مودی کے بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوج مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین کی آبروزیری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس کا مقصد کشمیریوں کو غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد سے روکنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت ہر سال 13 فروری کو خواتین کا ”قومی دن“ مناتا ہے تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں خواتین کو بڑے پیمانے پر تشدد، آبروریزی اور بدسلوکی کا سامنا ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مودی کے دور حکومت میں بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور بھارت اس وقت عصمت دری اور صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں دنیا میں سرفہرست ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک عورت آبروریزی کا نشانہ بنتی ہے جب کہ ہر 30 گھنٹے میں ایک خاتون کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے، دہلی کو عصمت دری کی راجدہانی کا نام دیا گیا ہے جہاں گزشتہ چند سالوں میں لڑکوں کی آبروریزی کے کئی بھیانک واقعات پیش آئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت میں خواتین کو عام طور پر دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، نئی دہلی خواتین کے لیے خطرناک ترین شہروں میں شامل ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوج مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین کی آبروزیری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس کا مقصد کشمیریوں کو غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد سے روکنا ہے۔
بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے متنازعہ علاقے میں جنوری 1989ء سے رواں برس فروری تک 11 ہزار 2 سو 65 کشمیری خواتین کو اجتماعی آبروریزی اور بے مرمتی کا نشانہ بنایا جبکہ اس عرصے کے دوران فورسز کی جابرانہ کارروائیوں کے نتیجے میں 22ہزار 9سو 80خواتین بیوہ ہوئیں۔ بہت سی کشمیری خواتین ”آدھی بیواﺅں“ کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجہور ہیں جن کے شوہروں کو بھارتی فوجیوں نے لاپتہ کر دیا ہے۔ حریت رہنماوں اور انسانی حقوق کے محافظوں نے کہا ہے کہ بھارت ”خواتین کا قومی دن“ منانے کا کوئی حق نہیں رکھتا کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے نام نہاد جمہوری ملک اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین کی جو حالت زار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین کی آبروریزی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور 10 لاکھ سے زائد بھارتی فورسز اہلکاروں نے خواتین اور بچوں سمیت تمام کشمیریوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر مہذب دنیا کے لیے ایک واضح چیلنج ہے، عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا نوٹس لے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین کی بھارت میں خواتین خواتین کے خواتین کو کے خلاف
پڑھیں:
مودی ٹرمپ ملاقات میں تجارت کا پہلو نمایاں ہو گا‘امریکی صدر مزیدتیل خریدنے کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں.تجزیہ نگار
نئی دہلی/واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 فروری ۔2025 )بھارتی وزیراعظم نریندرمودی آج وائٹ ہاﺅس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق نئی دہلی درآمدی محصولات کو کم کرنے‘ غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس لینے اور امریکی تیل خریدنے پر رضامندی کا اظہار کرچکا ہے اور دونوں راہنماﺅں کے درمیان ملاقات سے پہلے ہی بھارت کچھ مصنوعات پر ٹیکس کی شرح میں کمی کر چکا ہے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے امریکہ سے ڈی پورٹ ہونے والے اپنے 104 غیر قانونی شہریوں کو واپس لے چکا ہے.(جاری ہے)
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی کے دورہ امریکہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے باوجود لین دین یعنی تجارت کا پہلو نمایاں ہو گا خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ کے پاس اس حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کے سامنے رکھنے کے لیے امریکی مطالبات کی طویل فہرست ہے مودی کی موجودہ کابینہ کے بہت سے وزرا ان کی پچھلی مدت اقتدار کے دوران بھی خدمات انجام دے رہے تھے اور وہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور سے بخوبی واقف ہیں یہ شناسائی پچھلے مہینے ٹرمپ کے بطور صدر حلف اٹھانے کے بعد سے ظاہر ہونے لگی ہے اور دہلی میں راہنماﺅں نے عوامی طور پر دہلی کی جانب سے اٹھائے گئے اِن پیشگی اقدامات کا مقصد ٹرمپ کو بھارت سے مخصوص مطالبات کرنے سے روکنا اور نئی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تناﺅ کے امکانات کو کم کرنا ہے. امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم مودی سے محصولات میں مزید کمی کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں تاکہ بھارت کے ساتھ امریکی اشیا اور خدمات کے تجارتی خسارے کو دور کیا جا سکے جو کہ حالیہ برسوں میں 46 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے لیکن یہ چیز دہلی کے لیے ایک موقع بھی بن سکتی ہے مودی ٹرمپ سے اقتصادی شراکت داری کے معاہدے پر دو طرفہ بات چیت کے لیے کہہ سکتے ہیں جس کا مقصد دونوں طرف سے محصولات کو کم کرنا ہو گا. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں دہلی نے امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو آگے بڑھانے کی خواہش ظاہر کی ہے ٹرمپ انتظامیہ بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں بات چیت کے لیے زیادہ رضامند ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ نے نئے تجارتی معاہدوں پر ماحولیات اور مزدوروں کی صورتحال سے متعلق بھاری شرائط عائد کی تھیں ٹرمپ مودی سے مزید غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس لینے کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کچھ اندازوں کے مطابق امریکہ میں غیرقانونی بھارتی شہریوں کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کا تیسرا سب سے بڑا گروہ ہیں تاہم دہلی کے لیے بڑی تعداد میں تارکین وطن کو واپس لینا ایک مشکل اور نازک مسئلہ ہو گا. پچھلے ہفتے جب غیر قانونی تارکین وطن کی پہلی کھیپ ہتھکڑیوں‘ بیڑیوں میں اور امریکی فوجی طیارے پر سوار بھارت واپس پہنچی تھی تو ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر کافی شور برپا ہوا تھا اس پر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ہندوستانی حکومت امریکہ کے ساتھ بات کر کے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ بھارتی شہریوں کے ساتھ بدسلوکی نہ کی جائے ٹرمپ مودی سے مزید امریکی تیل خریدنے کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں سال 2021 میں امریکی تیل کی برآمدات میں بھارت سرفہرست تھا لیکن یوکرین پر روسی حملے نے تیل کی عالمی منڈیوں میں بڑی تبدیلیاں کیں اور دہلی نے اپنے قریبی پارٹنر روس سے سستے تیل کی درآمدات کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ایسے میں امریکی تیل کی قیمت اس بات کا تعین کرے گی کہ بھارت امریکہ سے کتنا تیل خریدنے کو تیار ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کر سکتے ہیں بھارت جوہری توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری چاہتا ہے دہلی اپنی جوہری ذمہ داری کے قانون میں ترمیم کر رہا ہے اور اس نے ایک نئے جوہری توانائی مشن کا اعلان بھی کیا ہے دہلی 2030 تک قابل تجدید توانائی کے ذریعے اپنی نصف توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے ٹرمپ سے جوہری ایندھن میں سرمایہ کاری کرنے کا کہنا ایک ممکنہ خوش کن امر ہے کیونکہ یہ پیٹرول وغیرہ سے زیادہ صاف متبادل ہے لیکن یہ شمسی اور ہوا کے ذریعے حاصل کی جانے والی توانائی سے بہت دور ہے اور یہ بات ٹرمپ انتظامیہ کے لیے زیادہ پرکشش نہیں ہو سکتی ٹیکنالوجی کا شعبہ بائیڈن کے دور میں بھارت اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں تیزی سے بڑھنے والا شعبہ تھا اور یہ 2022 میں ”انیشیٹو آن کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز‘ ‘ کے نفاذ کی بدولت تھا اسے دونوں فریق سٹریٹجک شراکت داری کے لیے ایک نئے سنگِ میل کے طور پر دیکھتے ہیں آئی سی ای ٹی براہ راست دو قومی سلامتی مشیروں کی نگرانی میں تھا تاکہ بیوروکریسی کے چکر میں پھنسنے سے بچا جا سکے اس کا مطلب یہ تھا کہ دونوں ممالک اس میں سرمایہ کاری کریں گے. بھارتی وزیراعظم مودی ممکنہ طور پر ٹرمپ اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز سے یقین دہانی چاہیں گے کہ وہ اس معاہدے پر کاربند رہیں چین کا مقابلہ کرنے پر واشنگٹن کی توجہ کو دیکھتے ہوئے وہ بھارت کو ٹیکنالوجی کی عالمی سپلائی چین کا ایک بڑا حصہ بنا کر شاید ایسا کریں گے ٹیک کوآپریشن کے معاملے میں مودی ٹرمپ کو ایچ1 بی ویزا نظام برقرار رکھنے کے لیے کہہ سکتے ہیں یہ ویزا انتہائی ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے ہوتا ہے لیکن اس پر ٹرمپ کے کچھ بااثر حامیوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے اور یہ ویزا امریکہ میں بڑی تعداد میں بھارتی ٹیک ملازمین کو دیا گیا ہے. واشنگٹن میں مودی کی بات چیت کے دوران ایران پر بات ہو سکتی ہے دہلی چابہار شہر میں ایک بندرگاہ تیار کرنے کے لیے تہران کے ساتھ شراکت داری کر رہا ہے یہ ایران اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ساتھ رابطے کو مضبوط کرنے کی وسیع تر بھارتی حکمت عملی کا حصہ ہے اس کے علاوہ بھارت ایرانی تیل کا بھی خریدار ہے. بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی انتظامیہ نے ایک صدارتی میمورنڈم جاری کیا ہے جس میں تہران پر ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباﺅ والی مہم کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اور اس میں چابہار میں تجارتی سرگرمیوں میں شامل ممالک کے لیے پابندیوں سے چھوٹ کو ہٹانے کا اشارہ دیا گیا ہے مودی اس بات کی وضاحت طلب کر سکتے ہیں کہ دہلی کے لیے اس کا کیا مطلب ہے ٹرمپ اپنی وسیع تر خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے ضمن میں یوکرین اور غزہ میں جنگوں کو ختم کرنے پر مودی کی پوزیشن جاننا چاہیں گے ان جنگوں کو ختم کرنے میں دہلی کی گہری دلچسپی ہے مودی پوتن یا روس پر تنقید کیے بغیر تنازع کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ٹرمپ بھی وہاں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں. روس کے ساتھ بھارت کے خصوصی تعلقات اور اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ٹرمپ کو یہ دیکھنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ آیا مودی بھی تیسرے فریق یا ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں مودی شاید صرف اس صورت میں ایسا کرنے میں آسانی محسوس کریں گے جب فریقین بھی بیرونی ثالثی کو قبول کریں لیکن آج ممکنہ طور پر بات چیت کے دوران نازک مرحلے آ سکتے ہیں لیکن ان باوجود دونوں رہنما مثبت لہجہ برقرار رکھنا چاہیں گے اس سلسلے میں انڈو پیسیفک کواڈ بھی زیر بحث آ سکتا ہے ٹرمپ اس گروپ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور یہ امریکہ‘بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل چار فریقی گروپ ہے جس کی توجہ کا مرکز بیجنگ کا مقابلہ کرنا ہے. واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ اپنی پہلی مدت میں ٹرمپ نے کواڈ کی سالانہ میٹنگز کو وزیر خارجہ کی سطح تک محدود رکھا تھا لیکن بائیڈن نے انہیںسربراہوں کی سطح تک بڑھا دیا رواں سال بھارت کواڈ میٹنگ کی میزبانی کرنے والا ہے اور مودی اس میں شرکت کے لیے ٹرمپ کو دہلی مدعو کر سکتے ہیں مبینہ طور پر ٹرمپ بین الاقوامی سفر کے بہت پرستار نہیں ہیں لیکن مودی کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کو گہرا کرنے اور کثیر جہتی دو طرفہ شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لیے شاید وہ بھارتی کا دورہ کرنے کے خواہاں ہوں گے.