پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو دوبارہ لڑوانے کی کوشش کی گئی، فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہمارے دو صوبے انتظامی لحاظ سے پاکستان سے کٹ چکے ہیں جہاں حکومتی رٹ نہیں، مگر اسلام آباد کے سیاسی دھندوں سے ہم فارغ ہوں گے تو ملک کیلئے سوچیں گے۔
پی ایف یو جے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آمروں نے ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ سب سے سے پہلے میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، ہم نے ہمیشہ یہ کہا کہ حکومت صحافیوں کیلئے ضابطہ اخلاق نہ بنائے صحافی خود بنائیں، یقین ہے صحافی خود اپنے لئے ضابطہ اخلاق بنائیں تو یہ سب سے بہتر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہر ڈکٹیٹر نے آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ پر شب خون مارا، چھبیسویں ترمیم کے نام پر آئین پر جو شب خون مارا گیا ہم نے اس کا مقابلہ کیا، عدلیہ کو اپنی لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی، ملٹری کورٹس بناکر عدلیہ کو لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی، 26 ویں ترمیم کی 56 شقیں تھیں، ہم نے حکومت کو باقی شقوں سے دست بردار کرایا اور انہیں صرف 22 شقوں پر لے آئے مگر دوتین مہینے کی منصوبہ بندی کے بعد پھر کچھ لوگ انسٹال کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر نئے قانون کے نفاذ میں مشکلات آتی ہیں لیکن ان کی اصلاح کی جاتی ہے، ججز یا چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمانی کردار پوری دنیا میں ہے، 18ویں ترمیم میں آئین میں چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار ڈالا گیا، ایک چیف جسٹس کی دھمکی سے یہ اختیار 19ویں ترمیم کے ذریعے نکالا گیا ملٹری کورٹس کے حوالے سے جب وہ آئین میں اپنی بات نا منوا سکے تو ایکٹ میں لے آئے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو دوبارہ لڑانے کی کوشش بھی کی گئی، ہمارے دو صوبے انتظامی لحاظ سے پاکستان سے کٹ چکے ہیں ان دو صوبوں میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں شام ہوتے ہی وہاں مسلح گروہ معاشرے کو کنٹرول کررہے ہیں مگر اسلام آباد کے سیاسی دھندوں سے ہم فارغ ہوں گے تو ملک کیلئے سوچیں گے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری کچھ قوتوں کو صرف اپنی اتھارٹی کی پروا ہے، ملٹری ہو یا ملیٹنٹ اسے عوامی رائے سے کوئی دلچسپی نہیں، ملک میں پارلیمنٹ کے کردار کو ختم کیا جارہا ہے، جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے، ڈمی نمائندے عوام کا کیس نہیں لڑسکتے،جہاں جہاں سے جے یو آئی کا نمائندہ منتخب ہوا وہاں امن تھا۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ کے حوالے سے علی اعلان صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں پیکا ایکٹ پھیکا ایکٹ ہے، یہ ملک ہمارا ہے اور اس کی بقاء ہمارے لئے ضروری ہے، ’’طاقت مردہ باد، عدالت زندہ باد‘‘ ہم قدم بہ قدم صحافیوں کے ساتھ چلیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی کوشش کی نے کہا کہ کی گئی
پڑھیں:
نیا وقف قانون سیاسی ہتھیار ہے مسلمانوں کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہے، مولانا محمود مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ نے کہا کہ یہ قانون نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ اکثریتی ذہنیت کی پیدوار ہے، جسکا مقصد مسلمانوں کے صدیوں قدیم مذہبی اور فلاحی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے مسلم تنظیموں کی دہلی میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی۔ وقف ترمیمی ایکٹ پر جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ ملک، سماج یا مسلمانوں کے لئے صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی جاری رہے گی، ختم نہیں ہوگی، خواہ ہمیں کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ وقف کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی ہتھیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی مسلمانوں کے نام پر، کبھی مسلمانوں کو گالی دے کر یا مسلمانوں کا ہمدرد بن کر بد دیانتی کے ارادے کے ساتھ اس ایکٹ کو نافذ کیا گیا ہے، یہ ایکٹ یا ترمیم ملک، سماج یا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے۔
مولانا محمود مدنی نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ہماری لڑائی جاری رہے گی، ختم نہیں ہوگی، خواہ ہمیں کتنی بھی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آزادی سے قبل بھی قربانیاں دی ہیں، اگر ہمیں لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے، اگر ہمیں صبر کرنا ہے تو ہم وہ بھی کریں گے، ہم ہر صورتحال کے لئے تیار ہیں اور ہم انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے پُرامن احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے خلاف ہر جگہ پُرامن احتجاج ہونے چاہیئے۔ واضح ہو کہ اس سے قبل مولانا محمود مدنی نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) داخل کی گئی ہے، جس میں قانون کی آئینیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔
عرضی میں جمیعۃ علماء ہند نے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں ایک نہیں بلکہ کئی آرٹیکل کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ خاص طور سے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29 اور 300 اے کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی حقوق اور شناخت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ قانون نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ اکثریتی ذہنیت کی پیدوار ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کے صدیوں قدیم مذہبی اور فلاحی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون اصلاحی اقدام کے نام پر امتیازی سلوک کا علمبردار ہے اور ملک کے سیکولر تشخص کے لئے خطرہ ہے۔ مولانا محود مدنی نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو غیر آئینی قرار دیں اور اس کے نفاذ پر فوری طور پر روک لگایا جائے۔