سنیارٹی تنازع کے دوران قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے کیسوں کی سماعت کا آغاز کردیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
ججز کی سنیارٹی سے متعلق تنازع کے دوران قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے کیسوں کی سماعت کا آغاز کردیا۔
رپورٹ کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کی عدالت کمرہ نمبر ایک میں منتقل ہوگئےاور عدالت نمبر ایک میں کیسوں کی سماعت کا آغاز کردیا۔
اس کے علاوہ چیف جسٹس عامر فاروق نے بطور جج سپریم کورٹ حلف اٹھانے سے قبل ہی کورٹ روم خالی کر دیا، جسٹس سرفراز ڈوگر بھی قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھانے سے قبل ہی کورٹ روم ون منتقل ہوگئے۔
گزشتہ روز وفاقی وزارت قانون و انصاف نے صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 مستقل اور ایک قائم مقام جج کے تقرر کی منظوری کے بعد باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا اور ساتھ متعلقہ ہائی کورٹس میں قائم مقام چیف جسٹسز کی تقرری بھی کردی گئی۔
وفاقی وزارت قانون و انصاف کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے صدر مملکت نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی، جسٹس صلاح الدین پہنور، پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل احمد، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سپریم کورٹ میں تقرری کی منظوری دی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قائم مقام چیف جسٹس جسٹس سرفراز ڈوگر
پڑھیں:
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سنیارٹی: اٹارنی جنرل کا مؤقف چیف جسٹس سے برعکس، حقائق سامنے آگئے
قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سردار سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی کے معاملے پر اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کا مؤقف چیف جسٹس پاکستان سے برعکس ہونے کے حوالے سے حقائق سامنے آگئے۔
رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل کا تحریری طور پر جوڈیشل کمیشن میں اپنایا گیا موقف سامنے آگیا، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی سنیارٹی لسٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کا نام نہیں ہونا چاہیے تھا، چیف جسٹس پاکستان نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا اٹارنی جنرل نے میرے موقف کی تائید کی تھی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اور بات کہی تھی اور تحریری طور پر بھی مؤئقف جمع کرایا اور اس کے منٹس بھی جاری کیے جائیں گے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کے تحفظات سے متفق نہیں، ہائی کورٹ سے جج کا ٹرانسفر عارضی نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج کا ٹرانسفر پبلک انٹرسٹ کے تحت کیا گیا، جس کیلئے صدر مملکت،متعلقہ چیف جسٹسز ہائی کورٹ سے مشاورت کی گئی، جسٹس سرفراز ڈوگر سے کہا گیا وہ مفاد عامہ کے تحت اپنی رضا مندی کا اظہار کریں، ٹرانسفر ہونے والے جج نے مفاد عامہ کے تحت ہی تبادلے کیلئے رضامندی ظاہر کی نہ ہی زاتی مفاد کیلئے، جسٹس سرفراز ڈوگر کی سینارٹی سب سے نیچے نہیں کی جاسکتی، نہ ہی جج سول سرونٹ ہوتا ہے۔
منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سنیارٹی سے متعلق سول سرونٹ ملازمین کے رولز کا اطلاق اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر نہیں ہو سکتا، نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سرول سرونٹ ہوتے ہیں، آئین پاکستان نے ججز کیلئے الگ سے جج کی سروس پر شرائط و ضوابط طے کر رکھے ہیں، کسی جج کی سینارٹی کا معاملہ جوڈیشل کمیشن میں نہیں اٹھایا جاسکتا، سینارٹی کا معاملہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کرکے ہی عدالتی سائیڈ پر طے ہو سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب ایک جج ایک ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر دوسری ہائیکورٹ میں آتا ہے اسے نئے حلف لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، آئین میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ ایک جج ٹرانسفر ہوکر دوبارہ حلف لے گا، ایک جج کی نئی تقرری اور تبادلے میں فرق ہے، آرٹیکل 202 کے تحت جب ایک جج کا تقرر ہوتا ہے تو اسے تبادلے پر نئے حلف کی ضرورت نہیں ہے۔
منصور عثمان اعوان نے ماضی میں لاہور ہائی کورٹ کیلے جسٹس فرخ عرفان اور مظاہر نقوی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان اور انور کانسی کی سنیارٹی کا اشو بھی ہائی لائٹ کیا اور بتایا کہ کہ وہ سپریم کورٹ میں ہی طے ہوا۔