پیپلز پارٹی پر ڈمپرز کی سرپرستی ثابت کی جائے: آغا سراج درانی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
آغا سراج درانی—فائل فوٹو
سابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے پیپلز پارٹی پر ڈمپرز کی سرپرستی کا الزام مسترد کرتے ہوئے اسے ثابت کرنے کا چیلنج دے دیا۔
احتساب عدالت کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج درانی نے کہا کہ کراچی بہت بڑا شہر ہے، اسے کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کی نفری بھی ہونی چاہیے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہیوی ٹریفک رات 11 بجے سے چلنی چاہیے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے، اس سے متعلق قانون بھی موجود ہے بس عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثے میں ڈمپر کا ڈرائیور زخمی ہوگیا۔
رہنما پیپلز پارٹی نے یہ بھی کہا کہ میرے اوپر 6 سال سے الزام ہے جسے بھگت رہا ہوں، لسانی فسادات کی بات کون کر رہا ہے؟ اس کا پتہ چلے تو حکومت اس کے خلاف ایکشن لے گی۔
دوسری جانب سابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور دیگر کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت ہوئی، وکلائے صفائی نے بریت کی درخواستوں پر اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ بدنیتی کی بنیاد پر ریفرنس بنایا گیا ہے، نیب ترامیم کے بعد ریفرنس نہیں بنتا۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کے دلائل کے لیے سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
کراچی؛ ڈمپرز اور ہیوی ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں کے حیران کن اعداد و شمار
کراچی:عدالت میں دائر ایک درخواست میں کراچی میں ڈمپرز اور ہیوی ٹریفک سے ہونے والی ہلاکتوں کے حیران کن اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
شہر قائد میں ڈمپرز، ٹینکرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے ہیوی ٹریفک کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی، جس میں درخواست گزار بیرسٹر حسن خان نے مؤقف اپنایا کہ روزانہ ڈمپرز لوگوں کو کچل رہے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے اندر ڈمپرز، آئل ٹینکرز سمیت ہیوی ٹریفک پیک آورز میں چل رہے ہیں اور گزشتہ ایک سال کے اندر 8 ہزار سے زائد شہری ان حادثات میں زخمی ہوئے ہیں جب کہ 2024 میں 773 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔ اسی طرح رواں ماہ کے اندر ڈمپرز سمیت ہیوی ٹریفک حادثات سے 74 شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
درخواست میں سیکرٹری اسٹبلشمنٹ، چیف سیکرٹری، آئی جی سندھ ڈی آئی جی ٹریفک سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
بعد ازاں میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں بیرسٹر حسن خان نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت اداروں سے پوچھنے کا حق ہے کہ میں جس شہر میں رہ رہا ہوں یہاں چلنے والی ہیوی ٹریفک کتنی ہے، ان میں سے کتنے لائسنس یافتہ ہیں اور کتنے انشورڈ۔
انہوں نے کہا کہ مالکان اور ڈرائیور بھاگ جاتے ہیں۔ یہی حال ہوا کورنگی کراسنگ پر جہاں 3 لوگوں کو کچلا گیا۔ ملینیم پر بھی 5 شہریوں کو کچل کر ڈرائیور باآسانی فرار ہوگیا۔ زیادہ تر ڈرائیورز نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے صوبے کی عدالت پر پورا بھروسا ہے کہ وہ اپنا کلیدی، آئینی و قانونی کردار ادا کرے گی۔ اگر عمل درآمد نہیں ہوا تو ہمارے پاس قانونی راستہ ہوگا، ہم اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔