پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردگان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے اور دونوں ملک مسئلہ فلسطین پر بھی یکسان مؤقف رکھتے ہیں۔
پاکستان اور ترکیہ 2 بردار اِسلامی ملک ہیں اور کئی عالمی مسائل پر ایک دوسرے کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کے خلاف دونوں ملکوں کے سربراہان سفارتی محاذ پر یہ جنگ ختم کرانے اور فلسطینیوں کو انسانی امداد کی رسائی ممکن بنانے میں پیش پیش رہے۔ اس سلسلے میں ترکی نے دو بار ہنگامی اجلاس بلائے جن میں نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور ترکیہ کا غزہ کی صورت حال پر او آئی سی اجلاس بلانے کی حمایت پر اتفاق
2022 تک کے اعدادوشمار کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان 1.
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے اور ترک ثقافتی ڈرامے پاکستان میں بے حد پسند کیے جارہے ہیں اور کئی ترک اداکار پاکستانی گھروں میں بے حد مقبول ہیں۔ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان عوامی روابط میں بھی اضافہ ہوا ہے،دونوں مسلم ملک اسلام کے رشتے سے اور زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔
پاکستان بننے سے قبل تعلقاتمسلمانان برصغیر نے ترکیہ کو ہمیشہ عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا ہے اور آزادی سے قبل بھی یہاں کے مسلمان ترک خلیفہ کو مسلمانوں کا مرکزی رہنما مانتے تھے، خلافت کا ادارہ ختم کیے جانے کے خلاف مسلمانان برصغیر نے تحریک چلائی۔
قیام پاکستان کے بعد ترکیہ پاکستان کو تسلیم کرنے والے اوّلین ملکوں میں سے ایک تھا اور 30 نومبر 2022 کو دونوں ملکوں نے اپنے سفارتی تعلقات کے 75 سال پورے ہونے کی سالگرہ منائی۔
یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کرتے ہیں، رجب طیب اردوان
1950 کی دہائی میں دونوں ممالک بغداد پیکٹ جسے بعد میں سینٹو کا نام دیا گیا تھا، اُس کے رُکن تھے جس کا مقصد کمیونرم کے خلاف مغربی اتحاد کی مدد کرنا تھا۔ اس عرصے کے دوران دونوں مُلکوں کے درمیان فوجی اور تزویراتی تعاون میں کافی وسعت پیدا ہوئی اور اسی دوران ثقافتی تعاون کا ایک معاہدہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان ہوا۔
جنگوں میں مددترکیہ نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کی مدد کی اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی مسلسل حمایت کی۔ بدلے میں سائپرس کے مسئلے پر پاکستان نے ہمیشہ ترک مؤقف کی حمایت کی ہے، دونوں ملکوں نے او آئی سی جیسے فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کی حمایت کی ہے۔
نائن الیوننائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کو لے کر پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات میں زیادہ وسعت اور گہرائی آئی اور 2007 میں ترکیہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا سہولت کار تھا۔
پاکستان اور ترکیہ کے دفاعی تعلقاتہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (ایچ ایل ایس سی سی)، اس ادارے کی بُنیاد 2009 میں رکھی گئی اور اِس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
ہائی لیول ملٹری ڈائیلاگ گروپیہ ادارہ 2003 میں بنایا گیا جس کا مقصد دونوں ُلکوں کے درمیان فوجی تعاون کو فروغ دینا تھا۔
پاک ترک دفاعی تجارتترکیہ پاکستان کو دفاعی سازوسامان فراہم کرنے کے حوالے سے ایک اہم ملک ہے، جس میں ایف 16 طیارے، فلیٹ ٹینکرز، آبدوزیں شامل ہیں، اس کے علاوہ پاکستان ترکیہ میں تیارکردہ ڈرونز بیراکتار ٹی بی 2 کا بھی خریدار ہے۔
مشترکہ پیداواردونوں ممالک مشترکہ طور پر دفاعی ساز و سامان بھی بناتے ہیں، جیسا کہ جنگی بحری جہاز مِلجیم کوروٹس جو ترکی اور پاکستان دونوں ممالک میں تیار کیے جاتے ہیں۔
مشترکہ جنگی مشقیںدونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیتے ہیں، جس میں اتاترک اور جناح سیریز مشقیں شامل ہیں جو انسداد دہشتگردی اور اسپیشل آپریشنز سے متعلق مشقیں ہوتی ہیں۔
انسداد دہشتگردیدونوں ملکوں کے درمیان انسداد دہشتگردی پر تعاون کے حوالے سے معاہدات موجود ہیں جس میں خفیہ معلومات کا اشتراک، مشترکہ آپریشنز اور تربیت کے پروگرام شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسٹریٹجک تعلقات برادر اسلامی ملک پاکستان ترکیہ دفاعی تعاون دوطرفہ امور فلسطین مسئلہ کشمیرذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹریٹجک تعلقات برادر اسلامی ملک پاکستان ترکیہ دفاعی تعاون دوطرفہ امور فلسطین مسئلہ کشمیر پاکستان اور ترکیہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر دونوں ملک کی حمایت حمایت کی شامل ہیں کے خلاف
پڑھیں:
سارک کا احیا، جنوبی ایشیاء میں امن اور ترقی کی کنجی
پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون میں حالیہ برسوں میں پیشرفت سے نہ صرف جنوبی ایشیاء میں طاقت کاتوازن بدل کر متاثرکرسکتاہے بلکہ انڈیاکے لئے بھی یہ ایک اہم تشویش کاباعث بن گیا ہے۔ تاریخی،سیاسی،اورجغرافیائی حقائق کی بنیاد پر 54سال کے بعداس خطے میں پاک بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے تعاون سے آخروہ کون سے عوامل اور وجوہات ہیں جس نے انڈیاکوتشویش میں مبتلاکردیاہے اورانڈین میڈیا شب وروزواویلا کررہاہے۔انڈین نیوزویب سائٹ ’’فرسٹ پوسٹ‘‘پرچھپنے والی ایک خبرکی سرخی ’’انڈیا کے لئے باعثِ تشویش،1971ء کے بعدپاکستانی فوج کی پہلی مرتبہ بنگلہ دیش واپسی‘‘اورایسی دیگرمتعدد خبریں اور تجزئیے انڈین میڈیاپر گزشتہ کئی دن سے چھاپے اور نشر کئے جارہے ہیں۔
انڈین وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہاہے پریس اورسوشل میڈیاپر گردش کرتی خبریں غلط ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنگلہ دیش کے دورے پر آئے تھے۔انڈین میڈیامیں ایسی ’’تشویش‘‘ بھری خبروں نے اس وقت زورپکڑاجب رواں مہینے بنگلہ دیشی فوج کا ایک وفدپرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کی قیادت میں پاکستان پہنچا اور ان کی پاکستان میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس دورے کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے وفدنے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشادمرزااورپاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل ظہیراحمدبابرسندھوسے بھی ملاقات کی تھیں۔
پاکستان اوربنگلہ دیش کے بیچ فوجی تعاون سے متعلق سوال پرانڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہاکہ ’’جوبھی سرگرمیاں ہمارے پڑوس میں،خطے میں یاانڈیاکے اردگردہوتی ہیں، ہم ہمیشہ اس پرنظررکھتے ہیں اور(خاص کر)ایسی سرگرمیاں جس کاتعلق ہماری قومی سلامتی سے ہو۔ ہمیں جس طرح کے قدم اٹھانے ہیں،وہ ہم اٹھائیں گے‘‘۔ــ
تاریخی طور پرپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات تنائوکاشکاررہے ہیں اوراس کی بنیادی وجہ 1971ء میں پاکستان کودولخت کرنے میں انڈیا کاوہ مذموم کردارہے جس کو مودی خودمیڈیا پرکئی بارتسلیم کر چکا ہے۔ پاکستان اوربنگلہ دیش کی تاریخ1947ء کی تقسیم ہند سے جڑی ہوئی ہے۔ مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) اورمغربی پاکستان(موجودہ پاکستان)کے درمیان سیاسی، معاشی،اور ثقافتی اختلافات نے1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموارکی۔اس وقت انڈیانے بنگلہ دیش کی حمایت میں اہم کرداراداکیا،اورانڈیا کی فوجی مداخلت نے پاکستان کودولخت کرنے اوربنگلہ دیش کوایک آزادملک بنانے میں کلیدی کرداراداکیالیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج ایسے اختلافات توامریکاکی ریاستوں کے مابین بھی ہیں اورخودانڈیاکے اندرکئی ریاستوں میں اس قدربدترین حالات ہیں کہ اس وقت 32علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور کئی ریاستوں میں نیم خودمختاری کا سماں ہے اورخود انڈیا کواپنی ٹرینوں کو ان ریاستوں سے گزرنے کے لئے ان تنظیموں کو باقاعدہ ٹیکس ادا کرنا پڑتاہے لیکن پاکستان یا چین نے کبھی وہ مکروہ کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی جیساانڈیانے بنگلہ دیش میں اداکیا۔
1971ء کے بعد،انڈیانے بنگلہ دیش پر اپنے سیاسی اوراقتصادی اثرورسوخ کوبڑھانے کی کوشش کی لیکن حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش نے انڈیاکے اثرسے باہرنکلنے اوراپنی خودمختار پالیسی بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے بعد سے ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بتدریج بہتری آناشروع ہوئی،خاص طورپر اقتصادی تعاون اورعوامی رابطوں کے ذریعے۔ تاہم،فوجی تعلقات میں نمایاں پیشرفت حالیہ برسوں میں دیکھنے کوملی ہے،جوانڈیا کے لئے باعثِ تشویش ہے۔
گزشتہ برس اگست میں پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں شیخ حسینہ کوبطوروزیرِاعظم استعفیٰ دے کر انڈیا جانا پڑاتھاجس کے بعد بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمدیونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کی گئی تھی ۔ شیخ حسینہ کوانڈیاکاحامی اور پاکستان کامخالف تصور کیاجاتاتھا اور صرف یہی نہیں بلکہ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے درجنوں رہنمائوں کوعدالتی ملی بھگت سے پھانسی پرلٹکادیاجن کا صرف یہ جرم تھاکہ انہوں نے1971ء میں بطور پاکستانی شہری ہونے کے ناطے انڈین فوجیوں کے خلاف اپنی ملکی فوج کاساتھ دیااورجماعت اسلامی کے ہزاروں اراکین کوپابندِ سلاسل کردیااوراپنے تمام مخالفین کوٹھکانے لگا کر بدترین فسطائیت کے ساتھ اپنی حکومت کوچلایا۔ بنگلہ دیش کی فوج کے اندربھی اپنے جابرانہ احکام کے تحت بھارت کی مددسے کئی بنگلہ دیش افسران کوہلاک کرکے ایک ایسے ڈکٹیٹر کا روپ اختیارکرلیاکہ بنگلہ دیشی عوام میں سے کسی کو ان کی حکومت کے خلاف کچھ کہنے اور لکھنے تک کی اجازت نہ ہو۔ان کے دورِحکومت میں بنگلہ دیش اورپاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوارنہیں رہے تھے تاہم شیخ حسینہ کی اقتدارسے بے دخلی کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہوئی نظرآئی۔
گزشتہ مہینے قاہرہ میں ڈی8سمٹ کے دوران پاکستانی وزیرِاعظم شہبازشریف کی بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزرڈاکٹرمحمدیونس سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور پاکستانی وزیراعظم کے دفترکے مطابق دونوں رہنمائوں نے ’’دوطرفہ تعلقات میں حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کا اظہار‘‘کیاتھااور ’’باہمی فوائدپرمبنی ترقیاتی مقاصد‘‘ حاصل کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنے پراتفاق بھی کیاتھا۔ اس ملاقات کے تناظرمیں پہلی مرتبہ اعلیٰ سطحی فوجی وفدنے پاکستان کودورہ کیاجہاں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان دفاعی معاہدے کے تحت دونوں ممالک تربیتی مشقوں، انٹیلی جنس شیئرنگ،اوردفاعی سازوسامان کے تبادلے میں تعاون کررہے ہیں۔
اس معاہدے کے تحت پاکستانی فوج بنگلہ دیش کے افسران کوتربیت فراہم کررہی ہے،جودونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مضبوط بنارہی ہے۔ مزیدبرآں دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں کرچکے ہیں اورمزیدایسے پروگرام منصوبہ بندی کے مراحل میںہیں جن کامقصدخطے میں دفاعی صلاحیتوں کوبڑھاناہے۔ پاکستان بنگلہ دیش کو ہتھیاروں کی فراہمی پربھی غورکررہا ہے، جس میں جدیدٹیکنالوجی کے ہتھیارشامل ہیں۔ برسوں بعد پاک بنگلہ دیش تعاون پرمودی سرکاربے بنیاد پروپیگنڈہ سے اپنی تشویش کااظہارکر رہی ہے جس کا مودی پریس شب وروزواویلاکررہاہے۔مودی سرکار مشرق اورمغرب دونوں اطراف میں پاکستان اوربنگلہ دیش کے تعلقات مضبوط ہونے سے خودکو ایک تزویراتی گھیرائو میں محسوس کررہی ہے۔
دوسرااہم پہلویہ ہے کہ پاک بنگلہ دیش فوجی تعاون خطے میں انڈیاکے اثرورسوخ کوکم کرنے کا باعث بن سکتاہے اورانڈیا(اسرائیل، امریکا) کی مددسے علاقے میں اپنی برتری اور خطے کا تھانیدار بننے کاجو خواب دیکھ رہاہے،وہ چکناچور ہوجائے گا۔
تیسرااہم پہلویہ ہے کہ چین،جوانڈیاکااہم جغرافیائی حریف ہے،پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک پسِ پردہ قوت کے طورپردیکھا جاتا ہے۔ چین پہلے ہی دونوں ممالک کوفوجی سازوسامان فراہم کررہاہے جس سے انڈیا کو خطرہ محسوس ہوتاہے۔
چوتھااہم پہلویہ ہے کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون انڈیاکی جنوبی ایشیا ء میں بالادستی کو چیلنج کرسکتاہے اورانڈیاکیلئے سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ یہ اتحادجنوبی ایشیامیں اس کی معاشی اور اسٹریٹجک برتری کوناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتا ہے۔
پانچواں پہلویہ ہے کہ انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان سرحدی تنازعات کے ساتھ ساتھ دریائی پانی کی تقسیم پربھی شدیداختلافات ہیں جودونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کاسبب ہیں۔
چھٹااہم پہلووہ بھارتی خوف ہے کہ پاک بنگلہ دیش کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ انڈیاکے لئے سلامتی کے خطرات پیداکرسکتی ہے خاص طورپران علاقوں میں جہاں علیحدگی پسند تحریکیں فعال ہیں۔ کیونکہ انڈیابنگلہ دیش کے قیام میں اہم کرداراداکر چکاہے اوراس خطے میں اپنی بالادستی برقراررکھنے کے لئے ہمیشہ محتاط رہاہے۔بنگلہ دیش کا پاکستان کے قریب جانا انڈیاکے لئے ایک جذباتی اور اسٹریٹجک دھچکاہے۔ (جاری ہے)