اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز کی ٹرانسفرز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی،درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفرز کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم کرنے کی استدعا کی گئی ہے ,درخواست میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی بھی استدعا کی گئی ہے ,درخواست میں ججز کی ٹرانسفرز کے عمل کو شفاف فری اورفئیر بنانے کی استدعا کی گئی۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: کی گئی

پڑھیں:

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سنیارٹی: ‏اٹارنی جنرل کا مؤقف چیف جسٹس سے برعکس، حقائق سامنے آگئے 

‏قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سردار سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی کے معاملے پر ‏اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کا مؤقف چیف جسٹس پاکستان سے برعکس ہونے کے حوالے سے حقائق سامنے آگئے۔

رپورٹ کے مطابق ‏اٹارنی جنرل کا تحریری طور پر جوڈیشل کمیشن میں اپنایا گیا موقف سامنے آگیا، ‏چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی سنیارٹی لسٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کا نام نہیں ہونا چاہیے تھا، ‏چیف جسٹس پاکستان نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا اٹارنی جنرل نے میرے موقف کی تائید کی تھی۔

‏اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اور بات کہی تھی اور تحریری طور پر بھی مؤئقف جمع کرایا اور اس کے منٹس بھی جاری کیے جائیں گے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ  ‏چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کے تحفظات سے متفق نہیں، ‏ہائی کورٹ سے جج کا ٹرانسفر عارضی نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‏جج کا ٹرانسفر پبلک انٹرسٹ کے تحت کیا گیا، جس کیلئے صدر مملکت،متعلقہ چیف جسٹسز ہائی کورٹ سے مشاورت کی گئی،‏ جسٹس سرفراز ڈوگر سے کہا گیا وہ مفاد عامہ کے تحت اپنی رضا مندی کا اظہار کریں، ‏ٹرانسفر ہونے والے جج نے مفاد عامہ کے تحت ہی تبادلے کیلئے رضامندی ظاہر کی نہ ہی زاتی مفاد کیلئے، ‏جسٹس سرفراز ڈوگر کی سینارٹی سب سے نیچے نہیں کی جاسکتی، نہ ہی جج سول سرونٹ ہوتا ہے۔

منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ‏سنیارٹی سے متعلق سول سرونٹ ملازمین کے رولز کا اطلاق اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر نہیں ہو سکتا، نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سرول سرونٹ ہوتے ہیں، ‏آئین پاکستان نے ججز کیلئے الگ سے جج کی سروس پر شرائط و ضوابط طے کر رکھے ہیں،  ‏کسی جج کی سینارٹی کا معاملہ جوڈیشل کمیشن میں نہیں اٹھایا جاسکتا، ‏سینارٹی کا معاملہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کرکے ہی عدالتی سائیڈ پر طے ہو سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‏جب ایک جج ایک ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر دوسری ہائیکورٹ میں آتا ہے اسے نئے حلف لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، ‏آئین میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ ایک جج ٹرانسفر ہوکر دوبارہ حلف لے گا، ‏ایک جج کی نئی تقرری اور تبادلے میں فرق ہے، ‏آرٹیکل 202 کے تحت جب ایک جج کا تقرر ہوتا ہے تو اسے تبادلے پر نئے حلف کی ضرورت نہیں ہے۔

‏منصور عثمان اعوان نے ماضی میں لاہور ہائی کورٹ کیلے جسٹس فرخ عرفان اور مظاہر  نقوی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان اور انور کانسی کی سنیارٹی کا اشو بھی ہائی لائٹ کیا اور بتایا کہ کہ وہ سپریم کورٹ میں ہی طے ہوا۔

 

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سنیارٹی: ‏اٹارنی جنرل کا مؤقف چیف جسٹس سے برعکس، حقائق سامنے آگئے 
  • جسٹس سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تعینات
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا ریپریزنٹیشن مسترد ہونے کے آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ، ذرائع
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کا ریپریزینٹیشن مسترد کرنے کا چیف جسٹس کا فیصلہ چیلنج کرنے کا امکان
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے نابالغ بیٹے کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ سنادیا،فوری بازیابی کاحکم
  • سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے ججز کون ہیں؟
  • ایف پی ایس سی کو سی ایس ایس کے نئے امتحانات سے روکنے کی درخواست مسترد
  • پیکا قانون کیخلاف درخواست؛ اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی معاونت کیلیے اٹارنی جنرل کو نوٹس
  • 5 ججز کی ریپریزنٹیشن مسترد، اسلام آباد ہائی کورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ برقرار