پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہ کروانے پر پیپلزپارٹی سخت برہم
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی نے پنجاب کو بدانتظامی کا شکار صوبہ قرار دیدیا، ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کو بلدیاتی حکومتوں کے معاملہ پر سمجھائیں گے اور حوصلہ بھی دیں گے۔
پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر میڈیا سے گفتگو علی حیدر گیلانی کا موقف تھا کہ بلدیاتی اداروں کومستحکم کرنے میں پنجاب پیچھے جبکہ سندھ آگے ہے، حالانکہ آئین میں بلدیاتی حکومتوں کو جمہوریت کا تیسرا ستون قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پیپلزپارٹی کی پنجاب حکومت سے راہیں جدا ہوسکتی ہیں، علی حیدر گیلانی
علی حیدر گیلانی نے پنجاب حکومت کو بلدیاتی انتخابات کروا صوبے کی گورننس کو بہتر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے چاہییں۔
’ملک کے مسائل کا حل بااختیار بلدیاتی حکومتیں ہیں اور اس حل کا سب کو پتا ہے، ملک کا المیہ رہا ہے کہ حکومت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مالی اور انتظامی اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم سے گریزاں رہتی ہے۔‘
مزید پڑھیں: پنجاب میں پاور شیئرنگ، پیپلزپارٹی ن لیگ سے کیا چاہتی ہے؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برہم بلدیاتی انتخابات پنجاب اسمبلی پیپلز پارٹی علی حیدر گیلانی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلدیاتی انتخابات پنجاب اسمبلی پیپلز پارٹی علی حیدر گیلانی علی حیدر گیلانی
پڑھیں:
شام: عبوری حکومت سے شفاف و آزادانہ انتخابات یقینی بنانے کا مطالبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 فروری 2025ء) شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی جیئر پیڈرسن نے ملک کے عبوری حکام پر زور دیا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کی جانب مشمولہ منتقلی یقینی بنائیں جس کے لیے شفافیت، قانون پر عملدرآمد اور منصفانہ انتخابات ضروری ہیں۔
سلامتی کونسل کو شام کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے ملک کے قائم مقام صدر احمد الشرح کے وعدوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری اداروں، عبوری حکومت اور صوبائی قانون ساز اداروں سمیت ہر جگہ اور ہر معاملے میں قابل بھروسہ اور مشمولہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام میں خواتین کو بطور خاص تحفظ درکار ہے۔ وہ فیصلہ سازی اور اہم عہدوں پر اپنا بامعنی کردار چاہتی ہیں۔ عبوری اداروں میں بھی انہیں جائز نمائندگی ملنی چاہیے تاکہ ان کی بات سنی جا سکے اور شامی خواتین کی صورتحال اور حقوق سے متعلق مسائل میں بھی ان کی رائے اور فیصلے شامل ہونے چاہئیں۔
(جاری ہے)
سلامتی کے خدشات اور معاشی مسائلجیئر پیڈرسن نے کہا کہ ملک میں سلامتی کی نازک صورتحال سے سیاسی پیش رفت کو خطرات لاحق ہیں۔
ملک کے شمال مشرقی حصے میں روزانہ لڑائی کی اطلاعات سننے کو مل رہی ہیں۔ اس میں توپخانے سے گولہ باری اور فضائی حملے بھی شامل ہیں جن سے شہریوں اور شہری تنصیبات کو نقصان ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں، حالیہ دنوں رہائشی علاقوں میں کار بم حملوں سے بھی بڑی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔انہوں نے شمال مشرقی علاقے میں عبوری حکام اور کردوں کے زیرقیادت شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے مابین بات چیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے امریکہ، ترکیہ اور دیگر علاقائی و قومی کرداروں پر زور دیا کہ وہ امن و استحکام کی خاطر حقیقی سمجھوتے ممکن بنائیں۔
نمائندہ خصوصی نے شام پر عائد پابندیوں کے ملکی معاشی استحکام پر منفی اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جن ممالک نے یہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں وہ کم از کم توانائی اور مالیات جیسے اہم شعبوں کو ان سے چھوٹ دیں۔ بہت سے شامی شہری محض سیاسی اصلاحات کو ہی ترقی کا پیمانہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کے لیے خوراک کی قیمتیں، بجلی تک رسائی اور روزگار کے مواقع بھی بہت اہم ہیں۔
بگڑتا انسانی بحرانامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی نائب سربراہ اور اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جوئس مسویا نے کونسل کو بتایا کہ مسائل کے باوجود ملک میں فراہم کی جانے والی انسانی امداد کی مقدار کو بڑھایا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال نومبر کے بعد اقوام متحدہ نے شام میں 33 لاکھ لوگوں کو غذائی مدد پہنچائی ہے۔ جنوری میں خوراک، طبی سازوسامان اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا لے کر 94 ٹرک ترکیہ کے ساتھ سرحدی راستے سے شام میں آئے۔
امداد کی یہ مقدار اس سے پہلے سال اسی عرصہ میں بھیجی گئی مدد سے تین گنا زیادہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بالخصوص شمالی علاقوں میں شروع ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں ترکیہ کی سرحد کے قریبی علاقے منبج سے 25 ہزار لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ سلامتی کے خطرات کی وجہ سے تشرین ڈیم کی مرمت کے کام میں رکاوٹ آ رہی ہے جو ہزاروں لوگوں کو پانی اور بجلی مہیا کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
علاوہ ازیں، علاقے میں بکھرے گولہ بارود سے شہریوں کی زندگی اور امدادی کوششوں کو خطرہ لاحق ہے۔امدادی وسائل کی قلتجوئس مسویا نے بتایا کہ مالی وسائل کی قلت کے باعث درجنوں طبی مراکز بند ہو جانے کا خدشہ ہے جبکہ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں پانی اور نکاسی آب کی خدمات پہلے ہی معطل ہو چکی ہیں جس سے 635,000 لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے امدادی پروگراموں کو دی جانے والی مالی مدد روکے جانے سے غیریقینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ امدادی مالی وسائل کی فراہمی میں تاخیر یا ان کی معطلی سے ضروری خدمات تک بدحال لوگوں کی رسائی متاثر ہو گی۔
پناہ گزینوں کی واپسیدسمبر 2024 کے بعد تقریباً 270,000 شامی پناہ گزین ہمسایہ ممالک نقل مکانی ختم کر کے وطن واپس آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک حالیہ جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیرون ملک مقیم شامی پناہ گزینوں کی ایک چوتھائی سے زیادہ تعداد آئندہ سال ملک واپس آنا چاہتی ہے۔
جوئس مسویا نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں کی پائیدار، محفوظ اور باوقار واپسی روزگار، طبی خدمات، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر بڑی سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے۔