بار بار یہ کہنا کہ ادارہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتا، قوم کی عقل کی توہین ہے
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
راولپنڈی (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 13 فروری 2025ء ) عمران خان نے آرمی چیف کے نام پیغام میں کہا ہے کہ بار بار یہ کہنا کہ ادارہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتا، قوم کی عقل کی توہین ہے ، انتخابات میں دھاندلی ہو ، عدلیہ کی تباہی ہو یا کالے قانون، ناصرف ہماری باشعور قوم،عالمی برادری کو بھی معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون سے "نامعلوم” ہاتھ کارفرما ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل سے آرمی چیف کے نام تیسرا کھلا خط لکھا گیا ہے۔ اپنے خط میں عمران خان کا کہنا ہے کہ " میں اپنی ذات کے لیے کوئی ڈیل یا اپنی جماعت کے لیے کسی سے کوئی رعایت نہیں مانگ رہا- بطور سابق وزیراعظم اور محب وطن پاکستانی مجھے صرف اپنی فوج کی ساکھ کی بحالی اور وطن عزیز کا مفاد مقصود ہے۔(جاری ہے)
اس امر کے باوجود کہ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اورروزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے باعث عوام اور فوج کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ میں آئی ایس پی آر سے کہتا ہوں کہ جھوٹا بیانیہ نہ دیا کریں۔ بار بار یہ کہنا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی، قوم کی عقل کی توہین ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی چیز نہیں چھپ سکتی، ملک کا بچہ بچہ واقف ہے کہ آرمی چیف ہی اس ملک کا نظام چلاتے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی ہو یا اراکین پارلیمینٹ کی خرید و فروخت، عدلیہ کی تباہی ہو یا عوامی رائے دہی پر قدغن کے کالے قانون، ناصرف ہماری باشعور قوم بلکہ عالمی برادری کو بھی معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون سے "نامعلوم” ہاتھ کارفرما ہیں۔ لہذا میری ان سے گزارش ہے کہ غلط بیانی سے گریز کیا کریں کیونکہ یہ صرف من حیث الادارہ فوج کی بدنامی کا سبب بنتی ہے۔ میں پانچ نکات پر روشنی ڈالوں گا جس کی وجہ سے پاکستان آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے: ۱- دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے قوم کی جانب سے مسترد شدہ چہروں کو ملک پر مسلط کرنا: اسٹیبلشمنٹ کی اس پالیسی کی وجہ سے ملک کا شدید نقصان ہو رہا ہے۔ ابھی چند سال قبل تک جن کی سرے محل اور مے فئیر فلیٹس جیسی بے شمار کرپشن کی داستانیں قوم کو سنائی جا رہی تھیں، انہی کے لیے پوری ریاستی مشینری اور ایجینسیز کو استعمال کر کے ناصرف قبل از انتخابات بدترین دھاندلی کی گئی بلکہ پولنگ ڈے اور اس کے بعد بھی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ ڈالا گیا اور ان کو قوم پر مسلط کر دیا گیا۔ یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شریف خاندان اور زرداری پر کیسز سیاسی نوعیت کے تھے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دور میں نیب کے کوئی کیسز نہیں بنائے گئے- انٹیلی جنس ایجینسیوں نے انکی کرپشن کے ثبوت اکٹھے کئے- جنرل احتشام ضمیر اور فاروق لغاری نے ان کے اربوں روپے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ڈوزئیر دئیے تھے کہ یہ لوگ کتنے کرپٹ ہیں- نیب تو ہمارے کنٹرول میں بھی نہیں تھا، جنرل باجوہ نیب کو کنٹرول کرتا تھا- انکے خلاف تمام کیسز ہمارے دور سے پہلے بنائے گئے- ہمارے دور میں صرف شہباز شریف کے خلاف مقصود چپڑاسی والا رمضان شوگر مل کیس بنا- اس کیس کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ قوم نے دیکھا کہ انھی نیب زدہ چہروں کو ڈیل کی ڈرائی کلین مشین سے گزار کر دوبارہ پاکستان پر مسلط کر دیا گیا۔ نیب ترامیم کے ذریعے این آر او دینے کے اس عمل سے ملکی معیشت کو ۱۱۰۰ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس فراڈ کے تانے بانے ملائیں تو تمام کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ایک ہی ہاتھ کی طرف جاتی ہیں اور اسکا سارا نزلہ فوج پر گر رہا ہے- ۲ - جمہوریت کا خاتمہ: جمہوریت اخلاقیات پر چلتی ہے- حکومت کے پاس اخلاقی قوت ہو تو ہی جمہوریت چل سکتی ہے- 30 سال لگا کر پاکستان میں رفتہ رفتہ جمہوریت کی کچھ بحالی ہوئی تھی، عدلیہ مسلسل جدوجہد سے خودمختار ہوئی تھی اور میڈیا کچھ آزاد ہوا تھا اور ملک بہتری کی طرف جا رہا تھا۔ لیکن پہلے سازش سے ہماری حکومت کو ہٹایا گیا، پھر ناصرف ایک جعلی حکومت کو مسلط کیا گیا بلکہ ان کو دوبارہ ملک پر مسلط کرنے کے لیے آئین توڑا گیا، انتخابات ملتوی کیے گئے، الیکشن سے پہلے ہر حربہ آزمایا گیا، قاضی فائز عیسٰی کے ذریعے ہمارا نشان چھینا گیا، ہمارے ترجیحی امیدواروں کو میدان سے ہٹوایا گیا، حتیٰ کہ الیکشن کمپین تک نہیں کرنے دی گئی- یہ سب کرنے کے باوجود جب الیکشن میں پاکستانی عوام نے ہمیں دو تہائی سے بھی زیادہ نشستوں پر کامیاب کیا تو فارم 47 کے ذریعے رزلٹ تبدیل کر کے صرف 17 سیٹیں جیتنے والی پارٹی کو ملک پر مسلط کر دیا- اور اس انتخابی فراڈ کو چھپائے رکھنے کے لیے اور تحریک انصاف کو کچلنے کی کوشش میں جمہوریت کو مکمل طور پر پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔ الیکشن آڈٹ کے خودمختار ادارے “پتن” کی رپورٹ اس سلسلے میں سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ کیسے اس ملک میں جمہوریت کا نقصان کر کے دھاندلی کے 64 نئے طریقے اپنائے گئے۔ میڈیا پر بدترین قدغنیں لگا کر اور انسانی حقوق کو پامال کر کے جمہوریت کے تمام ستونوں کو برباد کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو ان کے نمائندگان چننے کا حق نہیں ہے۔ الغرض جمہوریت کے تمام بنیادی ستون بشمول خودمختار عدلیہ، حق آزادئ رائے، آزاد میڈیا اور انسانی حقوق ختم کر دئیے گئے ہیں۔ اس سب کے پیچھے بنیادی طور پر تحریک انصاف کو کچلنے اور الیکشن ڈاکے پر پردہ ڈالنے کی قبیح کوشش کارفرما ہے۔ ۳- ترجیحات کی غلط سمت: ساری دنیا آگے کی جانب سفر کرتی ہے مگر ہم مخالف سمت میں گامزن ہیں۔ پاکستان کو Deep Structural Reforms ( بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات) کی ضرورت ہے، جس میں اداروں کی مضبوطی، قانون کی حکمرانی، اقتصادی ترقی، آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کمی، بڑھتی آبادی کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، سماجی تحفظ، امن و امان اور ملک میں نئی سرمایہ کاری لانا شامل ہیں۔ اداروں کی مضبوطی میں ہی ملکی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ کام مشکل ہے اور صرف وہی حکومت کر سکتی ہے جس کے پاس عوامی مینڈیٹ ہو اور جس کے پاس اخلاقی طاقت (moral authority) ہو- اصلاحات کرنا این آر او اور جعلسازی سے اقتدار لینے والوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں جعلی پارلیمنٹ ہے، جعلی ایم این ایز ہیں، جعلی وزیر اور جعلی صدر ہے!! ان کا ایجنڈا صرف (reign of terror) خوف و ہراس پھیلا کر اپنے تسلط کو برقرار رکھنا ہے۔ ملک میں استحکام تب آتا ہے جب قانون کی حکمرانی ہو اور جمہور کو آزادی حاصل ہو۔ یہاں تو اکیسیوں صدی میں یہ حال ہے کہ انٹرنیٹ تک بندش کا شکار ہے۔ آئی ٹی کے اس دور میں لوگ نہ صرف تعلیمی و سماجی بلکہ معاشی طور پر بھی انٹرنیٹ پر منحصر ہیں۔ اس کے منقطع ہو جانے سے پہلے سے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت کو مزید زد پہنچ رہی ہے۔ “ورلڈ جسٹس پراجیکٹ” کے رول آف لأ انڈیکس میں ہم چھبیسویں ترمیم کے بعد صرف گنتی کے چند ممالک سے آگے ہیں۔ “دی اکانومسٹ” کے انٹیلیجنس یونٹ کے “Democracy Index” میں ہم ہائبرڈ نظام سے آمرانہ/ استبدانہ نظام کی جانب گامزن ہیں۔ اسی طرح ملک میں امن صرف تب آئے گا جب اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات کی پالیسیوں کو بہتر کریں گے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائیں گے۔ ہماری افغانستان کو لے کر پالیسی سنجیدہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں دہشتگردی کے بڑھتے ناسور کا سامنا ہے۔ ۴- ہنرمند پاکستانیوں اور سرمائے کی ملک سے باہر منتقلی: پاکستان میں جاری ظلم و جبر کے ماحول اور لاقانونیت سے عوام شدید مایوس ہے۔ سرمایہ کار اور ہنرمند افراد جوق در جوق بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ دو سال کے عرصے میں تقریباً 17 لاکھ افراد کے بیرون ملک منتقل ہونے سے ملکی معیشت کو اندازاً 15 سے 20 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے۔ گروتھ ریٹ صفر ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں غربت اور بےروزگاری عروج پر ہے- لوگ ہر حال میں ملک سے باہر جا رہے ہیں، آئے روز لوگوں کے ڈوبنے کی خبر آتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں مایوسی کس قدر عروج پر ہے۔ ۵- ملک میں انسانی حقوق کی پامالیاں: ملک میں ہر جانب فسطائیت کا بازار گرم ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی معطلی، اور حرمتوں کی پامالی سمیت وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو مشرقی پاکستان میں کیا گیا تھا اور سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ آٹھ فروری کو ایک بار پھر ہمارے احتجاج کو ناکام بنانے کی کوشش میں ملک بھر میں چھاپے مار کر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پنجاب پولیس شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بن کر بدمعاشی پر اتری ہوئی ہے۔ وزیرآباد میں پولیس نے ہمارے ایک کارکن کا جنازہ تک نہیں پڑھنے دیا۔ نو مئی اور 26 نومبر جیسے سانحات میں ریاست کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر بھی کوئی ایکشن نہیں ہوتا تو اس ملک میں کسی کو انصاف ملنا ممکن نہیں ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے، جمہوریت پسند کارکنان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلا کر شہید کیا گیا۔ سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سال میں ایک لاکھ سے زائد مرتبہ شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ہمارے 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کو گرفتار کیا گیا اور سینکڑوں کو اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں بےگناہ لوگوں کو کئی کئی ماہ جھوٹے کیسز میں جیلوں میں رکھا گیا- لوگوں سے سیاست کرنے کا حق چھینا گیا۔ سویلنز کو ملٹری حراست میں دے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں جو انسانی حقوق کا حال تھا اب پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔ میرے کیسز کے لیے “پاکٹ ججز” بھرتی کیے جا رہے ہیں- میرے وکلاء کو جیل ٹرائل میں جانے نہیں دیا جاتا اور صحافیوں کو بھی اپنی من مرضی سے اندر بھیجا جاتا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد نظام عدل کا مکمل طور پر جنازہ نکل چکا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چل رہا ہے۔ لوگوں سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس دلدل سے جب تک پاکستان کو نہیں نکالا جائے گا تب تک ملک آگے نہیں بڑھے گا- مندرجہ بالا نکات پر غور و خوض اور ان کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ کا اپنی پالیسیوں کو فوری تبدیلی کرنا، وقت کی ضرورت ہے تاکہ بطور ادارہ فوج کی بدنامی کا عمل رک سکے۔ ملکی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک ڈھیر لگانے والی اشرافیہ کا کیا ہے، وہ تو اگلی پرواز سے ملک سے نکل جاتے ہیں۔ پورا نظام اور اس کی توانائیاں اس ٹولے کو بچانے پر صرف کرنے کی بجائے اپنی ترجیحات درست کرنے اور ان 24 کروڑ پاکستانیوں کا سوچنے کی ضرورت ہے، جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اور اپنی غلطیوں سے سیکھ کر تمام اقدامات اور پالیسیز کو آئین و قانون کے دائرے میں لانا پاکستان کی بقاء اور ترقی کا واحد راستہ ہے- سیاسی و معاشی استحکام اور ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج کم ہو، اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا، اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصطلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔".ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان میں کر دیا گیا کے ذریعے کیا گیا ملک میں نہیں ہے کی جانب ہے اور اور اس گیا ہے قوم کی اور ان کے لیے سے ملک رہا ہے کو بھی
پڑھیں:
راجہ رفعت مختار ایک بھروسہ مند افسر
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) وفاقی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا ہے-جو منظم جرائم مثلاً امیگریشن، غیر قانونی انسانی سمگلنگ، انسدادِ رشوت ستانی، سائبر کرائم اور منی لانڈرنگ وغیرہ جیسے امور کو دیکھتا ہے اور کارروائی کرتا ہے۔ ایف آئی اے کا بنیادی مقصد اور ترجیح ملک کے مفادات کا تحفظ اور وفاقی قوانین کی عملداری ہے۔ یہ وفاقی ادارہ ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں کام کرتا ہے۔ جو ادارے کا سب سے بڑا اور کلیدی عہدہ ہے۔ اس عہدے کے لیے تقرر وزیراعظم کی صوابدید ہے۔ وہ جس کو چاہے اس عہدہ کے لیے مقرر کر سکتا ہے۔ یہ تقرر پولیس کے کسی اعلیٰ افسر یا سول بیوروکریسی سے ہوتا ہے۔ ایف آئی اے کو چلانے اور اس کے تحت ہونے والی کارروائیوں کی موثر نگرانی کے لئے تین ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرلز اور 10 ڈائریکٹرز کی مدد بھی ڈی جی ایف آئی اے کو حاصل ہوتی ہے۔ ایف آئی اے کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے جبکہ ادارہ کے تحت ایک ٹریننگ اکیڈمی بھی اسلام آباد میں قائم ہے۔ جہاں ایف آئی اے میں تعینات ہونے والے افسروں کو وفاقی قوانین کے حوالے سے تربیت دی جاتی ہے۔ یہ اکیڈمی 1976 ء میں قائم کی گئی تھی۔ جبکہ 2002 ء میں ایف آئی اے نے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے متعلقہ جرائم کی تحقیقات کے لئے ماہرین پر مشتمل ایک ونگ بھی تشکیل دیا۔اس ونگ کو عام طور پر نیشنل رسپانس سنٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس ونگ میں جدید ترین ڈیجیٹل فرانزک لیبارٹری بھی ہے۔جو انتہائی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ماہرین کی زیر نگرانی اپنے امور انجام دیتی ہے۔آئی سی ٹی الیکٹرانک جرائم کی تحقیقات کرتا ہے۔اس ونگ کو انفارمیشن سسٹم آڈٹ اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں خصوصی مہارت حاصل ہوتی ہے۔انسانی سمگلنگ روکنے کے لیئے بھی ایف آئی اے کا اہم کردار ہے۔جو لوگ گداگری کی غرض سے بیرون ملک کا سفر اختیار کرتے ہیں اور پیشہ ورانہ گداگری کے لئے سعودی عرب ،دبئی یا قطر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ایف آئی اے ان کا بھی پیچھا کرتا ہے اور سراغ لگا کر کارروائی عمل میں لاتا ہے۔جو افراد ڈی پورٹ ہو کر واپس وطن آتے ہیں، ایف آئی اے کا ریڈار ان کو بھی شکنجے میں لے لیتا ہے۔جعلی کرنسی اور بینک فراڈ کے علاوہ بڑے مالیاتی اسکینڈلز بھی ایف آئی آے کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں۔منی لانڈرنگ کے معاملات بھی ایف آئی اے ہی کے ذمے ہیں۔اس اعتبار سے وفاقی تحقیقات ادارہ کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں۔ایف آئی آے جب اچھے کام کرتا ہے تو اس کی جی بھر کر ستائش ہوتی ہے۔جبکہ برے کاموں پر لتاڑا بھی جاتا ہے۔یہ ایسا ادارہ ہے جو فیڈرل حکومت کے زیر تحت آنے والے تمام وفاقی اداروں کے معاملات کو دیکھتا ہے۔جہاں قانونی خلاف ورزیاں ہو رہی ہوں یا رشوت ستانی ہو، ایف آئی اے فوراً اِن ایکشن ہو جاتا ہے۔کسی رتبے یا رعب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ناصرف کارروائی کا آغاز کرتا ہے بلکہ مقدمات کے اندراج کے بعد نامزد ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میں لاتا ہے۔اس لحاظ سے ایف آئی اے کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
چند روز قبل ایف آئے اے کے نئے ڈائریکٹر جنرل کے لئے پولیس سروس کے جس افسر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے وہ راجہ رفعت مختار ہیں۔جو اس سے قبل انسپکٹر جنرل سندھ (آئی جی) موٹروے پولیس ملتان اور بہاولپور میں اہم عہدوں پر تعینات تھے۔جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق راجہ رفعت مختار گریڈ 21 کے پولیس سروس کے افسر ہیں۔قابلیت اور اہلیت کے اعتبار سے ان کا شمار ایسے افسران میں ہوتا ہے جن کی شہرت بہت اچھی ہے اور جو پولیس سروس میں منفرد حیثیت کے حامل افسر سمجھے جاتے ہیں۔نئے ڈائریکٹر جنرل راجہ رفعت مختار کے لئے تعیناتی کے بعد سب سے بڑا چیلنج سوشل میڈیا پر ریاست مخالف منفی پروپیگنڈہ مہم کو روکنا ہے۔انسانی سمگلنگ بھی آج کا بڑا مسئلہ ہے۔یہ بھی راجہ رفعت مختار کے لیئے بہت بڑا چیلنج رہے گا۔سابقہ ریکارڈ اور کارکردگی کی بنیاد پر ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ راجہ صاحب اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ان مسائل پر قابو پا لیں گے۔ ہر چیلنج سے سرخرد ہو کر نکلیں گے۔تاہم ہماری رائے ہو گی کہ ایف آئی اے میں موجود ایسے کرپٹ اور بدعنون افراد سے ادارے کو پاک کرنا ہو گا جو ادارے کا ناسور ہیں۔ایسا کئے بغیر ممکنہ اہداف حاصل نہیں کیئے جا سکتے-صحیح سمت کا اگر تعین کر لیا گیا، ادارہ کالی بھیڑوں سے پاک ہو گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ راجہ رفعت مختار کے اہداف کی منزل زیادہ دور نہیں ہو گی۔ایک قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ محسن نقوی نے سوشل میڈیا پر جعلی اور قابل اعتراض ویڈیو اور تصاویر ہٹانے کے لئے ایف آئی اے کو جو ہدایات جاری کی ہیں، راجہ رفعت مختار نے فوری ان ہدایات پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی منفی اور بدنیتی پر مبنی مہم کے لئے اب کوئی گنجائش نہیں۔ایسا کرنے والے احتساب اور سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔پیکا ایکٹ ایک ایسا ’’ایکٹ‘‘ ہے جو ناصرف ایسے عناصر کی سرکوبی کرے گا بلکہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیفر کردار تک بھی پہنچائے گا۔ایف آئی اے ایسے اکائونٹس کا سراغ لگانے میں بھی مصروف اور سرگرم عمل ہے جو کسی بھی قسم کی منفی مہم کا حصہ ہیں۔راجہ رفعت مختار کے آنے سے یہ امید بندھ گئی ہے کہ اب وہ ایف آئی اے کو ایک فعال ادارہ بنا کر ہی دم لیں گے۔اس کے متعلق جو شکایات پائی جاتی ہیں ان کو بھی دور کریں گے۔ایف آئی آے کے کچھ افسران سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے راجہ رفعت مختار کی ادارہ میں بطور ڈائریکٹر جنرل تعیناتی کو خوش آئند قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ راجہ صاحب جس انداز کے افسر ہیں اور جو طرزِ عمل رکھتے ہیں۔اس سے ادارہ کے زیادہ فعال ہونے کی امید ہے جس سے اس کی نیک نامی دیکھنے میں آئے گی-یہ اچھی بات ہے کہ صرف ادارہ میں ہی نہیں، بلکہ ادارہ سے باہر بھی لوگ ایف آئی اے میں راجہ رفعت مختار کی تعیناتی کو اچھا شگون اور خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔دیکھنا اب یہ ہے کہ راجہ رفعت مختار اپنی تعیناتی کے دوران مزید ایسے کیا اقدامات کرتے ہیں کہ ایف آئی آے کی فعالیت مزید بڑھ جائے اور لوگ اس پر بھروسہ کرنے لگیں۔ سوشل میڈیا پر منفی کلچر نے جس تیزی سے فروغ پایا ہے موثر انداز سے اس کی اب تک بیخ کنی نہیں ہو سکی۔دیکھنا ہو گا کہ ادارہ میں ایسی کون سی کالی بھیڑیں ہیں جو اس کی فعالیت کی راہ میں ہمیشہ حائل رہی ہیں۔ہمیں نئے ڈائریکٹر جنرل راجہ رفعت مختار سے قوی امید ہے کہ سابقہ روایات کو ایف آئی اے میں بھی لے کر چلیں گے۔سائبر اور ایسے دیگر کرایم جو ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، روکنے اور ان کے تدارک کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔