نے درست بات کی ، میرے خیال میں پارلیمان سے متعلق  ججز کے ایسے ریمارکس نہیں آنے چاہیں ۔

ان کا کہنا تھا  کہ  اگر دوبارہ کوئی  ایسی بات آتی ہے تو پھر بھی  ایسے ہی جواب دیا جانا چاہیے، اگر کوئی جج ایسے بیانات دیتا ہے تو اسے بینچ چھوڑ کر سیاست میں آنا چاہیے،  ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ججز کو ایک دوسرے کو یوں خطوط نہیں لکھنے چاہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی بیانات دینے والے جج کو بینچ چھوڑ کر سیاست میں آنا چاہیے، رہنما ن لیگ
  • 2018ء کے انتخابات میں چوری اور 2024ء میں ڈکیتی ہوئی،شاہد خاقان
  • انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈی جی 2 روزہ دورہ پر پاکستان پہنچ گئے
  • ریاست و سیاست کا ایک صفحہ
  • نفرت کی سیاست سے متحدہ تقسیم مگر انکے لیڈران اب بھی باز نہیں آ رہے، شرجیل میمن
  • نفرت کی سیاست نے متحدہ کو تقسیم کیا، مگر انکے لیڈ باز نہیں آ رہے: شرجیل انعام میمن
  • انصاف دینے والے کمزورہو جائیں تو ملک ترقی نہیں کرتا: شبلی فراز
  • شاداب، نواز، اسامہ کی طرح مجھے بھی مواقع ملتے تو کچھ مختلف کرتا: عثمان قادر
  • ہم ریاست، آئین و ملک کے وفادار، سیاست میں تشدد کے خلاف ہیں، فضل الرحمان