رشبھ پنت کی جان بچانے والے لڑکے نے گرل فرینڈ ہمراہ زہر کھالیاا
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
بھارتی ٹیم کے اسٹار وکٹ کیپر بیٹر رشبھ پنت کی کار حاڈثے میں زندگی بچانے والے 25 سالہ رجت کمار نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ زہر کھالیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی کرکٹر کی جان بچانے والے نوجوان رجت کمار اور اس کی 21 سالہ گرل فرینڈ منو کیشپ نے مبینہ طور پر گھر والوں کی جانب سے رشتے کے انکار کے باعث زہر کھا کر خودکشی کی کوشش کی۔
واقعہ 9 فروری کو اتر پردیش کے مظفر نگر ضلع کے گاؤں بوچھا بستی میں پیش آیا۔
مزید پڑھیں: ریکارڈ ہدف کا تعاقب؛ بھارتی رضوان، سلمان کو دیکھ کر حیران
دونوں نے زہر کھا کر خودکشی کی کوشش کی تاہم انہیں کیلئے اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں دوران علاج منو کیشپ کی موت ہوگئی جبکہ رجت کمار کی حالت تشویشناک ہے۔
بھارتی رپورٹس کے مطابق ان کے خاندانوں نے ان کی شادیاں کہیں اور طے کردی تھیں اور ذات پات کے اختلاف کی وجہ سے ان کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: دی سمپسن کارٹون نے پاکستان کے "چیمپئینز ٹرافی" جیتنے کی پیشگوئی کردی
منو کیشپ کی موت کے بعد اس کی ماں نے الزام لگایا ہے کہ رجت کمار نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا اور اسے زہر دیا۔
واضح رہے کہ رجت کمار نے دسمبر 2022 میں اس وقت قومی توجہ حاصل کی جب انہوں نے ایک اور شخص نیشو کمار کے ساتھ مل کر کرکٹر رشبھ پنت کو پیش آنے والے بدترین حادثے میں ان کی جان بچائی۔
مزید پڑھیں: چیمپئینز ٹرافی؛ آسٹریلیا کیلئے ڈراؤنا خواب بن گئی، کئی اہم کھلاڑی باہر
رشبھ پنت دہلی سے اتراکھنڈ جارہے تھے جب ان کی مرسڈیز کو حادثہ پیش آیا اور ان کی گاڑی میں آگ لگ گئی تھی، بعدازاں رجت اور اسکے دوست نیشو نے کرکٹر کو گاڑی سے نکال کر قریبی اسپتال منتقل کیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے والے
پڑھیں:
واپسی کے بعد کی ذِلت
بھارتی ریاست گجرات میں انسانی اسمگلنگ پر تحقیقات میں مصروف ایک افسر کا کہنا ہے کہ امریکا میں اس وقت غیر قانونی تارکین ِ وطن کو برداشت نہ کرنے کا جو جُنونی رجحان پایا جاتا ہے وہ اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہاں اب غیر قانونی طور پر پہنچنے والوں کو قیام کا موقع نہ ملے گا نہ کام کا۔
امریکی فضائیہ کا C-17 گلوب ماسٹر ٹرانسپورٹ ائر کرافٹ ۵ فروری کو بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں اُترا۔ اِس میں وہ ۱۰۴ بھارتی باشندے سوار تھے جنہیں امریکا میں غیر قانونی قیام کی پاداش میں تحویل میں لینے کے بعد ملک بدر کیا گیا تھا۔ اِن کا امریکی خواب چکنا چور ہوچکا تھا۔ بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، گجرات، اتر پردیش اور راجستھان میں ہزاروں گھرانوں کے خواب راتوں رات چکنا چور ہوگئے ہیں کیونکہ اِن گھرانوں کے نوجوان غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم تھے اور ڈالر بھیج رہے تھے۔ اُن کی کمائی سے ہزاروں افراد اچھی زندگی بسر کرنے کی تمنا پوری کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ جن گھرانوں کے لیے لوگ بھیجے جاچکے ہیں وہ تو پریشان ہیں ہی، وہ ہزاروں گھرانے بھی ذہنی الجھن سے دوچار ہیں جن کے پیارے امریکا میں غیر قانونی قیام پر گرفتار کیے جاچکے ہیں اور شارٹ لِسٹ کیے جانے پر کسی بھی وقت ملک بدری کا سامنا کریں گے۔ اِن لوگوں کے متعلقین اِس لیے پریشان ہیں کہ امریکا میں غیر قانونی تارکین ِ وطن کو برداشت نہ کرنے کی فضا پنپ چکی ہے۔
جن ۱۰۴ بھارتی باشندوں کو امریکا سے نکالا گیا ہے اُن کا واپسی کا سفر ۴۰ گھنٹوں پر محیط تھا یعنی پرواز رُکتی ہوئی آئی تھی۔ اس دوران اُن کی ہتھکڑی نہیں کھولی گئی۔ ٹیکساس سے امرتسر تک اُنہیں شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کھانے پینے یا ٹوائلٹ جانے کے دوران بھی اُن کی ہتھکڑیاں نہیں کھولی گئیں۔ یہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی اُٹھایا گیا۔ وزیر ِخارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا کہ بھارتی حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے رابطہ کرکے اِس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جن بھارتی باشندوں کو غیر قانونی قیام کی پاداش میں واپس بھیجا جائے اُن سے بدسلوکی نہ کی جائے۔ دوسری طرف سابق حکمراں جماعت کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں مودی سرکار سے سوال کر رہی ہیں کہ بھارتی باشندوں سے بیرونِ ملک ایسے گندے سلوک کی گنجائش پیدا ہی کیوں ہونے دی گئی۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بارہا کہا کہ غیر قانونی تارکین ِ وطن کے لیے امریکا میں قیام اور کام کی کوئی گنجائش نہیں۔ تب سے سوچا جارہا تھا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہی اپنی بات پر عمل کریں گے۔ امریکا میں ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین ِ وطن ہیں جن میں سوا سات لاکھ بھارتی ہیں۔ یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن ڈیٹا کے مطابق اکتوبر ۲۰۲۳ اور ستمبر ۲۰۲۴ کے دوران امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ۹۰۴۱۵ بھارتی باشندوں کو گرفتار کیا گیا۔ ۴۳۷۶۴ بھارتیوں کو کینیڈین اور باقی کو میکسیکن سرحد سے گرفتار کیا گیا۔ اِن میں سے نصف گجرات کے تھے اور دیگر میں بیش تر کا تعلق پنجاب، ہریانہ اور آندھرا پردیش سے تھا۔
امریکی حکام نے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے ۱۷۹۴۰ بھارتی باشندوں کی فہرست تیار کی ہے جو قانونی وسائل صرف کرچکے ہیں اور اب اُنہیں ملک بدر کیا جانا ہے۔ بھارتی میڈیا میں کہا جارہا تھا کہ حکومت کو ملک بدر کیے جانے والوں کا علم نہ تھا مگر ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ امریکی حکام نے مودی سرکار کو مطلع کردیا تھا۔ امرتسر پہنچنے والے ۱۰۴ بھارتیوں میں سے ۳۳ گجرات کے، ۳۵ ہریانہ کے، ۳۱ پنجاب کے، ۳ اتر پردیش کے اور ۲ مہاراشٹر کے تھے۔ متعلقہ ریاستی حکومتوں نے اِن لوگوں کو اِن کے گھر پہنچانے کا اہتمام کیا تھا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ جن لوگوں کو امریکا یا کہیں اور سے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے پولیس اُن کی نگرانی کرتی رہتی ہے تاکہ انسانی اسمگلرز کے ریکٹ کو پکڑا جاسکے۔ اِن لوگوں کو پوچھ گچھ کا بھی سامنا رہتا ہے۔ بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے بیسیوں گروہ کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر سال لاکھوں بھارتی باشندوں کو غیر قانونی طور پر امریکا اور یورپ میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں غیر قانونی داخلے کے انسانی اسمگلرز کو خطیر رقوم دی جاتی ہیں۔ کسی نہ کسی طور ملک سے نکلنے کے لیے لوگ گھر کی چیزیں بیچ دیتے ہیں، قرضے لیتے ہیں اور املاک گِروی بھی رکھنے سے گریز نہیں کرتے۔ دبئی، برطانیہ، افریقا اور جنوبی امریکا کے ممالک سے گزارتے ہوئے اِن لوگوں کو میکسیکن بارڈر تک پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
جنوری ۲۰۲۲ میں گجرات کے علاقے ڈِنگوچا سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی امریکا اور کینیڈا کی سرحد پر ٹھٹھر کر مر گئی تھی۔ تب گجرات پولیس نے ۱۵ ایجنٹس اور دیگر ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی تھی۔ بہر حال، انسانی اسمگلنگ کے سلسلے نے رُکنے کا نام نہیں لیا۔ عجیب اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ایجنٹ غیر قانونی طور پر امریکا پہنچانے کے ۷۵ لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک لیتے ہیں۔ پنجاب میں یہ قیمت ۴۵ سے ۵۰ لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ پاکستانی کرنسی میں کہا جائے تو یہ قیمت پونے دو کروڑ سے سوا تین کروڑ روپے کے درمیان ہے!
۲۰۰۹ سے اب تک ۱۵۷۵۶ بھارتی باشندے ڈی پورٹ ہوچکے ہیں۔ ۲۰۲۴ میں امریکا سے ۱۵۰۰ بھارتی باشندے ڈی پورٹ کیے گئے۔ واپس آنے والوں کو قرضوں اور افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ذلت بھی جھیلیں گے کیونکہ اہل ِ خانہ، برادری اور علاقے کے لوگوں کے طعنے بھی تو سُننے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا انداز دیکھ کر شاید بہت سوں کو ہوش آجائے وہ اپنے وطن ہی میں کام کرنے کا سوچیں۔ (انڈیا ٹوڈے)