پنجاب کی خواتین کی یونیورسٹیوں سے مرد ٹیچرز اور پروفیسرز کو ہٹانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے مزید کہا کہ پیپرز لینے اور چیکنگ کا سسٹم تبدیل کرنے کیلئے تمام یونیورسٹی انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ خواتین یونیورسٹیوں میں مرد پروفیسرز ٹیچرز کو ہٹانے فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وائس چانسلرز اور پروفیسرز کی کارکردگی کیلئے پرفارما تقسیم کیے جائیں گے۔ کارکردگی کی بنیاد پر سزا اور جزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب کی خواتین کی یونیورسٹیوں سے مرد ٹیچرز اور پروفیسرز کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یونیورسٹیوں میں طالبات کو ہراساں کرنیوالوں کو سخت سزائیں ہوں گی۔ خواتین کو بلیک میلنگ سے بچانے کیلئے پیپرز بنانے اور ان کی چیکنگ کا نظام تبدیل کر رہے ہیں۔ سردار سلیم حیدر نے مزید کہا کہ پیپرز لینے اور چیکنگ کا سسٹم تبدیل کرنے کیلئے تمام یونیورسٹی انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ خواتین یونیورسٹیوں میں مرد پروفیسرز ٹیچرز کو ہٹانے فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وائس چانسلرز اور پروفیسرز کی کارکردگی کیلئے پرفارما تقسیم کیے جائیں گے۔ کارکردگی کی بنیاد پر سزا اور جزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور پروفیسرز کارکردگی کی کا فیصلہ کو ہٹانے
پڑھیں:
جیل رولز تبدیل، کتنے قیدی اپنے آبائی علاقوں کی جیل میں منتقل کیے گئے؟
پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے تقریبا 4 سو سے زائد رولز ہیں، جن میں سے تقریباً سو کے قریب رولز ایسے ہیں جن میں تبدیلی کی جاچکی ہے، کچھ عرصہ قبل ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں انہی رولز پر عمل درآمد کی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ان رولز میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سزا یافتہ قیدیوں کو ان کے آبائی علاقوں میں قائم جیلوں میں سزا پوری کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اس سے قبل جیل رولز کے مطابق جس علاقے میں کوئی جرم سرزد ہوتا تھا تو مجرم کو اس علاقے کی جیل میں سزا پوری کرنا ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی، حیران کن اعدادوشمار سامنے آگئے
تاہم اب ان رولز کو تبدیل کر دیا گیا ہے، اب اگر پنجاب کے کسی بھی حصے میں بھی کوئی شخص جرم کرتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اسے سزا ہو جاتی ہے تو ایسے مجرم کو واپس اس کے علاقے میں موجود جیل میں بھیجا جائے گا۔
ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق اب تک ایک ہزار کے قریب ایسے قیدی ہیں جنہیں انہوں کے آبائی علاقوں کی جیل میں منتقل کیا گیا ہے، ان رولز میں تبدیلی کا ایک ہی مقصد ہے کہ خاندان کے دیگر افراد کو مجرمین سے ملاقات میں آسانی ہو۔
مزید پڑھیں: پنجاب کی 43 جیلوں میں 9200 جدید کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ
صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو ان رولز سے فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ان کی رہائش اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں ہے، اور مختلف مقدمات میں ابھی ان کا ٹرائل جاری ہے، لہذا انہیں اڈیالہ جیل سے ابھی کہیں اور شفٹ نہیں جا سکتا۔
ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق مذکورہ رول کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب ایک مجرم کو عدالتوں کی طرف سے سزا ہو جائے اور وہ کسی دوسرے شہر میں ہو تو اس رول کے تحت اس کے آبائی ضلع کی جیل میں شفٹ کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: آئی جی جیل پنجاب کا دورہ اڈیالہ جیل، نئے تعینات افسران سے ملاقات
محکمہ داخلہ اب جیل میں قیدیوں کو مشقت کے بدلے معاوضہ بھی دے رہی ہے کیونکہ نئے رولز کے تحت اب جیلوں میں قیدی مفت کام نہیں کریں گے، اس حوالے سے مختلف جیلوں میں ان ہاؤس فیکٹریاں بھی قائم کردی گئی ہیں جہاں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ سے مختلف مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں۔
’ان مصنوعات کو مارکیٹ میں بیچ کر قیدیوں کو معاوضہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ قیدیوں کو بامشقت سزا پوری کرنے کے بدلے رقم بھی فراہم کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب کی جیلوں میں اے آئی ٹیکنالوجی سے لیس کیمروں کی تنصیب کا فیصلہ
صرف یہی نہیں محکمہ داخلہ کی جانب یہ رول بھی بنایا گیا کہ جیل میں قید کسی ملزم کے پاس وکیل کرنے کی مالی سکت نہیں تو صوبائی حکومت اسے اپنے خرچ پر وکیل فراہم کرے گی۔
’قیدی اس ضمن میں ایک دارخوست سپرنٹینڈنٹ جیل کو دے گا، جس کے بعد اس کیس کی نوعیت دیکھ محکمہ داخلہ اسے مفت وکیل کی خدمات حاصل کردے گا، پنجاب کی مختلف بارز سے اس حوالے سے معاہدے بھی ہوچکے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اڈیالہ جیل اسلام اباد بنی گالہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ پنجاب سپرنٹینڈنٹ جیل محکمہ داخلہ مفت وکیل